علامہ شبلی نغمانی
ایک تعارف
اردو کے ارکانِ خمسہ میں سے مولانا شبلی وہ منفرد مصنف ہیں جنہیں جامع
العلوم کا لقب دیا جاسکتا ہے۔ وہ موضوعات کے تنوع کے بناءپر ”جامع الصفات
اور جامع الجہات“ کہلانے کے مستحق ہیں۔ ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں
انہوں نے اپنے سکہ نہ منوایا ہو ”تاریخ ِادب اردو“ کے مصنف رام با بو
سکسینہ نے سچ کہا ہے کہ:
اگر کوئی شخص ایک شاعر‘ فلسفی‘ مورخ‘ ناقد‘ ماہر تعلیم‘ معلم‘ واعظ
ریفارمر‘ جریدہ نگار‘ فقیہہ‘ محدث سب کچھ ہوسکتا ہے تو وہ شبلی ہی کی ذات
تھی۔
سرسید گروپ میں شبلی ہی وہ منفرد شخص ہیں جو انگریزی یا انگریزی ادب سے
کماحقہ واقفیت کے باوجود معذرتی لہجہ اختیار نہیں کرتے۔ ان کی نظر اسلام کی
عظمت رفتہ پر پڑتی ہے وہ تمام علوم کو مسلمانوں کی میراث سمجھتے تھے۔
اسلام‘ بانی اسلام یا مشاہیرِ اسلام پر کسی جانب سے اعتراض کئے جاتے تو پھر
شبلی کا اسلوب اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
دنیا کے کسی حصے میں مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑی‘ شبلی کا قلم جولانیاں
دکھانے لگا۔ معرکہ کانپور ہو یا جنگ طرابلس و بلقان وہ نظم میں‘ نثر میں
انگریز کو لتاڑنے سے باز نہیں رہتے۔ ان کی نظموں میں ہی نہیں نثر میں
خطابیہ انداز ہے۔ سرسید گروپ کے ایک نامور رکن ہونے کے باوجود ان کا اسلوب
اس سب سے مختلف ہے۔ ان کی نثر میں آزاد کی طرح الفاظ کے طوطا مینا اڑانے کا
رنگ نہیں جھلکتا۔ البتہ آزاد کا زورِ بیان اور قدرت کلام موجود ہے۔ شبلی
کو بھی محاورہ بندی کا شوق ہے امگر ان کی عبارت محاوروں کی کثرت کی بناءپر
نذیر احمد کی تحریر کی طرح انگشت نمائی کا موقع نہیں دیتی۔ ان کی تحریروں
میں بھی حالی اور سرسید کی تحریروں کی طرح سادگی اور سنجیدگی موجود ہے۔ مگر
یہ عالمانہ سادگی اور سنجیدگی ہے جس سے خاص و عام مرعوب ہوکر رہ جاتے ہیں۔
ان عالمانہ سنجیدگی کے باوجود شبلی کی تحریروں میں شاعرانہ لطافت اور حسن
خیال کا ایک اچھا امتزاج بھی ملتا ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ:
شبلی شاعرانہ دل اور فلسفیانہ دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔
تصانیف
ان کی تصانیف میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ الماعون‘ الغزالی‘
الفاروق اور موازنہ انیس و دبیر۔ اس کی علاوہ فارسی اور اردو کلام کے
مجموعے‘ مضامین اور مقالات کی کئی جلدیں اور دو ایک عربی تصانیف بھی ان کی
یادگار ہیں۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
شبلی کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
قوت اور جوش بیان
شبلی کی تحریر کی سب سے نمایاں صفت قوت اور جوشِ بیان ہے جو ان کے احساس عظمت اور احساس کمال کی پیداوار ہے۔ وہ اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے طریقئہ خطاب میں خود اعتمادی اور برتری کا احساس ہر جگہ نمایاں ہے۔ وہ علمی اور نسلی تفاخر کی بناءپر قاری کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ انہیں ذمانہ کی جہالت کا پورا پورا احساس ہے۔ وہ موقع کے لحاظ سے کسی جگہ خطیب بن کر‘ کہیں مدرس بن کر‘ کہیں واعظ بن کر اور کہیں فلسفی بن کر قاری سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریر پڑھ کر قاری کی طبیعت میں ایک جوش اور ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کا اسلوب ان کے موضوع کا تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ اپنے شباب پر نظر آتے ہیں۔ مثلاً سیرت النبی ﷺ کی ولادت کے موقع پر انہوں نے جو انداز تحریر اختیار کیا ہے اس سے نہ صرف شبلی کا دلی جوش اور ولولہ نظر آتا ہے بلکہ قاری کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔
شبلی کی تحریر کی سب سے نمایاں صفت قوت اور جوشِ بیان ہے جو ان کے احساس عظمت اور احساس کمال کی پیداوار ہے۔ وہ اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے طریقئہ خطاب میں خود اعتمادی اور برتری کا احساس ہر جگہ نمایاں ہے۔ وہ علمی اور نسلی تفاخر کی بناءپر قاری کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ انہیں ذمانہ کی جہالت کا پورا پورا احساس ہے۔ وہ موقع کے لحاظ سے کسی جگہ خطیب بن کر‘ کہیں مدرس بن کر‘ کہیں واعظ بن کر اور کہیں فلسفی بن کر قاری سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریر پڑھ کر قاری کی طبیعت میں ایک جوش اور ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کا اسلوب ان کے موضوع کا تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ اپنے شباب پر نظر آتے ہیں۔ مثلاً سیرت النبی ﷺ کی ولادت کے موقع پر انہوں نے جو انداز تحریر اختیار کیا ہے اس سے نہ صرف شبلی کا دلی جوش اور ولولہ نظر آتا ہے بلکہ قاری کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔
ایجازو اختصار
ایجاز و اختصار شبلی کی تحریروں کی دوسری بڑی خصوصیت ہے۔ ایجازو اختصار کو نطم و نثر دونون کی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ ایجاز و اختصار سے مراد یہ ہے کہ بڑی سے بڑی بات کو مختصر سے مختصر انداز میں اس طرح بیان کیا جائے کہ قاری کا ذہن بھی فوراً ا کے مفہوم کو پاجائے۔ شبلی کو یہ فن آتا ہے ان کے چھوٹے چھوٹے جملوں میں وہ جہاں معنی پوشیدہ ہوتے ہیں جو کئی پیراگرافوں میں بھی نہیں سما سکتے۔ بیان کے اختصار کے لئے وہ شاعرانہ وسیلوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تشبیہہ کم تر استعمال ہوئی ہے اور استعارہ زیادہ‘ وہ آزاد کی طرح مرکب تشبیہوں اور مراتہ النظیر کے سلسلوں میں کم الجھتے‘ حالی کی تحریروں کی طرح تمثیلوں کی بھی بھرمار نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کی تحریروں میں ”استعارہ“ جاری و ساری ہے۔
ایجاز و اختصار شبلی کی تحریروں کی دوسری بڑی خصوصیت ہے۔ ایجازو اختصار کو نطم و نثر دونون کی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ ایجاز و اختصار سے مراد یہ ہے کہ بڑی سے بڑی بات کو مختصر سے مختصر انداز میں اس طرح بیان کیا جائے کہ قاری کا ذہن بھی فوراً ا کے مفہوم کو پاجائے۔ شبلی کو یہ فن آتا ہے ان کے چھوٹے چھوٹے جملوں میں وہ جہاں معنی پوشیدہ ہوتے ہیں جو کئی پیراگرافوں میں بھی نہیں سما سکتے۔ بیان کے اختصار کے لئے وہ شاعرانہ وسیلوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تشبیہہ کم تر استعمال ہوئی ہے اور استعارہ زیادہ‘ وہ آزاد کی طرح مرکب تشبیہوں اور مراتہ النظیر کے سلسلوں میں کم الجھتے‘ حالی کی تحریروں کی طرح تمثیلوں کی بھی بھرمار نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کی تحریروں میں ”استعارہ“ جاری و ساری ہے۔
مقصدیت
شبلی بھی ایک مقصدی ادیب ہیں۔ دبستانِ سرسید سے تعلق رکھنے والے ہر ادیب کی طرح ان کے لئے بھی مسلمانوں کی اصلاح بہت اہمیت رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے لئے تاریخ کا میدان منتخب کیا۔ ہیروز آف اسلام پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ چنانچہ الماعون رح، سیرت النعمان رح، الفاروق اورسیرت انبی صلی اللہ علیہ وسلم(پہلی دو جلدیں) اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ انوں نے اپنی کتابوں میں اپنے مشاہیر کے متعلق پھیلی ہوئی غلط باتوں کو رد کردیا ۔ متعصب عیسائی مورخوں کی اعتراضات کے جواب دئیے بلکہ ان کو مسلمانوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے بطورِ نمونہ پیش کیا اور مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی سے اگاہ کرکے حال میں ترقی کا راستہ دکھانا شبلی کا مطلوب و مقصود تھا۔
شبلی بھی ایک مقصدی ادیب ہیں۔ دبستانِ سرسید سے تعلق رکھنے والے ہر ادیب کی طرح ان کے لئے بھی مسلمانوں کی اصلاح بہت اہمیت رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے لئے تاریخ کا میدان منتخب کیا۔ ہیروز آف اسلام پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ چنانچہ الماعون رح، سیرت النعمان رح، الفاروق اورسیرت انبی صلی اللہ علیہ وسلم(پہلی دو جلدیں) اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ انوں نے اپنی کتابوں میں اپنے مشاہیر کے متعلق پھیلی ہوئی غلط باتوں کو رد کردیا ۔ متعصب عیسائی مورخوں کی اعتراضات کے جواب دئیے بلکہ ان کو مسلمانوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے بطورِ نمونہ پیش کیا اور مسلمانوں کو اپنے شاندار ماضی سے اگاہ کرکے حال میں ترقی کا راستہ دکھانا شبلی کا مطلوب و مقصود تھا۔
بے ساختگی
بے ساختگی سرسید‘ حالی اور شبلی کی تحریروں کا مشترکہ وصف ہے۔ مگر ہر ایک کی بے ساختگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سرسید کے ہاں یہ ہمیں بے ربط جملوں‘ عامیانہ محاوروں‘ پیچیدہ اور بھدی ترکیبوں کی صورت ملتی ہے۔ حالی کے ہاں یہ صفت سرسید سے اچھی حالت میں ہے۔ کیونکہ ان کی تحریریں سرسید سے زیادہ سلیس اور ہموار ہیں۔ مگر ان خوبیوں کے باوجود حالی کا ذاتی جوہر یعنی دھیما پن اسے ابھرنے نہیں دیتا۔ شبلی کی بے ساختگی ان دونوں سے الگ ہے۔ اس بے ساختگی میں کوئی عیب نہیں۔ اس میں سادگی ہے‘ چستی ہے وہ ہر بات بے ساختہ کہتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لفظ بھی کہیں بلا ضرورت نظر نہیں آتا۔
بے ساختگی سرسید‘ حالی اور شبلی کی تحریروں کا مشترکہ وصف ہے۔ مگر ہر ایک کی بے ساختگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سرسید کے ہاں یہ ہمیں بے ربط جملوں‘ عامیانہ محاوروں‘ پیچیدہ اور بھدی ترکیبوں کی صورت ملتی ہے۔ حالی کے ہاں یہ صفت سرسید سے اچھی حالت میں ہے۔ کیونکہ ان کی تحریریں سرسید سے زیادہ سلیس اور ہموار ہیں۔ مگر ان خوبیوں کے باوجود حالی کا ذاتی جوہر یعنی دھیما پن اسے ابھرنے نہیں دیتا۔ شبلی کی بے ساختگی ان دونوں سے الگ ہے۔ اس بے ساختگی میں کوئی عیب نہیں۔ اس میں سادگی ہے‘ چستی ہے وہ ہر بات بے ساختہ کہتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لفظ بھی کہیں بلا ضرورت نظر نہیں آتا۔
تہذیبی احساس
شبلی کی تحریروں میں مشرق پرستی اور تہذیبی تفاخر کا احساس بھی جھلکتا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی تہذیب کو برتر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردیں۔ ان کا دور مشرقی اور مغربی تہذیب میں شدید تصادم کا دور تھا۔ انگریزی تہذیب کی چمک دمک نے عام مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے عزت ماب لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔ وہ اپنے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے تھی۔ وہ ہر بات میں”معذرت“ چاہتے نظر آتے تھے۔ یہ شبلی ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو احساس کمتری اور معذرتی لب و لہجے سے نجات دلائی۔ ماضی کے کارناموں کو سامنے رکھا۔ مغربی معترضوں کو مدلل جواب دیے۔ مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کہنے کی جرات دلائی‘ ذہنی طور پر ابوالکلام‘ ظفر علی خان وغیرہ شبلی کے ہی پیروکار ہیں۔
مرقع ادب کے مرتبین نے بالکل درست لکھا ہے کہ:
شبلی کی تحریروں میں مشرق پرستی اور تہذیبی تفاخر کا احساس بھی جھلکتا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی تہذیب کو برتر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردیں۔ ان کا دور مشرقی اور مغربی تہذیب میں شدید تصادم کا دور تھا۔ انگریزی تہذیب کی چمک دمک نے عام مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے عزت ماب لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔ وہ اپنے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے تھی۔ وہ ہر بات میں”معذرت“ چاہتے نظر آتے تھے۔ یہ شبلی ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو احساس کمتری اور معذرتی لب و لہجے سے نجات دلائی۔ ماضی کے کارناموں کو سامنے رکھا۔ مغربی معترضوں کو مدلل جواب دیے۔ مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کہنے کی جرات دلائی‘ ذہنی طور پر ابوالکلام‘ ظفر علی خان وغیرہ شبلی کے ہی پیروکار ہیں۔
مرقع ادب کے مرتبین نے بالکل درست لکھا ہے کہ:
ان کے یہاں بھی مولانا آزاد کا سا تہذیبی احساس ملتا ہے۔
تخیل کا عنصر
ان کی تحریروں میں تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے کہ دماغ فلسفیانہ اور دل شاعرانہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ بھی آزاد کی طرح چھوٹی چھوٹی حکایات اور علم و دانش سے بھرپور نکتے بیان کرکے عبارت میں رنگینی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن وہ محض تخیل کے اسیر بن کر نہیں رہ گئے ۔ انہوں نے فن کی خاطر مقصد کو قربان نہیں ہونے دیا۔ الغرض اردو ادب میں شبلی کو جو مقام ملا ہے اس کی بناءعلمی بھی ہے اور ادبی بھی۔ وہ نقاد‘ شاعر‘ مورخ‘ فلسفی‘ ماہرتعلیم‘ سوانح نگار سب کچھ ہیں مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا حسین اسلوب نگارش ہے۔
ان کی تحریروں میں تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے کہ دماغ فلسفیانہ اور دل شاعرانہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ بھی آزاد کی طرح چھوٹی چھوٹی حکایات اور علم و دانش سے بھرپور نکتے بیان کرکے عبارت میں رنگینی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن وہ محض تخیل کے اسیر بن کر نہیں رہ گئے ۔ انہوں نے فن کی خاطر مقصد کو قربان نہیں ہونے دیا۔ الغرض اردو ادب میں شبلی کو جو مقام ملا ہے اس کی بناءعلمی بھی ہے اور ادبی بھی۔ وہ نقاد‘ شاعر‘ مورخ‘ فلسفی‘ ماہرتعلیم‘ سوانح نگار سب کچھ ہیں مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا حسین اسلوب نگارش ہے۔
تنقید نگاری
شبلی کا اندازِ تنقید اگرچہ بڑی حد تک مشرقی ہے مگر انہوں نے جدید تنقیدی نظریات سے بھی روشنی حاصل کی ہے۔ اس طرح ان کی تنقیدوں میں جدید اور مشرقی اندازِ تنقید کے امتزاج سے ایک اور خاص توانائی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی تنقیدوں میں غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ علمی‘ تحقیقی اور ادبی شان پائی جاتی ہے۔وہ جو بات بھی کہتے ہیں وہ بڑی مدلل اور واضح ہوتی ہے۔ استدلال کے اعتبار سے وہ سرسید کے مانند ہیں اور اپنی تحریروں میں ادبی چاشنی پیدا کنے کے لحاظ سے مولانا آزاد کے مشابہ۔
شبلی کا اندازِ تنقید اگرچہ بڑی حد تک مشرقی ہے مگر انہوں نے جدید تنقیدی نظریات سے بھی روشنی حاصل کی ہے۔ اس طرح ان کی تنقیدوں میں جدید اور مشرقی اندازِ تنقید کے امتزاج سے ایک اور خاص توانائی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی تنقیدوں میں غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ علمی‘ تحقیقی اور ادبی شان پائی جاتی ہے۔وہ جو بات بھی کہتے ہیں وہ بڑی مدلل اور واضح ہوتی ہے۔ استدلال کے اعتبار سے وہ سرسید کے مانند ہیں اور اپنی تحریروں میں ادبی چاشنی پیدا کنے کے لحاظ سے مولانا آزاد کے مشابہ۔
مورخانہ عظمت
اگرچہ اردو میں سیرت نگاری کی ابتداءحالی نے کی لیکن شبلی بھی اس میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ حالی نے صرف ان شخصیتوں کے سوانح حیات لکھے جن سے یا تو وہ ذاتی طور پر متاثر تھے یا جنہیں ہماری معاشرے میں مقبولیت حاصل تھی۔ مثلاً غالب‘ سرسید‘ سعدی۔ اس کے برعکس شبلی نے جن اکابر کی سوانح عمریاں لکھیں انہیں ہماری دینی‘ سیاسی اور ملی زندگی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مثلاً حضرت عمر فاروق رضہ (الفاروق)‘ امام غزالی رح (الغزالی)‘ امام ابو حنیفہ رح ( سیرت نعمان) وغیرہ۔
اگرچہ اردو میں سیرت نگاری کی ابتداءحالی نے کی لیکن شبلی بھی اس میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ حالی نے صرف ان شخصیتوں کے سوانح حیات لکھے جن سے یا تو وہ ذاتی طور پر متاثر تھے یا جنہیں ہماری معاشرے میں مقبولیت حاصل تھی۔ مثلاً غالب‘ سرسید‘ سعدی۔ اس کے برعکس شبلی نے جن اکابر کی سوانح عمریاں لکھیں انہیں ہماری دینی‘ سیاسی اور ملی زندگی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ مثلاً حضرت عمر فاروق رضہ (الفاروق)‘ امام غزالی رح (الغزالی)‘ امام ابو حنیفہ رح ( سیرت نعمان) وغیرہ۔
ادبی لہجہ
شبلی کی تاریخی اور تنقیدیتحریروں میں بھی ادبی رچاﺅ پایا جاتا ہے۔ وہ خشک سے خشک موضوع اور ٹھوس علمی مسائل کو بھی شگفتہ ادبی زبان میں ادا کرتے ہیں۔
شبلی کی تاریخی اور تنقیدیتحریروں میں بھی ادبی رچاﺅ پایا جاتا ہے۔ وہ خشک سے خشک موضوع اور ٹھوس علمی مسائل کو بھی شگفتہ ادبی زبان میں ادا کرتے ہیں۔
تحقیقی رنگ
شبلی کی تحریروں میں ایک خاص محققانہ شان پائی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف سے ان کے عمیق مطالعے‘ تحقیقی اسلوب اور علمی بصیرت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی تاریخی‘ تنقیدی اور ادبی تصانیف میں اپنی تحقیقی کاوش کا حق پوری طرح ادا کیا ہے۔
شبلی کی تحریروں میں ایک خاص محققانہ شان پائی جاتی ہے۔ ان کی تصنیف سے ان کے عمیق مطالعے‘ تحقیقی اسلوب اور علمی بصیرت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی تاریخی‘ تنقیدی اور ادبی تصانیف میں اپنی تحقیقی کاوش کا حق پوری طرح ادا کیا ہے۔
شاعرانہ اسلوب
شبلی اپنی نثر میں تاثیر کا عنصر پیدا کرنے کے لئے شاعرانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ خوبصورت الفاظ‘ ہلکے پھلکے محاوروں اور حسین ترکیبیں ان کی نثر میں شگفتگی اور رعنائی پیدا کردیتی ہیں۔ تحریر میں ادبی حسن پیدا کرنے کے لئے بعض اوقات موزوں اشعار سے بھی کام لیتے ہیں۔
شبلی اپنی نثر میں تاثیر کا عنصر پیدا کرنے کے لئے شاعرانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ خوبصورت الفاظ‘ ہلکے پھلکے محاوروں اور حسین ترکیبیں ان کی نثر میں شگفتگی اور رعنائی پیدا کردیتی ہیں۔ تحریر میں ادبی حسن پیدا کرنے کے لئے بعض اوقات موزوں اشعار سے بھی کام لیتے ہیں۔
مبالغہ آرائی
شبلی بعض اوقات اپنے خطیبانہ آہنگ اور جذباتیت کی رو میں بہہ کر حقیقت بیانی سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔ اس قسم کا ولولہ انگیز اندازِ تحریر قوم میں بیداری کی لہر دوڑانے کیلئے ہوسکتا ہے مگر مورخ کی شایانِ شان نہیں ہوتا۔
شبلی بعض اوقات اپنے خطیبانہ آہنگ اور جذباتیت کی رو میں بہہ کر حقیقت بیانی سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔ اس قسم کا ولولہ انگیز اندازِ تحریر قوم میں بیداری کی لہر دوڑانے کیلئے ہوسکتا ہے مگر مورخ کی شایانِ شان نہیں ہوتا۔
ناقدین کی آراہ
ڈاکٹر حسین کے الفاظ میں:
شبلی ایک صاحب اسلوب نثر نگار ہیں۔ شبلی نے جو اسلوب اردو کو دیا وہ
گوناگوں اوصاف کا حامل ہے۔ شبلی نے منطقی فکر کو شاعرانہ تخیل میں سمو کر
ایک ایسا دلکش اسلوبِ بیان ایجاد کیا جس نے ان کی تحریر کے دائرہ اثر کو
بہت وسیع کردیا۔ یہ اسلوب تخیل کے تاریک گوشوں پر عقل کی روشنی ڈالتا ہے۔
فکر کے بے رنگ خاکوں میں شعر کا رنگ بھرتا ہے اور جس طرح دوربین مکان کے
فرق کو مٹادیتی ہے یہ زمانے کے فرق کو مٹا کر ماضی کو حال بنادیتے ہیں۔
بقول مہدی الافادی:
شبلی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا اور نکتہ آرائیوں سے ایک مستقل فن بنادیا۔
ڈاکٹر خورشید اسلام کا بیان ہے کہ:
شبلی پہلے یونانی ہیں جو ہندوستان مین پیدا ہوئے۔ وہ اگر انشاءپرداز نہ ہوتے تو مصور ہوتے۔
No comments:
Post a Comment