جدید سائنس اور عصری تقاضے
اس مضمون کے خالق ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی ہیں جو کہ ایک مسلم مفکر اور
محقق ہیں۔ انہوںنے سائنس کے موضوعات پر بہت سے مضامین لکھے ہیں۔ عام طور پر
یہ سمجھا جاتا ہے کہ تحقیقی و تاریخی اور سائنسی موضوعات پر قلم اٹھاتے
ہوئے نہ ادبی زبان کام دیتی ہے نہ سادہ بیانی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس دعوے
کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ کسی نے ان کے بارے میں یہ درست کہا ہے کہ
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے علمِ سائنس کی جامع تاریخی اس طرح رقم کردی ہے کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا جائے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سائنس ایک تجزیاتی علم ہے جس کے ثمرات فوری طور پر مل جاتے ہیں۔ یہی اس کی بڑھتی ہوئی ترقی کا اصل سبب ہے۔ علمِ سائنس کے آغاز کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ علم کی ابتداءبھی مردم خیز سرزمین یونان میں ہوئی لیکن یہاں یہ علم فروغ نہ پاسکا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ یہاں بڑے بڑے فلسفی پیدا ہوئے جو کسی چیز کے بارے میں دعوے تو کردیتے تھے لیکن تجربات سے گریز کرتے تھے۔
اس کے بعد جب مسلمانوں کا دور آیا تو انہوں نے اس اس علم سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ تجربے خانے بنائے اور بڑی یکسوئی اور لگن سے اس علم کو حاصل کیا۔ چنانچہ اس دور کے ہر شعبے میں مسلمان سائنسدانوں نے اپنے کمالات دکھائی اور بے شمار ایجادات کیں۔ اس دور کے نامور سائنسدانوں میں زہراوی‘ البیرونی‘ قزوینی‘ دمیری اور جابربن حیان وغیرہ شامل ہیں۔
تیرہویں صدی عیسوی میں دلخراش واقع رونما ہوا کہ سائنسی ترقی کا کام مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر اہلِ مغرب کے ہاتھوں میں چلا گیا اور اہلِ مغرب نے اس علم سی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جس کا انہیں فوری طور پر تو یہ انعام ملا کہ وہ ایک صنعتی انقلاب کے محرک بنے اور پھر زندگی کے ہر شعبے میں انہوں نے بے انتہا ترقی کی۔ انہوں نے بحروبر اور خشک و تر مسخر کیا اور چاند کی سرزمین پر پہنچے وہ ترقی کی انتہائی منزلوں تک جا پہنچے اور اب بھی وہ ترقی کا یہ سفر تیزگامی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بقول شاعر
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ سائنس کی ایجادات میں دو بڑی اہم ہیں۔ ایک پہیہ اور دوسری بجلی کی ایجاد۔ اگر یہ دونوں ایجادات ہماری زندگی سے روپوش ہوجائیں تو سائنسی ترقی کا سارا عمل رک جائے اور ہم صدیوں پیچھے چلے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے علمِ سائنس کے کارناموں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے علم سائنس کی ترقی کے روشن امکانات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سائنسی ترقی ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ چنانچہ اکیسویں صدی میں ایک صنعتی انقلاب متوقع ہے اور جن قوموں کے ہاتھوں سے یہ انقلاب رونما ہوا وہی اقوام دنیا کی قیادت اور رہنمائی کی اہل ہونگی۔ ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں اکہ اہلِ پاکستان بھی اس انقلاب کے لانے والوں مےں پیش پیش رہے۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہےں کہ قرآن پاک علمِ سائنس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ایسی تمام تر ترقی کے واضح اشارات قرآن پاک میں موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کا یہ اعجاز دیکھ کر حال میں ہی ایک فرانسیسی سائنسدان ڈاکٹر مورس بوکائے مشرف بہ اسلام ہواہے۔
انہوں نے سائنسی اصطلاحات کو اردو میں اس خوبی سے ڈھالا ہے کہ وہ سب کیلئیے مسرت بخش ہوگئی۔
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے علمِ سائنس کی جامع تاریخی اس طرح رقم کردی ہے کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا جائے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سائنس ایک تجزیاتی علم ہے جس کے ثمرات فوری طور پر مل جاتے ہیں۔ یہی اس کی بڑھتی ہوئی ترقی کا اصل سبب ہے۔ علمِ سائنس کے آغاز کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ علم کی ابتداءبھی مردم خیز سرزمین یونان میں ہوئی لیکن یہاں یہ علم فروغ نہ پاسکا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ یہاں بڑے بڑے فلسفی پیدا ہوئے جو کسی چیز کے بارے میں دعوے تو کردیتے تھے لیکن تجربات سے گریز کرتے تھے۔
اس کے بعد جب مسلمانوں کا دور آیا تو انہوں نے اس اس علم سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ تجربے خانے بنائے اور بڑی یکسوئی اور لگن سے اس علم کو حاصل کیا۔ چنانچہ اس دور کے ہر شعبے میں مسلمان سائنسدانوں نے اپنے کمالات دکھائی اور بے شمار ایجادات کیں۔ اس دور کے نامور سائنسدانوں میں زہراوی‘ البیرونی‘ قزوینی‘ دمیری اور جابربن حیان وغیرہ شامل ہیں۔
تیرہویں صدی عیسوی میں دلخراش واقع رونما ہوا کہ سائنسی ترقی کا کام مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر اہلِ مغرب کے ہاتھوں میں چلا گیا اور اہلِ مغرب نے اس علم سی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جس کا انہیں فوری طور پر تو یہ انعام ملا کہ وہ ایک صنعتی انقلاب کے محرک بنے اور پھر زندگی کے ہر شعبے میں انہوں نے بے انتہا ترقی کی۔ انہوں نے بحروبر اور خشک و تر مسخر کیا اور چاند کی سرزمین پر پہنچے وہ ترقی کی انتہائی منزلوں تک جا پہنچے اور اب بھی وہ ترقی کا یہ سفر تیزگامی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بقول شاعر
ہے جستجو خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئیے جاکر نظر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئیے جاکر نظر کہاں
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ سائنس کی ایجادات میں دو بڑی اہم ہیں۔ ایک پہیہ اور دوسری بجلی کی ایجاد۔ اگر یہ دونوں ایجادات ہماری زندگی سے روپوش ہوجائیں تو سائنسی ترقی کا سارا عمل رک جائے اور ہم صدیوں پیچھے چلے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے علمِ سائنس کے کارناموں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ
بیماروں کے لئے یہ آبِ شفا ہے‘ کسانوں کیلئے خوشی کی کلید اور اہلِ صنعت کیلئے یہ جادو کی چھڑی ہے۔
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے علم سائنس کی ترقی کے روشن امکانات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سائنسی ترقی ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ چنانچہ اکیسویں صدی میں ایک صنعتی انقلاب متوقع ہے اور جن قوموں کے ہاتھوں سے یہ انقلاب رونما ہوا وہی اقوام دنیا کی قیادت اور رہنمائی کی اہل ہونگی۔ ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں اکہ اہلِ پاکستان بھی اس انقلاب کے لانے والوں مےں پیش پیش رہے۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہےں کہ قرآن پاک علمِ سائنس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ایسی تمام تر ترقی کے واضح اشارات قرآن پاک میں موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کا یہ اعجاز دیکھ کر حال میں ہی ایک فرانسیسی سائنسدان ڈاکٹر مورس بوکائے مشرف بہ اسلام ہواہے۔
No comments:
Post a Comment