Monday, August 27, 2012

Class XI, Urdu, "خواجہ حیدر علی آتش غزل 2"

خواجہ حیدر علی آتش غزل 2

شعر نمبر ۱
ہوائے دور مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی، بہار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش امید نو کا ایک اچھوتا سا انداز لئے ہوئے لوگوں کو نویدِ سحر کی خبر سنا رہے ہیں۔
تشریح
آتش نے رومانی اشعار کے علاوہ حالات کے پیشِ نظر بڑے امید افزاءاشعار بھی کہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلسل ناکامیوں سے گھبراتے دلوں کو ناامید ہونا کفر ہے۔ سارے مصائب کی رات کٹ جاتی ہے اور خوشیوں کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ خزاں دم توڑ رہی ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔ تیرگی کے دن کٹ گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو امید افزاء کی نوید سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصائب کے دن ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ بہارےں ہمارے قدم چومیں گی۔ کیونکہ خوشگوار ہوائیں موسمِ بہار کی آمد کا پتہ دے رہی ہیں۔ اب ہر طرف تازگی اور عیش و عشرت کا زمانہ آنے والا ہے
شعر۲
عَدَم کے کُوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر، نہ کوئی دیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
پیشِ نظر شعرمیں شاعر تمام ذی شعور انسانوں کو سفرِآخرت کی تیاری کی تلقین کر رہا ہے۔
تشریح
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے دین کی روشنی میں فلسفہ زندگانی بیان کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک ہر انسان کو اصل و ابدی منزل کی جانب روانگی کے لئے تیاری کرنی چاہئے اور اِس زندگی میں لمحات کی قدر کرتے ہوئے ہر لمحے حصولِ آخرت کی فکرمیں مگن رہنا چاہئے۔ انسان کی زندگی مطلقِ کل کی رضا و مشّیت سے مشروط ہے۔ پُرسکون دائمی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے یہ لازم ہے کہ انسان اپنی رضا کی مداخلت نہ کرے اور اِس زندگی کو اِس طرح بسر کرے کہ اُس کے ہر عمل سے فکرِ آخرت ظاہر ہو۔ یہ زندگی انسانی وجود سے کچھ قربانی مانگتی ہے۔ وہ قربانی صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جاری و ساری نظامِ قدرت سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنے ہر فعل کو تشکیل دے۔ کیونکہ موت مطلقِ کُل کی مرضی سے آتی ہے۔ جب زندگی کسی وجود کو اپنے رحم اور اپنی ہمدردی سے محروم کر دیتی ہے تو اُسے موت کی آغوش میں لے جاتی ہے۔ موت اور زندگی کے درمیان کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہی موت ہمیں اِس زندگی کا احترام سکھاتی ہے۔ اِس لئے ہم پر لازم ہے اِس چند روزہ زندگی کوغنیمت جانیں اور آخرت کے سفر کی تیاری اِس بھرپور طریقے سے کریں کہ دورانِ سفر کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ ایک مرتبہ اِس سفر پر روانہ ہونے والے وجود کے لئے واپسی کے تمام دریچے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر اُسے اپنی نامکمل تیاری کو مکمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا
مماثل شعر
آخرت میں اعمال نیک ہی کام آئیں گے
پیش ہے تجھ کو سفر، زادِ سفر پیدا کر
شعر نمبر ۳
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسائش
عناں گستہ و بے اختیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
شاعر کہتا ہے انسانی زندگی خواہشات سے پُر ہے اور عیش اس کی فطرت میں ہے۔
تشریح
آتش فرماتے ہیں کہ زندگی بے حد مختصر ہے، بڑی تیز رفتار ہے اور پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہے۔ آدمی دنیا کی آسائشوں، راحتوں اور رعناﺅں کسے بھرپور طور پر لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ وہ وقت کی تیز رفتاری کے ہاتھوں مجبور ہے۔ کسی کا وقت پر کوئی اختیار نہیں اور وہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے۔ وہ حال، مستقبل سے بے پرواہ دوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت تیز رفتاری سے گزرتا چلا جائے اور آدمی کو اس دنیا میں کچھ کرنے کا زیادہ موقع نہیں دے گا۔ اسی لئے چاہئے کہ جتناوقت ملے اسے غنیمت جان کر آئندہ پیش آنے والے سفر کے لئے تیار رہے۔ لیکن انسان اسبابِ جہالت کو بڑھاتا ہی رہتا ہے۔ حالانکہ اس کو جس سفر پر روانہ ہونا ہے وہاں وہ تمام ضروریات سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور سامان تو کیا وہ ہر چیز لے جانے کے سلسلے میں بے اختیارہے
مماثل شعر
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں
شعر نمبر ۴
نہ بدرقہ ہے، نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش سفر آخرت کو خطرات سے معمور قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سفر کو وہی آسانی سے پار کر سکے گا جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ نہ کوئی شجر سایہ دار ، نہ کوئی ابر کا ٹکڑا، نہ کوئی ساتھی اور دوست ہے صرف اللہ کا سہارا ہے۔ اگر اس کی رحمت کی نظر ہو جائے تو نزع سے قبر اور قبر سے لے کر میدانِ حشر تک معاملہ آسان ہے اور کوئی مددگار اور ساتھی نہیں ہے۔ وہ آل و اولاد، مال و دولت، جن کو ہم رفیقِ جہاں سمجھتے ہیں وہ سب ختم ہو گئے صرف اللہ کی رحمت سے بیڑہ پار ہے۔ سفرِآخرت ایک ایسا سفر ہے جس کو تنہا آدمی کو خود طے کرنا ہے، کوئی اس کے ساتھ محافظ نہیں ہوتا، نہ کوئی دوست ساتھ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے کٹ جائے۔ اس سفر کو آسان کرنے کی صورت خدا کی عنایت اور مہربانی ہے جو کہ صرف اُسی صورت مل سکے گی جب کہ ہم اُس کے احکامات کی پیروی کر کے اُسے خوش رکھیں
شعر۵
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
آتش عزم و ہمت کا درس دیتے ہوئے یہ خیال پیش کر رہے ہیں کہ منزل کے حصول کے لئے سفر کا آغاز ہی اہم ترین ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کی ہمت اور حوصلہ بلندکر رہے ہیں۔ شاعر کہتا کے کسی بھی مشکل سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ دورانِ سفر ہم کن کن مصائب و آلام کے مدِ مقابل کھڑے ہوں گے؟ اور کیا ہم اپنی منزل اور مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اِس طرح کے خیالات اگر ذہن میں آ جائیں تو انسان آغاز ہی میں مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ شاعر انسانوں کو اس بات کی ترغیب دے رہا ہے کہ ہمیں ذاتِ مطلق پر توکل و بھروسہ رکھتے ہوئے اور اُس ایک ذات سے امید لگا کر جانب منزل سفر کا آغاز کر دینا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے اور اُس کا آغاز کر دیتا ہے تو خود بخود اُس کے لئے راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ آخر کار اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔سفر کے دوران اُسے ہزاروں وفادار ہم سفر مل جاتے ہیں اور اُس کی ہر ممکن طریقوں سے مدد کرتے ہیں۔ انسان کے لئے ایسے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جس کی بدولت وہ تمام مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتا ہوا اپنی منزل پر فتح و کامیابی کا جھنڈا گاڑھ دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بغیر کسی خوف و پریشانی کے اپنی منزل کی جانب سفر کا آغاز کر دیں اور خدائے بزرگ و برتر پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے تمام رکاوٹوں کا ادراک کریں۔ انشاءاللہ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی
مماثل شعر
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
شعر نمبر ۶
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے، دشمن ہزار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
شاعر اس شعر میں سبق دے رہا ہے کہ اگر منزل کی سچی لگن دل میں موجود ہو تو مصائب کے طوفان بھی ہمیں منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہمرِ مرداں اور خدا کی عنایت و مہربانی اگر ہو تو کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ چاہے راہ میں سیکڑوں دشمن اور راہ زن، مصائب و آلام ہمیں گھیر لیں۔ مگر ہمیں اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ ہے تو وہ ہماری دستگیری کرے گا، نگہبانی فرمائے گا اور دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہاں پر انسان کام نہیں آئیں گے بلکہ صرف اللہ کی رحمت کا سایہ ہم پر ہو گا تو ہم اپنا مقصد پا لیں گے۔
شعر نمبر ۷
تھکیں جو پاﺅں تو چل سر کے بل نہ ٹھیر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں، خار راہ میں ہے
تشریح
اس شعر میں مزید اسی مضمون کے شاعر نے تشریح کی ہے۔ کہتا ہے کہ جب سفر کا آغاز کر دیا، خدا کی عنایات و نوازشات پر نظر جمائے رکھی تو راہ کی دشوارویوں سے ڈرنا، گھبرانا کیا؟ اگر چلتے چلتے پاﺅں تھک جائیں تو رک جانا یا ٹہرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تمام دشواریان اور تکالیف تو راستے ہی میں ہوتی ہےں۔ منزل پر پہنچ کر تو آرام و سکون میسر آجاتا ہے۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کے کرے راستے کو جلد از جلد طے کر لینا چاہئے۔ تھک کر بیٹھ رہنے سے دشواریاں کم نہیں ہوں گی۔ مطلب یہ کہ حصولِ مقصد میں دشواریوں کا سامنا یقینی ہے کیونکہ بغیر دشواریوں کے منزلِ مقصود نہیں ملتی

No comments:

Post a Comment