Monday, August 27, 2012

Class XI, Urdu, "خواجہ میر درد غزل 2"

خواجہ میر درد غزل 2

شعرنمبر ۱
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
خواجہ میر درد اللہ تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وسیع و عریض کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی موجود نہیں ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی کیفیت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہیں کہ کون و مکان کی وسعتوں میں صرف ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے اور صرف ایک ہی معبود کا نور پھیلا ہوا ہے۔ اگر ہم گنہگار انسانوں کے اذہان میں یہ خیال آتا ہے کہ اس کائنات میں خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ بھی کوئی اور ہستی موجود ہے تو یہ سراسر غلط ہے اور شرک کی ابتداءہے۔ ارض و سما کا ہر ذرئہ جمال نورِ خداوندی کا مظہر ہے۔ اس کرئہ ارض میں موجود چمکتی نہریں‘ حسین و دلکش وادیاں‘ آفتاب و مہتاب‘ فلک وزمین ہر شے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا وجود نہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ جب اس پھیلی ہوئی کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کا حسن موجود ہے تو ہمارے دل و ماغ اور سوچ و فکر میں بھی اسی کا خوف ہونا چائیے۔ ہمیںاپنے خالقِ حقیقی سے محبت کرنی چائیے‘ ہمارا ہر عمل اسی کے احکامات کے مطابق ہونا چاہیے‘ ہماری خواہشات‘ ہماری آرزویں‘ ہمارے افکار سب اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کے پابند ہونے چاہئے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق بسر کریں اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہو کر اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کریں
مماثل شعر
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
شعرنمبر ۲
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
مرکزی خیال
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے دل کی کیفیات کا سہارا لیتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے محبوب کی تلون مزاجی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تشریح
اِس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آج کل میرا دل کچھ عجیب سی کیفیت سے دوچار ہے۔ میرے دل میں ایک بے چینی اور بے قراری ہے۔ میرا دل فیض، سکون، نشاط اور راحت سے عاری ہے۔ ہر لمحہ میرے دل میں ایک نئی اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے اور میرا دل طرح طرح کے طریقوں سے مجھ پر ظلم کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے دل گرفتہ محبوب! میرا دل تیری محبت میں گرفتار ہے اس لئے اِس نے بھی تیرے ہی طور طریقے سیکھیں ہیں۔ اس کا رویہ آج کل ایسا ہے جیسا تیرا برتاﺅ ہے۔ شاعر کو اپنی محبوب کی رضا و مشیت بہت عزیز ہے۔ اس لئے وہ بڑی خوبصورتی سے اپنے محبوب کو اِس بات سے آگاہ کرتے ہیںکہ تیرا مزاج بھی ہر گھڑی بدلتا رہتا ہے اور یکساں نہیں رہتا۔ میرا دل بالکل تیرے برتاﺅ کی طرح ہے۔ کسی لمحہ تو ہم پر مہربان ہو جاتا ہے اور کسی لمحہ تو ہم کو امتحان میں ڈال دیتا ہے،کبھی بیگانگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی یگانگت کا۔ غرض ہر نیا آنے والا لمحہ مجھے ایک نئے سلوک سی ہمکنار کراتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ تم سے متاثر دل کبھی ایک حالت پر نہیں رہتا
مماثل اشعار
ایک حالت پر نہ رہنے پائیں دل کی حالتیں
تم نے جب دیکھا نئے انداز سے دیکھا مجھے
تیرے چہرے سے تلون تیرا کھل جاتا ہے
ہم نے اس پھول کو سو رنگ بدلتے دیکھا
شعرنمبر ۳
لے خبر تیغِ یار کہتی ہے
”باقی اس نیم جان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
شاعر محبوب سے کہتے ہیں کہ تیرے ظلم و ستم کی وجہ سے میری حیاتِ ناپائیدار کاابھی تک خاتمہ نہیں ہوا ہے اِس لئے تو میری روح کو میرے جسم سے جدا کر دے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے ایک سچے عاشق کے کردار کی ترجمانی کی ہے۔ شاعر کا محبوب جو اُس کے نہایت کرخت امتحان لیتا ہے شاعر کے ذہن میں یہ بات نقش کر جاتا ہے کہ اُس کا عاشق اُس پر شاید اس لئے ظلم و ستم کر رہا ہے کہ وہ مر جائے اور اُس کی موت کی وجہ سے محبوب کی روح کو تسکین پہنچ جائے۔ وہ مخاطب کرتا ہے کہ اے میرے ناراض محبوب تو نے ہم پر بہت ظلم و ستم کر لئے۔ تیرے مظالم و جبر ہم پر اِس حد تک ہیں کہ ہمارے اندر ہماری جان بھی باقی نہیں رہی۔ ہم نہایت ہی مظلوم اور بے کس ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم کو تیری رضا اور خوشنودی مشروط ہے۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم تیری توجہ کا مرکز بنے رہیں اور اسی حالت میں رخصت ہو جائیں۔ تو ہمارے قتل کا بہت شائق ہے اور شاید تو سمجھ رہا ہے کہ تیرے اِن سختیوں کی وجہ سے اب تک ہم تم سے جدا بھی ہو گئے ہوں گے۔ لیکن ہم تجھ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب بھی ہم میں کچھ جان موجود ہے حالانکہ تیری خوشی اس میں ہے ہم بالکل فنا ہو جائیں۔ اس لئے ہماری آرزو ہے کہ تو ہمارے مزید امتحان لے کر ہماری اِس حیاتِ فانی کو بالکل ختم کردے۔ ہماری بھی آرزو پوری ہو جائے گی کہ مرتے وقت ہم کو صرف اور صرف تیرا دیدار نصیب ہوگا
مماثل شعر
تجھ کو برباد تو ہونا تھا مرے دل لیکن
ناز کر ناز کہ اُس نے مجھ کو برباد کیا
شعرنمبر ۴
اِن دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے عشق کی والہانہ کیفیت کا ذکر کیا ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عشق کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جذبہ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس کی شدت کا یہ عالم ہے کہ دل و دماغ پر محبوب کا تصور چھایا رہتا ہے۔ محبوب چاہے اُس کے نزدیک ہو یا نہ ہو، اُس کے پاس آئے یا نہ آئے، اُس سے کوئی بندھن رکھے یا نہ رکھے، اُس کی عزت و عقیدت کرے یا نہ کرے، وہ ہمیشہ اُس کی ذات میں بسا رہتا ہے۔ ہر لمحے محبوب کی یاد اُسے ستاتی رہتی ہے۔ بظاہر وہ اس دنیا کے معاملات میں مگن نظر آتا ہے لیکن در حقیقت وہ اپنے ہم عصروں کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔ اُسے ہر چیز میں اپنا محبوب نظر آتا ہے، ہر آواز اپنے چاہنے والے کی معلوم ہوتی ہے اور ہر آہٹ محبوب کی سنائی دیتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
بیٹھے بیٹھے اپنے خیالوں میں گُم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
شاعر کہتا ہے کہ اگر یہ جذبہ کسی کے دل میں موجود ہو تو وہ ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اُس کا دل و دماغ بے خودی کے عالم میں چلا جاتا ہے اور کائنات کی ہر شے اُسے محبوب کی یاد دلاتی ہے۔ ہر لمحہ اُس کے ذہن میں اپنے چاہنے والے کی خوشبو مہکتی رہتی ہے اور وہ خوبصورت یادوں کو دہرا کر ایک نشے میں مست ہو جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آج کل ہم بھی اسی قسم کی کیفیت سے دوچار ہیں اور ہم پر بھی ہر وقت کسی کا سایہ رہتا ہے۔ درد کا یہ شعر سہلِ ممتنع کی بہترین مثال ہے
مماثل شعر
گفتگو کسی سے ہو دھیان تیرا رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
شعرنمبر ۵
اور بھی چاہئے سو کہئے اگر
دلِ نا مہربان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
شاعر اپنے محبوب سے خود کو برا بھلا کہنے کی دعوت اِس امید پر دے رہا ہے کہ شاید اِس نامہربان دِل میں مہربانی کے جذبات پیدا ہو جائیں۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے محبوب کے طعنے، سرد مہری اور ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب ! ہم تیرے سچے عاشق ہیں۔ ہم تیری توجہ ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے ہمیں ہر قسم کے طعنے اور کلمات سننے پڑیں۔ ہمیں اگر تیری زبان سے دل شکنی کی باتیں بھی سننی پڑیں تو بھی ہم نہایت خوش دلی سے اُن کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر تو ہمارے محبوب کی طرح ہم پر توجہ نہیں دے سکتا تو ہم کو یہی منظور ہے کہ تو ہم پر غصہ ہو اور ہم سے ناراضگی کا اظہار کرے۔ اِس لئے ہماری درخواست ہے کہ اگر تمھارے دل میں اور بھی کچھ ہے تو بلا تکلف کہو اور یہ مت سمجھنا کہ ہم برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ہم بڑی خوشنودی اور رضا سے اس کا استقبال کریں گے اور تجھ پر بالکل ناراض نہ ہوں گے۔
شاعر اپنے محبوب کو اس اُمید پر دعوت دے رہے ہیں کہ شاید اُن کا محبوب غصے کے اظہار ہے بعد اپنے رویے پر خود ہی شرمندہ ہو جائے اور اُس کا دل مہربان ہو جائے۔ اِس طرح شاعر کو اپنے محبوب کی قربت حاصل ہو جائے گی
مماثل شعر
لاگ ہو اُس کو تو ہم سمجھیں لگاﺅ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
شعر نمبر ۶
درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
تشریح
شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے درد تم جو ہر وقت اپنے ستم پیشہ اور تغافل پسند محبوب کے عشق میں خود کو گھلاتے رہتے ہو، اذیتیں اٹھاتے ہو اور اس طرح اپنے دل کا نقصان کرتے ہو، اس نقصان میں آخر تم کیا فائدہ دیکھتے ہو؟ ظاہر ہے کہ جس چیز کو تقصان قرار دیا جائے اس کے ساتھ کسی قسم کے فائدے کا کیا تصور وابستہ کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ نقصان اور فائدہ دونوں کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ اے درد تمھیں یہ عشق کا جھنجھٹ چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے فائدے کی بات سوچنی چاہئے

No comments:

Post a Comment