Thursday, August 23, 2012

Class XI, Urdu, "جدید سائنس اور عضری تقاضے"

جدید سائنس اور عضری تقاضے

حوالہ
پیشِ نظر عبارت مضمون جدید سائنس اور عضری تقاضے سے ماخوذ ہے جس کے مصنف ڈاکٹر حفیظ الرحمن ہیں۔
تعارفِ مصنف
ڈاکٹر حفیظ الرحمن اردو کے دورِ حاضر کے مشہور دانشور اور محقق ہیں جنھوں نے سائنسی علوم کو اشاعت و ترویج اور مسلمانوں کو ان علوم کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیاان کی تحریریں پرجوش اور سیدھے سادھے طرز کی حامل ہیں۔ یہ تحریریں ان کے وسیع مطالع کی آئینہ دار ہیں۔
اقتباس ۱
ان دونوں ایجادات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ دونوں‘ چشمِ تصور میں‘ واپس لے لئے جائیں تو سائنس کی تمام ترقیاں یکلخت رک جائیں اور انسانی معاشروں صدیوں پیچھے چلا جائے۔
ربطِ ما قبل
ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے ان سطور سے قبل اپنے مضمون میں سائنس کے ارتقاءکو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائنس کے طفیل انسان نے حیرت انگیز ایجادات کی ہیںجنھوں نے انسانی زندگی انقلاب برپا کردیا۔ دیگر ایجادات کے علاوہ دو ایجات یعنی پہیہ اور بجلی ایسی ایجادات ہیں جن کو ترقی کی اساس اور روح قرار دیا جاسکتا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر سطر میں مذکورہ بالا ایجات یعنی پہیہ اور بجلی کے ثمرات کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہیہ اور بجلی کی ایجادات نہ ہوتیں تو انسانی معاشرے کی ترقی کا تصور محال تھا۔معاشرے کو جو کچھ ملا وہ انہی ایجادات سے ملا۔ اگر بجلی اور پہیہ نہ ہوتے تو ہمارا معاشرہ صدیوں پیچھے کھڑا ہوتااور ترقی کے کوئی آثار نہ ہوتے کہ ساری ترقی یکدم رک جاتی اور ایسا محسوس ہوتا کہ ہم پتھر اور غار کے زمانے میں واپس آگئے ہیں
اقتباس ۲
اس نے انسان کے لئے زندگی آرام دہ اور فرحت بخش بنادی ہے۔ بیماروں کے لئے یہ آبِ شفا ہے۔ کسانوں کے لئے یہ خوشحالی کی کلید ہے۔ اہلِ صنعت کے لئے یہ جادو کی چھڑی ہے۔کاروبارِ حیات کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لئے یہ قوتِ توانی کا سب سے بڑا منبع ہے اور دنیا میں انسان کی روزافزوں آبادی کی کفالت کی ضمانت ہے۔
ربطِ ما قبل
ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے ان سطور سے قبل اپنے مضمون میں سائنس کے ارتقاءکو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائنس کے طفیل انسان نے حیرت انگیز ایجادات کی ہیںجنھوں نے انسانی زندگی انقلاب برپا کردیا۔ دیگر ایجادات کے علاوہ دو ایجات یعنی پہیہ اور بجلی ایسی ایجادات ہیں جن کو ترقی کی اساس اور روح قرار دیا جاسکتا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ سائنس جو کبھی شوقیہ علم کا درجہ رکھتی تھی اب انسان کی ضرورت’ اس کی حاجات اور معاشرے کی ترقی کی اسا اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے طفیل انسان کی زندگی آسائشوں‘ سکون اور راحت و طمانیت سے بہرہور ہوتی ہے۔ زندگی کی رنگینیاں اسی کی دین ہے۔ اسی علم کی ترقی کی وجہ سے ہم لاعلاج بیماریوں سے چھٹکارا پانے کے قابل ہوئے اور وہ امراض جنھیں موت کا پیغام سمجھا جاتا تھا‘ اان سے نجات مل گئی۔ علومِ سائنس کی وجہ سے ہی زرعی انقلاب برپا ہوا۔ وسیع وعریض زرخیز زمین جو کسانوں اور دہقانوں کی شب و روز محنت اور بے حد خون پسینہ بہانے پر کچھ اناج پیدا کرتی تھی سائنسی ترقی و تحقیق کے طفیل ایجاد ہونے والے آلات و زراعت اور تحقیقی نتائج کی بدولت تئی گنا زیادہ اناج اگلنے لگی۔ جس سے کسان خوشحال ہوگئے اور ان کو ان کی محنتوں سے زیادہ ثمرات ملنے لگے۔
اسی طرح صنعت کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہوگئی۔ صنعت کاروں کی چاندی بن گئی دنوں کا کام گھنٹوں میں کیا جانے لگا۔ سائنسی ایجادات الہٰ دین کا چراغ ثابت ہونے لگیں منھوںنے انسانی معاشرے کو ترقی کے بلند ترین مقام پر پہنچادیا۔ غرض یہ کہ سائنسی ترقی نے انسانی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ اس قدر تیز رفتار ہو گئی جتنی کبھی نہ تھی۔ انسانی آبادی میں روز بروز اضاے نے جو مسائل جنم لئے تھے سائنس نے اس کا حل اور وسائل ہم تک پہنچادئے اس طرح سائنس انسان کے لئے رحمت ثابت ہوئی جس کے زیرِ سایہ اسے ترقی اور تحفظ نصیب ہوا

No comments:

Post a Comment