خواجہ میر درد – غزل 1
حوالہ
پیشِ نظر شعر خواجہ میر درد کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
خواجہ میر درد کو اردو شاعری میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ آپ کو اردو
غزل گوئی کا پہلا صوفی شاعر کہا جاتا ہے۔ درد نے شاعری کے دامن میں تصوف کے
پھول کہلائے اور غزل کی بنیاد عشقِ حقیقی پر رکھی۔ آپ کے اشعار سے فلسفہ
ہمہ اوست و وحدت الوجود‘ بے ثباتیِ کائنات و حیات‘ فناوبقا‘ صبروتوکل اور
جبروقدر کا رنگ جھلکتا ہے۔
شعر نمبر ۱
دنیا میں کون کون نہ یک بار ہو گیا
پر منہ اس طرف نہ کیا اس نے جو گیا
پر منہ اس طرف نہ کیا اس نے جو گیا
مرکزی خیال
اس شعر کے پسِ منظر میں درد لوگوں کو یہ نصیحت کررہے ہیں کہ یہ دنیا
کوئی ایسا دلکش مقام نہیں جس سے کبھی نہ ختم ہونے والا تعلق قائم کیا جائے۔
تشریح
اس شعر میں شاعر اپنا صوفیانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہتاہے کہ جب سے
یہ دنیا بنی ہے اس میں طرح طرح کے لوگ آئے اوراپنی زندگی گزار کر چلے
گئے۔ایک مرتبہ اس دنیا سے لوٹ کر چلے جانے والا شخص کبھی لوٹ کر نہ آیا۔
شاہ و گدا‘ آقا و غلام کسی نے بھی اس دنیا میں لوٹنے کی آرزو نہ کی۔اس
موضوع کو چھیڑتے ہوئے شاعر یہ حقیقت حال بیان کر رہا ہے کہ اگر دنیا کوئی
جاذبِ نظر جگہ ہوتی تو لوگ اس میں آنے کی خواہش کرتے اور ہمیشہ ا س میں
رہنے کی جستجو کرتے۔شاعر کہتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا ایک
ناپسندیدہ مقام ہے۔ یہ کوئی امن و آشتی اورسکون کا گہوارہ نہیں کہ اس سے
محبت کی جائے اوراس کی رنگینیوںمیںدل لگایا جائے۔ اس مرکز میں ہرکوئی مصیبت
میں مبتلا رہتا ہے‘ کسی کوسکون اور چین میسر نہیں۔ یہ ایک کانٹوں کا بستر
اور دکھوں کی آماجگاہ ہے۔ تمام خواہشات کے پورے ہونے کا مرکز صرف آخرت ہے
جہاں کی زندگی ابدی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کا ہر فعل آخرت
کے مطابق کریں اور دنیا کی دلچسپیوں سے بے رغبت رہیں
مماثل شعر
چھوٹ جاﺅں جو غمِ ہستی سے
بھول کر بھی نہ ادھر دیکھوں میں
بھول کر بھی نہ ادھر دیکھوں میں
شعرنمبر ۲
پھرتی ہے میری خاک صبا دربدر لئے
اے چشمِ اشکبار یہ کیا تجھ کو ہو گیا
اے چشمِ اشکبار یہ کیا تجھ کو ہو گیا
مرکزی خیال
شاعر نے اپنی بربادی اور محرومی کے احساس کو ظاہر کیا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر نے اپنے شکستہ جذبات کی نمائندگی کی ہے۔ شاعر
کہتا ہے کہ اِس دنیا میںعشق کی بدولت مجھے بہت آلام و مصائب کا سامنا کرنا
پڑا اور میں نے اپنے محبوب سے بچھڑ کر بہت تکالیف و صعوبتیںبرداشت کی ہیں۔
میں نہایت بے قراری کی حالت میں ہوں، میرا دل بہت مضطرب ہے اور میرے وجود
پر سکتہ طاری رہتا ہے۔ میرا جسم ایسی آوارہ ریت کی مانند ہے جو ہوا کے رحم و
کرم پر اِدھر سے اُدھر اُڑتی پھرتی ہے۔ محبوب سے جدائی کے بعد میرے اندر
ایک ناقابلِ بیان خلاءپیدا ہو گیا ہے اور میں ایک نا گفتہ بہ کرب محسوس کر
رہا ہوں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان کا دل بوجھل ہوتا ہے تو اُس کی
آنکھ اُس کا ساتھ دیتی ہے اور اَشک بہا کر دل کا بوجھ ہلکا کر دیتی ہے۔
شاعر اپنی پُر نم آنکھ کو مخاطب کر کہ کہتا ہے اے میری چشمِ تصور تجھے کیا
ہو گیا ہے، تو نے مجھ سے بے وفائی کیوں کی؟ تو میری بے سہارگی اور لاچارگی
میں میرا سہارا بنتی تھی! تو نے بھی اہلِ سماج کی طرح میرا ساتھ دینے سے
انکار کر دیا اور آنسو بہانا بندکر دیا۔ تیری اِس بے رُخی کی وجہ سے میں
مظلوم تر ہوتا گیا اور میری حالت بہت غیر ہو گئی۔ میری محبت رسوا ہو گئی
اور مری زندگی برباد ہو گئی۔ اِس شعر میں شاعر کی بے قراری حد سے زیادہ
بڑھی ہوئی نظر آتی ہے
مماثل شعر
سوزِ دل حد سے سوا اشک افشانی نہ ہو
اُس سے پوچھو جس کا گھر جلتا ہو اور پانی نہ ہو
اُس سے پوچھو جس کا گھر جلتا ہو اور پانی نہ ہو
شعرنمبر ۳
طوفانِ نوح علیہ السلام نے تو ڈبوئی زمین فقط
میں ننگِ خلق ساری خدائی ڈبو گیا
میں ننگِ خلق ساری خدائی ڈبو گیا
مرکزی خیال
شاعر عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ نہایت خطاکار اور گنہگار ہے۔
تشریح
اس شعر میں شاعر نے صنعت تلمیح استعمال کی ہے۔ شاعر طوفانِ نوح علیہ
السلام کا تارییخی واقعہ یاد دلاتے ہوئے یہ منظر پیش کرتا ہے کہ حضرت نوح
علیہ السلام کے دور میں لوگ نہایت سرکش و نافرمان تھے۔ ان کے گناہوں کی وجہ
سے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہو گیا اور ایک زبردست سمندری طوفان کی شکل
میں ان پر عذاب نازل کیا۔ اس طوفان کے باعث اس قدر تباہی مچی کہ یہ کرہ ارض
ڈوب گیا ۔شاعر کہتا ہے کہ میں اس سرکش قوم سے بھی بدتر ہوں۔ میں بہت
گنہگار اور نافرمان ہوں۔ میرا رتبہ اللہ کے نزدیک اِس قدر کم ہے کہ پوری
انسانیت میری وجہ سے شرمندہ ہے۔تمام انسانوں اس بات پر افسوس اور ندامت ہے
کہ ان کے درمیان ایک نہایت گنہگار شخص موجود ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ قوم
نوح علیہ السلام کی خطاو نے تو صرف یہ دنیا ڈبوئی تھی‘ مجھ نافرمان کی وجہ
سے تمام انسانیت ہی شرم سے ڈوب گئی ہے۔ اس شعر میں شاعر نے عاجزی اور
انکساری سے کام لیا ہے۔ ان کا ایسا کہنا ان کی بڑائی کی بہت بڑی دلیل ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ جس ٹہنی پر جتنے شجر ہوتے ہیں وہ اتنی ہی جھکی ہوئی
ہوتی ہے۔ شاعر کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہے
مماثل شعر
میں ہوں وہ ننگِ خلق کہ کہتی ہے مجھ کو خاک
اس کو بنا کر کیوں میری مٹی خراب کی
اس کو بنا کر کیوں میری مٹی خراب کی
شعرنمبر ۴
واعظ کسے ڈراوے ہے یومِ حساب سے
گریہ میرا تو نامہ اعمال دھو گیا
گریہ میرا تو نامہ اعمال دھو گیا
مرکزی خیال
اللہ کے حضور عاجزی اور انکساری سے آہ وزاری کرنے والے شخص کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعروعظ کرنے والے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
اے شیخ تم ہم کوکیوں قیامت اور روزِ حساب کا خوف دلاتے ہو ‘ تم ہم سے یہ
کیوں کہتے ہو کہ اس دنیا میں اگر اچھے اعمال نہیں کریں گے تو روزِآخرت ہمیں
سخت سزا ملے گی اور خوف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تم کو کیا خبر کہ ہم اپنے
گناہوں اور خطاﺅں پر کس قدر نادم ہیں۔ ہم اللہ کے حضور رو رو کر اپنے
گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ ہم اپنی سرکشی اور نافرمانی پر اس قدر اشک
بہاتے ہیں کہ ہمارا دامن بھیگ جاتا ہے ۔ ہماری آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ ہم
اللہ تعالیٰ سے بہت پر امید ہیں اور ہمیں یہ یقین ہے کہ خدائے بزرگ و برتر
نے ہمارے گناہ معاف کر دیے ہوں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کو اشکِ ندامت
بہت پسند ہے۔ ہمارا دل بھی یہ کہتا ہے کہ روزِ جزا و سزا اللہ ہم پر رحم
فرمائے گا اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچائے گا
مماثل شعر
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
شعرنمبر ۵
پھولے گا اس زبان میں گلزارِ معرفت
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تخم بو گیا
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تخم بو گیا
مرکزی خیال
خواجہ میر درد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیائے سخن میں انہوں نے تصوف کا
آغاز کر دیا ہے جس کی وجہ سے علمِ معرفت اردو شاعری میں عام ہو جائے گا۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میںنے اردو شاعری میں ایسا اندازِ
بیان اختیار کیا ہے جس سے لوگوںکے اذہان علمِ الٰہی سے روشناس ہو رہے ہیں۔
گویا میں نے اردو شاعری کی زمین میں معرفت کا بیج بو دیا ہے اور اب اس بیج
کی بدولت خدا شناسی کی ابتداءہو گی۔ اردو شاعری میں بھی لو گ صوفیانہ اشعار
کہیں گے اور یہ بیج ایک لہلہاتے گلشن کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس شعر میں
شاعر نے اپنی بات کو بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اردو
شاعری کی دنیا اب تک صوفیانہ خیالات سے عاری تھی۔ انہوں نے اس گوشے کو بھی
پُر کر دیا ہے۔ اب آنے والے شعراء ان کی اس سوچ کو آگے بڑھائیں گے اور
اردو شاعری پاکیزگی اور رشدوہدایت کا ذریعہ بن جائے گی۔ درد کا یہ دعویٰ
بالکل درست ثابت ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تصوف اور معرفتِ الٰہی اردو شاعری
کی ایک خصوصیت بن گئی
مماثل شعر
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
شعرنمبر ۶
آیا نہ اعتدال پر ہرگز مزاجِ دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا
مرکزی خیال
زمانے کے ظلم و جبر پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب بھی اہلِ سماج کا رویہ ہمارے ساتھ درست نہیں ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر سے شاعر کے ذہن کی فصاحت و فلسفیانہ طرزِ فکر کا پتا چلتا
ہے۔ شاعر تنقید و تنقیص سے کام لیتے ہوئے کہتا ہیں کہ زمانہ بہت انتہا پسند
واقع ہوا ہے۔ زمانہ انسان کو بہت خوشیوں اور شادمانیوں سے نوازتا ہے۔ اُسے
بہت سے خوبصورت لمحات دیتا ہے اور بہت لطیف اورنرم و ملائم نقوش چھوڑ جاتا
ہے۔ ساتھ ساتھ یہی زمانے انسان کو بہت سی تلخ حقیقتوں سے بھی روشناس کراتا
ہے اوریہ تاریکیاں اُس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ میں
نے زندگی اور معاشرے کے یہ دونوں رنگ دیکھے ہیں ۔ دنیا کا نشیب و فراز
دیکھا ہے اور اچھائیوں اور برائیوں کا بہت قریب سے تجربہ کیا ہے۔ شاعر کہتا
ہے کہ جب انتہا اور ابتداء ملا دی جائے تو ایک درمیانی راہ نکل آتی ہے اور
یہ میانہ روی کا راستہ ہی بہترین اور پسندیدہ راستہ ہوتا ہے۔ میں نے جب
زمانے کے دکھ اور سکھ دونوں دیکھ لئے ہیں تو زمانے کا میرے ساتھ سلوک اور
برتاﺅ اعتدال پر آجانا چاہئے تھا اور میرے معاملات سے شدت ختم ہو جانی
چاہئے تھی۔ جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس زندگی کو
خوشیوں کے احساسات سے سجاﺅںلیکن یہ سماج، یہ معاشرہ اور یہ زمانہ اب بھی
میرے وجوو پر بہت تند، سخت اور جفاکار ہے اور میری جذبات کی قدر نہیں کرتا
مماثل شعر
نہ ہنسنے دے نہ رونے دے نہ جینے دے نہ مرنے دے
اِسی کو اِصطلاحاً ہم زمانہ کہتے ہیں
اِسی کو اِصطلاحاً ہم زمانہ کہتے ہیں
شعرنمبر ۷
اے درد جس کی آنکھ کھلی اِس جہان میں
شبنم کی طرح جان کو وہ اپنی رو گیا
شبنم کی طرح جان کو وہ اپنی رو گیا
حوالہ
پیشِ نظر شعر خواجہ میر درد کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
مرکزی خیال
دنیا کی رونقیں اور تمام معاملات انسان کی وجہ سے ہیں اور دنیا کو وجود انسان کے لئے ایک امتحان ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر ایک خوبصورت حقیقت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
شاعر نے صوفیانہ انداز میں انسانی زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔ درد کہتے ہیں
کہ دنیا میں جب کوئی آتا ہے تو اُس کی پیدائش پر بہت خوشیاںمنائی جاتی ہیں۔
مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور خاندان
میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہی۔ آپ نے انسان کی اس دنیا میں آمد کو شبنم سے
تشبیہ دی ہے۔ شبنم جب رات کو پھولوں پر پڑتی ہے تو درخت اور پتے چمک اٹھتے
ہیں۔ گلشن میں ہر چہار سو اُجالا پھیل جاتا ہے اور پورا چمن مہک اٹھتا ہے۔
یہی حال انسان کا ہے۔ اس دنیا میں آمد کے ساتھ ہی وہ مسرت و شادمانیاں لے
کر آتا ہے اور انسانوں کی بستی کو رنگین بنا دیتا ہے۔ لیکن جس طرح شبنم چند
لمحوں کے لئے ہوتی ہے اور دھوپ کی سختی کا مقابلہ کرتے کرتے آخرکار فنا ہو
جاتی ہے اسی طرح انسانی وجود بھی اس دنیا میں چند طویل لمحوں کا مہمان ہے۔
یہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی مشکلوں اور پریشانیوں میں گھرجاتا
ہے۔ معاشرے اور سماج کے ظلم و جبر برداشت کرتے کرتے اُس کی قوت زائل ہو
جاتی ہے اور آخرکار وہ اِس زندگی سے ہار کر ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتا ہے۔
اپنی جان اُس کے اختیار میں نہیں رہتی اور وہ اُس کا تابع بن کر اِس دنیا
کو خیرباد کہہ دیتا ہے
مماثل شعر
نہ تو زمین کے لئے نہ آسمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہان کے لئے
No comments:
Post a Comment