خواجہ حیدر علی آتش غزل 1
حوالہ
پیشِ نظر شعر خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
خواجہ حیدر علی آتشاردو غزل گوئی کے وہ اہم ترین شاعر ہیں جن کی بدولت
دبستانِ لکھنو کا آغاز ہوا۔ آتش کا تصوف سے عملی رشتہ تھا جس کا عکس اُن کے
کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ آپ کے کلام میں مرصع سازی جا بجا ملتی ہے اور
خارجی کیفیات سے ہٹ کر حسنِ فکر بھی نمایاں ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش کے
اشعارمنتخب ہیں اور اُن کے کلام میں زبان و بیان کی کشش ہے۔ بقول ڈاکٹر
ابواللّیث صدیقی:
زبان اور محاوروں کا لطف اٹھانا ہو تو آتش کے کلام کو پڑھنا چاہئے۔
زبان اور محاوروں کا لطف اٹھانا ہو تو آتش کے کلام کو پڑھنا چاہئے۔
شعرنمبر ۱
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی قصیدہ خوانی کر رہا ہے اور اس کے حسن و جمال کی برتری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم کو تمہارے حسن اور اپنی
محبت پر ناز ہے۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تم اس کائنات کی حسین ترین شے
ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت شے گلاب کے پھول کو سمجھا جاتا
ہے جس کی عاشق بلبل ہے۔ اگر ہم کو موقع ملتا تو ہم حسن کا مقابلہ کرواتے
جس میں ایک طرف تم اور دوسری طرف گلاب ہوتا۔ گلاب کے پھول سے عشق کرنے والی
بلبل ہے جو اس کی محبت میں نہایت بے چین اور مضطرب رہتی ہے اور اس کے گرد
چکر لگاتی رہتی ہے جبکہ تمھارے چاہنے والے ہم ہیں۔ ہم بلبل سے ہمکلام ہو کر
اس دنیا پر یہ ثابت کر دیتے کہ تمہارا حسن گلاب سے بھی بڑھ کر ہے اور اس
پھول کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلبل کو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی
کہ حسن و نزاکت میں ہمارا محبوب اُس کے محبوب پر فوقیت رکھتا ہے۔ ہمارا
عاشق حسن و دلکشی کا مرقع‘ نزاکت و لطافت کا مجموعہ اور مسرت کن خوشبوﺅں کا
خاصہ ہے جس کا مقابلہ کسی طرح بھی اِس بے وقعت پھول سے نہیں کیا جا سکتا۔
اس شعر میں شاعر نے مبالغے کی صفت استعمال کی ہے
مماثل شعر
ہوئی گل پر فدا نادان بلبل
کہاں گل اور کہاں وہ غیرتِ گل
کہاں گل اور کہاں وہ غیرتِ گل
شعر نمبر ۲
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مرکزی خیال
شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کے سامنے اپنی آرزﺅں اور خواہشآت کا اظہار خود
کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ قاصد محبوب کے احساسات اور کیفیات کی صحیح
ترجمانی نہیں کر سکتا۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مجھے دردِ دل سنانے کے لئے کوئی پیغام بر
نہیں ملا، نامہ �¿ التفات لے جانے کے لئے قاصد نہ ملا تو بہترین ہوا۔ اے
میرے محبوب ہم کسی غیر کے ہاتھ سے تجھے کیا بھےجتے اگرچہ کہ اس سے دل کا
بوجھ تو ہلکا ہو جاتا جو کہ اب تک میرے سامنے اظہار کے لئے بے چین تھا مگر
اس طرح میری دلی کیفیات اور احساسات کی صحیح ترجمانی نہ ہو سکتی۔
اصل میں شاعر کسی قاصد کی تلاش میں سرگرداں تھا تاکہ محبوب تک اپنے دل
کا حال پہنچا سکے لیکن اسے اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے
کوئی شخص ایسا نہ ملا جو کہ اس کے جزبات و احساسات کی تفصیل محبوب تک
پہنچائے تو اس وقت عاشق نے اپنے آپ کو اس طرح تسلی دی کہ چلو اچھا ہوا کہ
قاصد نہ ملا۔ کیونکہ محبوب کے آگے کسی غیر سے اپنی آرزﺅں اور تمناﺅں کو پیش
کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا
شعر ۳
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
مرکزی خیال
محبت و عشق کی حکمرانی اس پوری کائنات پر قائم ہے اور عشق کے بغیر اس زندگی کا مفہوم ادھورا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ یہ چاند و سورج و سیارے ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں۔
انہیں ایک حالت میں سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لگتا ہے یہ بھی میری
طرح کسی سچے اور حقیقی محبوب کی تلاش میں ہیں۔ میری حالت بھی کچھ اس طرح کی
ہے کہ میں ہر وقت بے قرار و مضطرب رہتا ہوں۔ مجھے بھی ایک عاشقِ حقیقی کی
تلاش ہے اور میں اس کے لئے جستجو کرتا رہتا ہوں۔ ان کیفیات کے ذریعے شاعر
یہ حقیقت بیان کررہا ہے کہ محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے جس کے بغیر یہ
کائنات ادھوری ہے اور جس کو ہٹا کر اس حیاتِ فانی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا
ہے
شعر نمبر ۴
جو دیکھتے تری زنجیرِ زُلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد، آرزو کرتے
اسیر ہونے کی آزاد، آرزو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کا تمام حسن اس کی زلفوں کو قرار دے رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پابندی سلاسل سے گھبراتے ہیں اور
زنجیر کی چھنک سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ تیری زلفوں کی زنجیر کا لطف
جانتے تو وہ یقیناً اس بات کی آرزو کرتے کہ کاش وہ زلفوں کی زنجیروں میں
اُلجھ کر قید ہو جائیں۔ انہیں آزادی سے یہ پابندی پسند آتی۔
شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو بڑا ہی حسین ہے، تیری زلف سیاہ
اور دراز ہے۔ جب تو کبھی اپنے گیسوﺅں کو چوٹی کی شکل میں گوندھ لیتا ہے اور
وہ زنجیر کی شکل اختیار کڑ لیتے ہیں تو اس وقت تو اور بھی زیادہ حسین
دکھائی دینے لگیا ہے۔ ایسے میں عام لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو تیرے حسن و
جمال کو دیکھ کر سب تیری محبت میں مبتلا ہو جائیں اور خواہش کریں کہ کاش تو
انہیں بھی اپنی زنجیرِ زلف میں اسیر کر لے
شعر نمبر ۵
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
تشریح
بد نصیبی عاشق کا مقدر ہوتی ہے۔ بدنصیبی تو یہ ہے کہ کوئی خواہش اور
آرزو پوری نہ ہو لیکن عاشقی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آرزو خواہشات کے برعکس
ہو۔ یہ بد نصیبی کی انتہا ہے۔ شاعر کہتا ہے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔
میری بد نصیبی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ حال یہ ہے کہ میں جو آرزو کرتا ہوں،
جو دعا کرتا ہوں اس کے برعکس کام ہوتا ہے۔ اگر مےن گرمی کی شدت کے سبب بارش
کی دعا کروں تو بجائے بارش کے آگ برسنے لگے یعنی اور زیادہ گرمی بڑھ جائے۔
مطلب یہ ہے کہ میرا مقدر اس قدر برگشتہ ہو گیا ہے کہ میں جو چاہتا ہوں
ہمیشہ اس کا الٹا ہی ہوتا ہے
مماثل شعر
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
No comments:
Post a Comment