مولانا حسرت موہانی غزل 1
شعر نمبر ۱
تچھ کو پاسِ وفا ذرا نہ ہوا
ہم سے پھر بھی ترا گلہ نہ ہوا
ہم سے پھر بھی ترا گلہ نہ ہوا
تشریح
محبوب کی فطرت میں بے وفائی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی حال میں محبت کی قدر
نہیں کرتا۔ اس کے مقابلے مےں عاشق کو ہر لمحہ وفا کا پاس رہتا ہے۔ وہ کوئی
بات ایسی نہیں کرتا جس سے اس کی وفا پر حرف آئے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے
میرے محبوب! تو نے ہماری وفا کا ذرا بھی خیال نہ کیا، ہماری محبت کی بالکل
قدر نہیں کی، تو نے ہمیشہ ہمارے ساتھ بے نیازی اور بے رخی کا برتاﺅ کیا
اور تیرا یہ طرزِ عمل ایسا تھا کہ ہم اگر اس پر کچھ کہتے تو حق بجانب تھے
لیکن ہم نے تجھ سے کچھ شکوہ نہیں کیا کہ یہی محبت کا تقاضا تھا اور یہی وضع
داری تھی
شعر نمبر ۲
ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا
تشریح
بگڑنا، خفا ہونا، ظلم و ستم کرنا محبوب کی عادت ہے۔ لیکن تعلق رکھنا
مقصود ہوتا ہے تو عادت مےن نرمی رکھنی پڑتی ہے۔ برخلاف اس کے تعلق ہمیشہ کے
لئے ختم ہو جاتا ہے۔ شاعر یہی کہتا ہے کہ ہمارا محبوب ہم پر ظلم و ستم
کرتا تھا۔ ہم اسے برداشت کرتے تھے۔ اس صورت میں ہمارا کسی نہ کسی طور محبوب
سے تعلق ضرور قائم تھا لیکن اب وہ ہم سے ایسا ناراض ہوا کہ اس نے عادت کے
برخلاف ظلم و جور بھی کرنا چھوڑ دیا اور جیسا کہ دشمنی کا حق تھا وہ بھی
ادا نہیں کیا۔ ہم تو اس کے طلب و ستم پر خوش تھے کہ ایک نوع کا اس سے تعلق
تو قائم ہے۔ اب دشمنی کا بھی تعلق نہیں رہا یہ ہمارے لئے سب سے زیادہ
خطرناک بات ہے
شعر نمبر ۳
کٹ گئی احتیاطِ عشق میں عمر
ہم سے اظہارِ مُدعا نہ ہوا
ہم سے اظہارِ مُدعا نہ ہوا
تشریح
عشق میں احتیاط لازم ہے۔ عاشق کی ذرا سی بے احتیاطی سے محبوب کا مزاج
برہم ہو سکتا ہے اور ویسے بھے اظہارِ مدعا عشق کی روایت کے خلاف ہے۔ چنانچہ
شاعر کہتا ہے کہ ہم ساری زندگی عشق میں احتیاط سے کام لیتے رہے۔ اس بات سے
ڈرتے رہے کہ ہماری بے احتیاطی سے کہیں ہمارا محبوب ہمارا مخالف نہ ہو
جائے۔ اس احتیاط کی پیشِ نظر ہم حرفِ مدعا زبان پر نہیں لائے۔ اس طرح ساری
زندگی خاموش عشق کرتے رہے
شعر نمبر ۴
مر مٹی ہم تو مٹ گئے سب رنج
یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا
یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا
تشریح
تمام دکھ درد، رنج و الم، آرام و آرایش زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ زندگی
قائم ہے تو سب ہی چیزوں سے واسطہ ہے اور مرنے کے بعد ہر چیز سے چھٹکارا مل
جاتا ہے۔ یہی بات شاعر کہتا ہے کہ عشق میں ایسی تکلیفیں، ایسے مصائب اور
رنج و الم سے سابقہ پڑا کہ بالاخر موت سے ہمکنار ہو گئے۔ گویا عشق میں ہم
مر مٹے۔ چلو یہ بہت اچھا ہوا۔ اس طرح ہمیں رنج و الم سے چھٹکارا مل گیا۔
زندگی کے تمام دکھ درد سے نجات مل گئی۔ گویا جان کے بدلے میں یہ سودا مہنگا
نہیں رہا
شعر نمبر ۵
تم جفاکار تھی کرم نہ کیا
میں وفادار تھا خفا نہ ہوا
میں وفادار تھا خفا نہ ہوا
تشریح
جفا محبوب کی فطرت اور وفا محبوب کی سرشت ہوتی ہے اور دونوں اپنی سرشت
پر قائم رہتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ تمہاری فطرت میں ظلم و ستم کرنا ہے اس
لئے تم ہر لمحہ ہم پر ظلم و ستم کرتے رہے اور کبھی ہم پر کسی نے عنوان کرم
نہیں کیا۔ اس کے برخلاف ہماری سرشت میں چونکہ وفاداری تھی اس لئے ہم ہر ظلم
کو برداشت کرتے ہےن اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ گویا دونوں
اپنی اپنی سرشت پر قائم رہے
شعر نمبر ۶
ہجر میں جانِ مضطرب کو سکوں
آپ کی یاد کے سوا نہ ہوا
آپ کی یاد کے سوا نہ ہوا
تشریح
ہجر میں محبوب کی یاد ہی باعثِ تسکین ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ عاشق کے لئے
سب سے بڑا غم محبوب سے جدائی کا ہے۔ اس سے بڑا غم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ جدائی میں اگر کوئی سکوں پہنچانے والی چیز تھی تو وہ صرف تیری یاد
تھی۔ ہجر کے لمحات میں جب ہمارا دل مضطرب و بے چین ہوتا اس وقت تمہاری یاد
ہی سکون کا باعث ہوتی تھی۔ اگر ایک لمہے بھی ہم یاد سے غافل ہو جائیں تو بے
چینی اور برھ جاتی
شعر نمبر ۷
رہ گئی تیرے قصرِ عشق کی شرم
میں جو محتاجِ اغنیا نہ ہوا
میں جو محتاجِ اغنیا نہ ہوا
تشریح
انسانی فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ایک حد تک ہی صبر و ضبط کر سکتا ہے۔
جب معاملات حد سے بڑھ جاتے ہیں تو صبر و ضبط کے تمام بند ٹوٹ جاتے ہیں اور
اُس وقت بجز بدنامی کے کچھ نہیں ملتا۔ شاعر کہتا ہے کہ اے میرے محبوب ہم نے
تچھ سے عشق کیا، تیری در سے وابسطہ ہوئے اور تو نے ہم پر ظلم کیا۔ ہم بڑی
خندہ پیشانی سے تیری ہر ستم اور ہر ظلم کو برداشت کرتے رہے۔ اگر ہم گھبرا
اٹھتے اور کسی ایسے کے در سے وابستہ ہو جاتے جس کی عنایتیں اور نوازشیں ضرب
المثل ہیں تو اس میں بڑی بدنامی ہوتی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے یہ خیال
پیدا نہیں ہونے دیا ورنہ تیری بدنامی ہوتی اور اس طرح میرے در محبوب کی عزت
رہ گئی
No comments:
Post a Comment