مولانا عبدالحلیم شرر
ایک تعارف
جس طرح اردو میں معاشرتی اور اصلاحی ناول نگاری کی ابتداءمولوی نذیر
احمد سے ہوتی ہے۔ اس طرح تاریخی ناول لکھنے کا سہرا مولانا عبدالحلیم شرر
کے سر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ناول لکھنا ان دونوں بزرگوں کا مقصد نہ تھا بلکہ
اصلاح قوم کا مقصد مدِنظر تھا اس لئے اگر ان کے ناول آج کے معیارِ ناول
نویسی پر پورے نہیں اترتے تو قصور ان کا نہیں بلکہ ان نقادوں کا ہے جو ان
بزرگوں کو ان کے دور سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ دونوں اپنے دور کے مقبول ترین
ناول نگار تھے۔ نذیر احمد کے برعکس شرر بڑے زود نویس تھے۔ اپنے رسالے
دلگداز کے لئے بالاقساط لکھتے اور لکھتے ہی چلے جاتے۔ لوگ ہاتھوں ہاتھ
لیتے۔ بغیر اجازت کتابی صورت میں چھاپ بھی دیتے۔ شرر کو فرصت کہاں کہ وہ
اپنے کرداروں‘ مکالموں‘ زبان وبیان کی اغلاط درست کرتے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ
تصنیفات کا ایک پہاڑ کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے صرف تاریخی ناول ہی نہیں لکھے‘
ڈرامے لکھے‘ نظمیں لکھےں‘ خیالی‘ تخلیقی‘ مذہبی اور اصلاحی موضوعات پر
مضامین لکھے جو آٹھ ضخیم جلدوں میں شائیع ہوئے۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
شرر کی طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) مدعانویسی
شرر بھی ایک مقصدی ادیب ہیں وہ سرسید کے مقتدی نہ سہی معتقد ضرور تھے۔ تاریخی ناول لکھنے سے ان کا مدعایہ تھا کہ عیسائی مشزیوں اور انگریز مصنفین خصوصاً والٹر اسکاٹ نے صلیبی جنگوں پر خامہ فرسائی کرتے وقت مسلمانوں کا کردار جو مسخ کرکے دکھایا ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ چنانچہ شررنے اپنے ناولوں اور مضامین کے ذریعے مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی تصویر کو دکھا کر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ناولوں کے علاوہ مختلف مضامین میں بھی انہوں نے مسلمانوں کی دینی‘ تہذیبی اور معاشرتی اصلاح کو مدِ نظر رکھا۔
شرر بھی ایک مقصدی ادیب ہیں وہ سرسید کے مقتدی نہ سہی معتقد ضرور تھے۔ تاریخی ناول لکھنے سے ان کا مدعایہ تھا کہ عیسائی مشزیوں اور انگریز مصنفین خصوصاً والٹر اسکاٹ نے صلیبی جنگوں پر خامہ فرسائی کرتے وقت مسلمانوں کا کردار جو مسخ کرکے دکھایا ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ چنانچہ شررنے اپنے ناولوں اور مضامین کے ذریعے مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی تصویر کو دکھا کر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ناولوں کے علاوہ مختلف مضامین میں بھی انہوں نے مسلمانوں کی دینی‘ تہذیبی اور معاشرتی اصلاح کو مدِ نظر رکھا۔
(۲) استدلال
شرر کی تحریر کی دوسری خوبی جو انہیں سرسید گروپ کے قریب لے جاتی ہے وہ ہے استدلال۔ وہ خشک واعظ نہیں۔ وہ اپنی بات پڑھنے والے سے منوانے کے لئے قرآنی آیات‘ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون قدر نعمت بعد زوال میں قرآنی آیات‘ تاریخی دلائل دے کر اپنے موضوع کو موثر بنایا ہے۔ استدلالیت کے باوجود وہ سرسید گروپ کے عقلیت اور منطق سے دور رہے اور اس وجہ ان کا طبعی رحجان ہے جو تاریخ کی طرف راغب ہے۔
شرر کی تحریر کی دوسری خوبی جو انہیں سرسید گروپ کے قریب لے جاتی ہے وہ ہے استدلال۔ وہ خشک واعظ نہیں۔ وہ اپنی بات پڑھنے والے سے منوانے کے لئے قرآنی آیات‘ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون قدر نعمت بعد زوال میں قرآنی آیات‘ تاریخی دلائل دے کر اپنے موضوع کو موثر بنایا ہے۔ استدلالیت کے باوجود وہ سرسید گروپ کے عقلیت اور منطق سے دور رہے اور اس وجہ ان کا طبعی رحجان ہے جو تاریخ کی طرف راغب ہے۔
(۳) رومانیت
شرر کو رومانی دبستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ رومان میں حسن و عشق کے قصے ہوتے ہیں۔ جذبہ و تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے اور یہی چیزیں ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر ناول حسن و عشق کے موضوع کے گرد کھومتے ہیں۔ ان ناولوں کی فضا میں بھی ایک حسن رچا بسا ہے۔ وہ جذب کا عالم تو نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے رومانوی مصنفین مثلاً قاضی عبدالغفار‘ سجاد حیدر‘ یلدرم اور نیاز فتح پوری کی تحریروں کا طرہ امتیاز ہے۔ تاہم اس کے ابتدائی نمونے شرر کے ہاں ضرور نظر آتے ہیں۔
شرر کو رومانی دبستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ رومان میں حسن و عشق کے قصے ہوتے ہیں۔ جذبہ و تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے اور یہی چیزیں ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر ناول حسن و عشق کے موضوع کے گرد کھومتے ہیں۔ ان ناولوں کی فضا میں بھی ایک حسن رچا بسا ہے۔ وہ جذب کا عالم تو نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے رومانوی مصنفین مثلاً قاضی عبدالغفار‘ سجاد حیدر‘ یلدرم اور نیاز فتح پوری کی تحریروں کا طرہ امتیاز ہے۔ تاہم اس کے ابتدائی نمونے شرر کے ہاں ضرور نظر آتے ہیں۔
(۴) خیال آفرینی‘ تخیل
شرر شاعرانہ مزاج رکئتے تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں کے علاوہ اپنے مضامین میں بھی خیال آفرینی کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بلکہ ان کے مضامین کا ایک بڑا حصہ ان کے تخیلی مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ خیال آفرینی انہیں آزاد کے قریب لے جاتی ہے ان کی خیال آفرینی اس وقت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے جب وہ کسی مقام کی منظرکشی کرتے ہیں۔ ان کے سب سے مقبول اور مشہور ناول فردوس بریں میں خیال آفرینی کے عمدہ نمونے بکثرت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ حسن بن صباح کی جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں تو ان کی خیال آفرینی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تخیل کی بلند پروازی کی بناءپر وہ آزاد کی طرح‘ بعض ناممکن واقعات کو ممکنات کی حد میں لاکھڑاکرتے ہیں۔
شرر شاعرانہ مزاج رکئتے تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں کے علاوہ اپنے مضامین میں بھی خیال آفرینی کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بلکہ ان کے مضامین کا ایک بڑا حصہ ان کے تخیلی مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ خیال آفرینی انہیں آزاد کے قریب لے جاتی ہے ان کی خیال آفرینی اس وقت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے جب وہ کسی مقام کی منظرکشی کرتے ہیں۔ ان کے سب سے مقبول اور مشہور ناول فردوس بریں میں خیال آفرینی کے عمدہ نمونے بکثرت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ حسن بن صباح کی جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں تو ان کی خیال آفرینی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تخیل کی بلند پروازی کی بناءپر وہ آزاد کی طرح‘ بعض ناممکن واقعات کو ممکنات کی حد میں لاکھڑاکرتے ہیں۔
(۵) مکالمہ نگاری
شرر اپنے ناولوں میں مکالمہ نگاری سے بھی کام لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے مکالموں میں جان نہیں۔ مزید برآں ان کے مکالمے بڑے طویل ہوتے ہیں۔ جن سے قاری جلد اکتا جاتا ہے۔ ان کے پیش رو نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار مکالمہ کے بادشاہ تھے۔ مکالمہ ان کے ناولوں کی جان ہے۔ مگر شرر نے ان سے کوئی فیض نہیں پایا۔
شرر اپنے ناولوں میں مکالمہ نگاری سے بھی کام لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے مکالموں میں جان نہیں۔ مزید برآں ان کے مکالمے بڑے طویل ہوتے ہیں۔ جن سے قاری جلد اکتا جاتا ہے۔ ان کے پیش رو نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار مکالمہ کے بادشاہ تھے۔ مکالمہ ان کے ناولوں کی جان ہے۔ مگر شرر نے ان سے کوئی فیض نہیں پایا۔
(۶) کردارنگاری
اگرچہ شرر کا مدعا مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی داستان سناکر ان کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنا تھا مگر ان سے ایک زبردست غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ایسی نامور ہستیوں پر قلم اٹھایا جو تاریخی اعتبار سے پہلے ہی زندہ و پائندہ تھیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار ابھر نہیں سکے۔ ان کے کردار بے جان‘ چپ چاپ اور حسن و عشق کی باتوں سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔ فردوس بریں کا ہیرو حسین اور ہیروئن زنرد اسکی واضح مثال ہیں۔ پورے ناول میں البتہ علی وجودی کا کردار اپنی پراسرار شخصیت ‘ اپنے اعمال و افعال کی بناء پر ایک مکمل کردار کہا جاسکتا ہے۔
اگرچہ شرر کا مدعا مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کی داستان سناکر ان کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنا تھا مگر ان سے ایک زبردست غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ایسی نامور ہستیوں پر قلم اٹھایا جو تاریخی اعتبار سے پہلے ہی زندہ و پائندہ تھیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار ابھر نہیں سکے۔ ان کے کردار بے جان‘ چپ چاپ اور حسن و عشق کی باتوں سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔ فردوس بریں کا ہیرو حسین اور ہیروئن زنرد اسکی واضح مثال ہیں۔ پورے ناول میں البتہ علی وجودی کا کردار اپنی پراسرار شخصیت ‘ اپنے اعمال و افعال کی بناء پر ایک مکمل کردار کہا جاسکتا ہے۔
(۷) قوت اور جوشِ بیان
شبلی کی ایک نمایاں خصوصیت قوت اور جوشِ بیان کی مکمل جھلک ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہے۔ وہ بھی اپنی بات کو خلوص دل سے کہتے ہیں اور پرجوش اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کے دل و دماغ کو مسخر کرلیتے ہیں۔ وہ بھی شبلی کی طرح اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کی خطابت کی جھلک ناولوں میں ہی نہیں بلکہ مختلف مضامین میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض مقام پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم تقریر سن رہے ہیں۔
شبلی کی ایک نمایاں خصوصیت قوت اور جوشِ بیان کی مکمل جھلک ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہے۔ وہ بھی اپنی بات کو خلوص دل سے کہتے ہیں اور پرجوش اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کے دل و دماغ کو مسخر کرلیتے ہیں۔ وہ بھی شبلی کی طرح اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کی خطابت کی جھلک ناولوں میں ہی نہیں بلکہ مختلف مضامین میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض مقام پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم تقریر سن رہے ہیں۔
(۸) پرتکلف منظر نگاری
ناکام کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے باوجود جو چیز قاری کو ان کے ناول دلچسپی سے پڑھنے پر مجبور کرتی ہے وہ ان کی پرتکلف منظر نگاری ہے۔ شرر لکھنﺅی تھے اور اردو ان کے گھر کی باندی تھی۔ منظر نگاری کے موقع پر انہوں نے اس سے خوب سے کام لیا۔ خوبصورت‘ خوش آہنگ الفاظ‘ تشبیہ اور استعارہ کی چاشنی اور تخیل کی بلند پروازی نے مل کر ان کی منظرکشی میں جان ڈال دی ہے۔بعض لوگ شرر کو ناکام منظرنگار کہتے ہیں جو حقیقت سے بالکل برعکس ہے۔
پروفیسر سلیم نے سچ کہا ہے کہ:
ناکام کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے باوجود جو چیز قاری کو ان کے ناول دلچسپی سے پڑھنے پر مجبور کرتی ہے وہ ان کی پرتکلف منظر نگاری ہے۔ شرر لکھنﺅی تھے اور اردو ان کے گھر کی باندی تھی۔ منظر نگاری کے موقع پر انہوں نے اس سے خوب سے کام لیا۔ خوبصورت‘ خوش آہنگ الفاظ‘ تشبیہ اور استعارہ کی چاشنی اور تخیل کی بلند پروازی نے مل کر ان کی منظرکشی میں جان ڈال دی ہے۔بعض لوگ شرر کو ناکام منظرنگار کہتے ہیں جو حقیقت سے بالکل برعکس ہے۔
پروفیسر سلیم نے سچ کہا ہے کہ:
شرر رنگینی بیان کے اتنے شائق ہیں کہ ان کی منظر نگاری‘ بہاریہ قصیدہ کی تشبیب بن جاتی ہے۔
(۹) جذبات نگاری
شرر کو جذبات نگاری پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔ ان کے کردار بے جان اور جنگ کے مردِ میدان نہ ہونے کہ باوجود عشق کے مردِ میدان ضرور ہیں۔ حسن و عشق یعنی عاشق اور معشوق کے دلوں میں مختلف موقعوں پر جو مختلف واردات اور کیفیات طاری ہوتی ہیں‘ شرر ان کا ہوبہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔
اردو ادب کی تاریخ کے مصنف رام بابو سکسینہ نے ان کی جذبات نگاری کے باری میں لکھا ہے:
شرر کو جذبات نگاری پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔ ان کے کردار بے جان اور جنگ کے مردِ میدان نہ ہونے کہ باوجود عشق کے مردِ میدان ضرور ہیں۔ حسن و عشق یعنی عاشق اور معشوق کے دلوں میں مختلف موقعوں پر جو مختلف واردات اور کیفیات طاری ہوتی ہیں‘ شرر ان کا ہوبہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔
اردو ادب کی تاریخ کے مصنف رام بابو سکسینہ نے ان کی جذبات نگاری کے باری میں لکھا ہے:
شرر سچ یہ ہے کہ اردو لٹریچر کی دنیا میں ایک چابکدست مصور ہیں اور جذباتِ انسانی پر حکومت کرنے والے بادشاہ ہیں۔
(۰۱) سبک اور شگفتہ انداز
شرر کی نثر دلکش اور شگفتہ ہے۔ انہوں نے میر امن کی سلاست‘ سرسید کی مقصدیت اور سادگی اور شبلی کی دینی حمیت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے جسے قبولِ عام حاصل ہوا ہے۔ ان کی مضامین میں انشائے لطیف کی چاشنی ملتی ہے۔
شرر کی نثر دلکش اور شگفتہ ہے۔ انہوں نے میر امن کی سلاست‘ سرسید کی مقصدیت اور سادگی اور شبلی کی دینی حمیت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے جسے قبولِ عام حاصل ہوا ہے۔ ان کی مضامین میں انشائے لطیف کی چاشنی ملتی ہے۔
(۱۱) عربی اور فارسی ادب سے استفادہ
شرر کا شاعرانہ اور ادبی ذوق بہت شستہ اور لطیف تھا۔ وہ اردو زبان کے شاعر بھی تھے۔ عربی اور فارسی سبقاً سبقاً پڑھی تھی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں موقع بہ موقع ان زبانوں کے اشعار‘ ضرب الامثال اور مقولے آتے ہیں اور بیان کی لطافت اور دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔
شرر کا شاعرانہ اور ادبی ذوق بہت شستہ اور لطیف تھا۔ وہ اردو زبان کے شاعر بھی تھے۔ عربی اور فارسی سبقاً سبقاً پڑھی تھی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں موقع بہ موقع ان زبانوں کے اشعار‘ ضرب الامثال اور مقولے آتے ہیں اور بیان کی لطافت اور دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔
(۲۱) اردو کے کلاسیکی ادب سے استفادہ
شرر اپنی تحریروں میں صرف عربی اور فارسی ادب ہی سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ اردو کلاسیکی ادب بھی ان کے پیشِ نظررہتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں قدیم اردو شعراءکے اشعار اور داستانی ادب کے مقولے‘ ضرب الامثال اور تلمیحات موقع محل کی مناسبت سے استعمال کی ہیں جو انکے اسلوب کو خوبصورت اور موثر بنادیتی ہیں۔
شرر اپنی تحریروں میں صرف عربی اور فارسی ادب ہی سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ اردو کلاسیکی ادب بھی ان کے پیشِ نظررہتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں قدیم اردو شعراءکے اشعار اور داستانی ادب کے مقولے‘ ضرب الامثال اور تلمیحات موقع محل کی مناسبت سے استعمال کی ہیں جو انکے اسلوب کو خوبصورت اور موثر بنادیتی ہیں۔
(۳۱) انگریزی الفاط کا استعمال
سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی تحریروں میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہوا ہے۔ شرر اگرچہ براہ راست سرسید احمد خان اور انکی تحریک کے زیراثر نہ تھے۔ لیکن ان کے دبستان کی بعض باتیں غیر محسوس طور پر ان کے طرز نگارش میں بھی داخل ہوگئیں۔ چنانچہ شرر کے ہاں بھی کہیں کہیں انگریزی الفاظ کا استعمال دکھائی دیتا ہے جو ناگوار نہیں گزرتا۔
سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی تحریروں میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہوا ہے۔ شرر اگرچہ براہ راست سرسید احمد خان اور انکی تحریک کے زیراثر نہ تھے۔ لیکن ان کے دبستان کی بعض باتیں غیر محسوس طور پر ان کے طرز نگارش میں بھی داخل ہوگئیں۔ چنانچہ شرر کے ہاں بھی کہیں کہیں انگریزی الفاظ کا استعمال دکھائی دیتا ہے جو ناگوار نہیں گزرتا۔
(۴۱) سلاست و روانی
شرر کے بیشتر موضوعات علمی اور تاریخی تھے۔ تاہم ان کا اسلوب اس قدر شگفتہ ہے کہ کہیں مشکل نویسی کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی تحریریں رواں دواں ہیں۔ یہ خصوصیت دراصل شرر کی کمال مشاقی اور اظہار و بیان پر ان کی کامل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شرر کے بیشتر موضوعات علمی اور تاریخی تھے۔ تاہم ان کا اسلوب اس قدر شگفتہ ہے کہ کہیں مشکل نویسی کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی تحریریں رواں دواں ہیں۔ یہ خصوصیت دراصل شرر کی کمال مشاقی اور اظہار و بیان پر ان کی کامل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
(۵۱) قواعد زبان سے انحراف
شرر زبان کی سلاست اور روانی کو قائم رکھنے اور بے تکلف اظہار مدعا کے لئے بعض اوقات زبان کے لگے بندھے قواعد سے انحراف بھی کرلیتے ہیں۔ مثلاً وہ علمی الفاظ و اصطلاحات کی جگہ کہیں کہیں عوامی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرلیتے ہیں۔
شرر زبان کی سلاست اور روانی کو قائم رکھنے اور بے تکلف اظہار مدعا کے لئے بعض اوقات زبان کے لگے بندھے قواعد سے انحراف بھی کرلیتے ہیں۔ مثلاً وہ علمی الفاظ و اصطلاحات کی جگہ کہیں کہیں عوامی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرلیتے ہیں۔
(۶۱) جدت پسندی
شرر جدت پسند ادیب تھے۔ پامال راستوں پر چلنا انہیں پسند نہ تھا۔ انہوں نے اپنے لئے اظہار کے نئے سانچے وضع کئے۔ اس طرح مضامین میں بھی وہ صرف پہلی باتوں کو روایت کردینے پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ تحقیق و جستجو سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہں نے اپنے مضامین میں نئے نئے عنوانات تلاش کئے جن پر ان سے پہلے کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔
شرر جدت پسند ادیب تھے۔ پامال راستوں پر چلنا انہیں پسند نہ تھا۔ انہوں نے اپنے لئے اظہار کے نئے سانچے وضع کئے۔ اس طرح مضامین میں بھی وہ صرف پہلی باتوں کو روایت کردینے پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ تحقیق و جستجو سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہں نے اپنے مضامین میں نئے نئے عنوانات تلاش کئے جن پر ان سے پہلے کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔
(۷۱) محاکات
محاکات یعنی لفظی تصویر کشی میں شرر کو خاص مقام حاصل ہے۔ تصویر مناظر کی ہو یا انسانی جذبات و کیفیات کی‘ شرر مناسب و موزوں الفاظ کی مدد سے اسے بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم خود یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اور سصحیح جذبات و کیفیات ہم پر بھی وارد ہورہی ہیں۔
محاکات یعنی لفظی تصویر کشی میں شرر کو خاص مقام حاصل ہے۔ تصویر مناظر کی ہو یا انسانی جذبات و کیفیات کی‘ شرر مناسب و موزوں الفاظ کی مدد سے اسے بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم خود یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اور سصحیح جذبات و کیفیات ہم پر بھی وارد ہورہی ہیں۔
حرفِ آخر
مختصر طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شرر کا اسلوب نگارش چند ایک کے باوجود
ایک منفرد اسلوب ہے اس میں دبستان میں سرسید کی مقصدیت’ استدلال‘ جوش خطابت
شبلی کی طرح اور تخیل کی کارفرمائی آزاد کی طرح بھی نظر آتی ہے۔ لیکن اس
کے ساتھ ساتھ رومانیت‘ پرتکلف منظرنگار‘ خیال آفرینی اور لکھنﺅ کی ٹکسالی
زبان ان کی تحریر وہ نمایاں خوبیاں ہیں جو ان کو اردو کے دیگر ادیبوںسے
منفرد اور ممتاز بناتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment