Monday, August 27, 2012

Class XI, Urdu, "مولانا حسرت موہانی غزل 2"

مولانا حسرت موہانی غزل 2

شعر نمبر ۱
نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
تشریح
عشق و محبت کے معاملات بھی بڑے نازک ہوتے ہیں۔ زندگی کا بیشتر حصہ محض آزمائش و امتحان میں ہی گزر جاتا ہے۔ بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ان کے بعد بھی محبوب کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی قربانی قبول ہو جائے اور محبوب کا اعتماد حاصل ہو جائے تو اس سے زیادہ اور کون خوش قسمت ہو سکتا ہے۔ شاعر یہی بات اس شعر میں کہتا ہے۔ ہمارے محبوب کے حسن کی ہمہ گیری کا جہاں تک تعلق ہے ایک عالم اس کا پرستار ہے اور ہر ایک ہی اس سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن ایسے سعادت مند اور خوش نصیب مشکل ہی سے نظر آئیں گے جن پر اُسے اعتماد ہو اور جنہیں وہ اپنی دوستی کا اہل سمجھ کر پانا محرمِ راز بنا لے۔ چنانچہ ایسے لوگ اپنی خوش قسمتی پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ بظاہر شعر میں عشقِ مجازی ہے لیکن حقیقتاً یہ شعر کا تصوف ہے
شعر نمبر ۲
دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کو خدا سلسلہ دراز کرے
تشریح
عشق مےں سب سے بلند مقام جنون کا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد عاشق ہر چیز سے بے نیاز اور صرف اور صرف محبوب کے خیال میں ہمہ وقت مستغرق رہتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں تیری عشق میں مبتلا ہو کر چنون کی حدود میں داخل ہو گیا ہوں۔ اب میں تمام فکروں سے آزاد ہوں، نہ مجھی دنیا کی فکر ہے اور یہ آزادی تیری جنون کے سبب میسر آئی ہے۔ اس لئے میری بارگاہِ رب العزت میں دعا ہے کہ تیرے جنون کے سلسلہ کو اور بڑھائے کہ میں اسی طرح ہر خیال اور ہر تصور سے آزاد صرف اور صرف تیری ہی خیال میں کھویا رہوں۔ یہ شعر مناسبتِ الفاظ، بندش کی چستی اور بے ساختگی کے سبب بہت ہی لطیف ہو گیا ہے۔ پھر مفہوم میں عشقِ حقیقی کا پہلو واضح ہے
شعر نمبر ۳
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
تشریح
عشق کے معاملات میں عقل رہنمائی نہیں کر سکتی۔ عشق جس منزل تک پہنچ سکتا ہے عقل کا وہاں گزر بھی نہیں ہوتا۔ عقل عشق کی بلندی و رفعت کو دیکھ کر محوِ حیرت ہو جاتی ہے۔ اہلِ تصوف عقل و عشق کی اس کیفیت سے خوب واقت ہیں۔ حسرت کے اس شعر میں اس مسئلے کی کچھ نہ کچھ جھلک ضرور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق کے معاملات بھی عجیب ہیں۔ جو چیزیں عام زندگی میں معیارِ خیال کی جاتی ہیں اور جن کا مفہوم مسلمہ اقدار و روایات کے تحت اخذ کیا جاتا ہے عشق میں ان کے معنی و مطالب تک بدل جاتے ہیں۔ عام زندگی میں جو چیزیں معیارِ عقل میں داخل ہو جاتی ہیں عشق میں وہی چیزیں ناسمجھی اور دیوانگی کی حدود میں داخل ہوجاتی ہین۔ عشق و محبت مےں گرفتار ہونا دماغ کا خلل سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے اس سے دامن بچانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن یہ محبوب کی کرشمہ سامانیوں کا نتیجہ ہے کہ عشق و محبت میں جنون کی حدود میں داخل ہونا عقل و دانش کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عشق و محبت میں عقل و خرد سے بیگانگی ہی خرد مندی قرار پائی ہے۔ یہی مفہوم اہلِ تصوف کی زندگی سے منطبق ہوتا ہے۔ یہ شعر بھی بندش، چستی، بے ساختگی اور معنی و مفہوم کے اعتبار سے بہر بلند اور لطیف ہے
مماثل شعر
بے خطر کود پڑا آتش، نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
شعر نمبر ۴
ترے کرم کا سزا وار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
تشریح
جب ہم دعا مانگتے ہیں تو گویا اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی فہرست پیش کر کے نیازمندانہ اس کے قہر و غضب سے پناہ مانگتے ہیں اور اس کے رحم و کرم کو دعوت دیتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ وہ مختارِ کل ہے۔ ہزار گناہوں کے باوجود بھی عفو و درگزر سے کام لے کر سربلند و سرفراز کر سکتا ہے۔ اسی امید پر شاعر اپنے محبوب کے حضور التجا کرتا ہے کہ میری گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ میں نافرمانیوں کے سبب تیری لطف و کرم، عنایتوں اور نوازشون کا مستحق قرار نہیں پاتا۔ مجھی اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ ان گناہوں اور نا فرمانیوں کے باوجود اگر تو مجھ سر بلند و سرفراز کرے، مجھے اپنے رحم و کرم کا مستحق قرار دے دے تو مجھے اس کا پورا پورا اقرار ہے کہ تو مالک و مختارِ کل ہے۔ میں صرف تیرے حضور گناہوں کا اعتراف کر کے رحم و کرم کا طلب گار ہوں۔ آگے تیری مرضی، تو مختار ہے

1 comment: