ایک شام ماضی کی محرابوں میں
حوالہ
مندرجہ بالا اقتباس ایک شام ماضی کی محرابوں میں سے لیا گیا ہے۔ یہ سفرنامہ ابنِ انشائ نے تحریر کیا ہے۔
تعارفِ مصنف
ابن انشاءدورِ حاضر کے مشہور و معروف مزاح نگار اور کالم نگار ہیں۔ ان
کے سفرنامے ان کے نثری اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی تحریریں سادہ‘ رواں‘
برجستہ اور پرمزاح ہوتی ہیں۔ ان کے سفرناموں کے مطالعے کے دوران ایسا محسوس
ہوتا ہے گویا قاری ان کے ساتھ موجود ہے اور ان کے ساتھ ساتھ سفر کررہا ہے۔
کسی بھی موڑ پر قاری کو اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
بقول ابراہیم جلیس
ابنِ انشاءعہدِ حاضر کا منفرد مزاح نگار ہے جس کے کالم اور سفرنامے اس کی پرمزاح نثرنگاری کے عکاس ہیں۔
سفرنامے کا تعارف
اپنے اس سفرنامے میں ابنِ انشاءدمشق کے حوالے سے مختلف مقامات کی سیر کا
حال بیان کررہے ہیں۔ جن میں کوچہ بازار‘ مقبرے‘ مساجد اور تاریخی مقامات
وغیرہ شامل ہیں۔ اس سفرنامے کے ذریعے انہوں نے قارئین کو بتانا چاہا ہے کہ
ان کا ماضی کیا تھا‘ کتنا عظیم تھا‘ کس قدر جاہ حشمت سے بھرا ہوا تھا اور
کس قدر بہادری اورشجاعت کے کارناموں سے پر تھا۔ انہوں نے اس طرف بھی
نشاندہی کی ہے کہ اس وقت میں اور اب میں کتنا فرق ہوگیا ہے اور مسلمان کس
قدر پستی میں گرگئے ہیں۔
اقتباس ۱
سامنے اس فاتح کی آرام گاہ تھی جس کے پرچم کے آگے مشرق اور مغرب سرنگوں
تھے۔ جس نے یورپ کے متحدہ لشکروں کا سامنا کیا اور اپنی فتوحات اور حسنِ
اخلاق کی داستانیں چھوڑ گیا۔ آج جب کہ سرزمینِ شام کے ایک کونے اور بیتِ
المقدس کو غاصبوں نے دبا رکھا تھا اور فلسطین کے مہاجر صحرا میں دربدر پھر
رہے تھے یہ فاتح لمبی تانے سورہا تھا۔ ہم نے کہا اے غازی! اٹھ کے اب نہیں
اٹھے گا تو کب اٹھے گا کیا خوب قیامت کا بھی ہوگا کوئی دن اور؟
تشریح
مندرجہ بالا اقتباس میں مصنف اس وقت کا ذکر کررہا ہے جب وہ سلطان صلاح
الدین کے مزار میں داخل ہوتا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ جب وہ چھوٹے دروازے سے
اندر داخل ہوئے تو سامنے مسلمانوں کے عظیم فاتح سلطان صلاح الدین کی قبر
تھی۔ جس میں وہ آرام فرمارہے تھے۔ مصنف کہتا ہے کہ یہ وہ عظیم‘ بے باک اور
مخلص مجاہدِ دین ہے جس کی بہادری و سرفروشی کی داستانیں دنیا بھر میں پھیلی
ہوئی ہیں اور جس کی عظمت کا اعتراف ہر قوم اور ہر دور کے لوگوں نے کیا ہے۔
یہی وہ مردِ مجاہد ہے جو اس سلطانی امت کا سربراہ رہا ہے اور جس کے دور
میں مسلمانوں نے کفار و مشرکین کے بڑے بڑے لشکروں کو شکستِ فاش عطا کی۔ اس
باہمت رہنما کی بدولت ہی مسلمان اس کرئہ ارض کے کونے کونے میں پھیل گئے اور
دشمنانِ دین پر اسلام کی دھاک اور اسلام کا رعب و دبدبہ بیٹھ گیا۔ مشرکین و
عیسائی اس مردِ مجاہد سے اِس قدر خوفزدہ ہوگئے کے لوگوں سے اس کا نام لے
کر جنگ کے لئے مالِ غنیمت لے جایا کرتے۔ یہ بہادر انسان جہان جہان اسلام کے
نام پر امن کے جھنڈے گاڑھتا وہاں وہاں اس کے حسنِ اخلاق کی داستانیں مشہور
ہوجاتیں۔ اس کا بے داغ کردار ہی مسلمانوں کے حسنِ اخلاق اور بلند کردار کی
ضمانت بنا۔
مصنف یہ عظیم و الشان تاریخ بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کہ دورِحاضر میں
بھی امتِ مسلمہ کو ایسے ہی مومن کی ضرورت ہے جو دنیا کے بے گھر اور پستی
میں گھرے ہوئے مسلمانوں کو دوبارہ عظمتِ رفتہ کی طرف لوٹا دے اور یہ ملت
ایک بار پھر دنیا کی امامت کا منصب سنبھال لے۔ فلسطین میں جس طرح مسلمانوں
کو بے دردی سے بے گھر کیا گیا اور بیت المقدس پر یہودیوں نے جس ہٹ دھرمی سے
قبضہ کیا وہ مسلمانوں کو للکار للکار کر کہہ رہا ہے کہ ہے کوئی غازی جو
اٹھے اور اپنی مدد کرے۔ اس قوم کو ذہنی و جسمانی غلامی کی ذنجیروں سے آزاد
کرائے۔
مصنف کے ذہن میں یہ تمام واقعات بالکل واضح طورپر سامنے آجاتے ہیںاور وہ
جوش و جذبات میں بے اختیار اس عظیم رہنما سے مخاطب ہو جاتے ہیں کہ اے
فاتح! مسلمانوں کا اب بہت برا حال ہے۔ دنیا بھر میں جگہ جگہ اللہ کے بندے
تیرے منتظر ہیں۔ اتنے ظلم و ستم ہیں گویا قیامت کے مناظر ہمارے سامنے گھوم
رہے ہیں۔ قیامت کے روز تو سب کو دوبارہ اٹھایا جائے گا‘ تو کب اٹھے گا کہ
قیامت بھی آپہنچی ہے
No comments:
Post a Comment