نوجوان سپہ سالار کا عظم و حوصلہ
عبدلحلیم
شرراردو تاریخی ناول نگاری کے بانی‘ جریدہ نگار اور ایک بڑے انشاءپرداز ہیں
لیکن جس چیز نے انھیں اردو ادب میں ایک ممتاز مقام دیا ہے وہ ان کی اسلامی
تاریخی ناول نگاری ہے۔ ان کے ناولوں کا مقصد اسلاف کے کارنامے یاد دلا کر
آنے والی نسل میںقوتِ عمل اور ولولہ تازہ پیدا کرنا ہے۔
اس اقتباس میں جو ان کے ایک مشہور ناول منصور موہناسے ماخوز ہے۔ اس کا
پس منظر موجودہ وہ پاکستانی علاقہ ہے جو دریائے اٹک اور آس پاس پر مشتمل ہے
اور زمانہ آج سے ایک ہزار سال قبل کا ہے جب غزنی کے فرماں روا سلطان محمود
نے ہندوستان پر حملوں کا آغاز کیا تھا۔ اس مضمون میں صرف ایک جھلک اس جھڑپ
کی دکھائی گئی ہے جو سلطان کے ترک سپاہیوں اور ہندوستان کے راجپوت فوجیوں
میں ہوئی اور جس میں آخر کار فتح مسلمان فوجیوں کی ہوئی۔ دریائے اٹک کا
میدان مسافروں کےلئے سندھ جانے کا راستہ تھا مشرقی کنارے پر گرمیوں کی ایک
صبح کو ترک فوجیوں کی ایک جماعت‘ جو چھ سو سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ جنگ میں
شکست کے بعد بھاگے ہوئے راجا کے تعاقب میں ہے اس دستہ کا سپہ سالار ایک
خوبصورت نوجوان ہے جوآگے آگے جارہاہے اور اپنے ساتھی سے راستے کی تصدیق
کرتا ہے اور اس بات پر فخر کرتا ہے کہ ہندو راجپوت چاہے کتنے ہی دلیر‘
بہادر اور جنگجو ہوں ترک سپاہیوں کے مقابلے نہیں ٹھہر سکتے اور اس رائے کا
بھی اظہار کرتا ہے کہ اب اسلام کی روشنی اس کفرستان میں پھیلانے کا جو موقع
ملا ہے اسے ہاتھ سے نجانے دینا چاہئے اور واپس غزنی لوٹ جانے کے بجائے پیش
قدمی جاری رکھنی چاہئے۔ محمد بن قاسم کے بعد یہ دوسرا سپہ سالار تھا جو اس
ملک میں وارد ہوا تھا۔
اسی دوران اس کی مڈبھیڑ راجپوت فوج سے ہوتی ہے جو تعداد پانچ سو سپاہیون
پر مشتمل تھی وہ رکا اور اپنے سپاہیون سے کہنے لگا کہ اب بہادری اور مہارت
کے جوہر دکھانے کا وقت آگیا ہے اس راجپوت فوج نے اچانک مسلمانوں پر حملہ
کردیا اور ایک خوفاک جنگ شروع ہوگئی۔ ہندو فوج شکست کھاکر بھاگنے والی تھی
کہ دو سو راجپوت سپاہی اور آپہنچے اور شریکِ جنگ ہوگئے۔ اب مسلمان کچھ
خوفزدہ ہو گئے مگر نوجوان سپہ سالار اپنی تقریر سے مسلمانوں کی ہمت بندھائی
اور خود آگے بڑھ کر راجپوت سپاہیوں سے نبرد آزما ہوگیا اور اس بہادری سے
مقابلہ کیا کہ ہندﺅں کے پاﺅں اکھڑ گئے۔ رات ہونے والی تھی کہ لڑائی کا
فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا سارا میدان لاشوں سے پٹ گیا اور غیرتِ قومی
پر جان دینے والے اب خوابِ مرگ کے مزے لوٹ رہے تھے۔ میدان خون سے لالہ زار
تھا۔ وہ راجا جس کے تعاقب میں مسلمان آئے تھے گرفتار تھا اس طرح ایک
نوجوان سپہ سالار کے عزم و حوصلہ کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے سے بڑی فوج پر
فتح حاصل کرلی۔
No comments:
Post a Comment