Thursday, August 23, 2012

Class XI, Urdu, "مسلمانوں کا قدیم طرزِ تعلیم"

مسلمانوں کا قدیم طرزِ تعلیم

علامہ شبلی نعمانی ایک ممتاز مورخ کی حیثیت سے اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ علامہ نے اردو ادب میں فلسفئہ تاریخ کو متعارف کرایا ہے آپ کو اپنے علمی ذوق کے ساتھ ساتھ مشا ہرِ اسلام اور اسلام کے شاندار ماضی سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ آپ نے اس مقالے میں مسلمانوں کا علم سے لگاﺅ اور ان کی طلب کا خاکہ بے انتہا حقیقی اورصداقت کے ساتھ پیش کیا ہے جو آپ کے زورِ قلم کا ایک اعجاز ہے۔ حقیقت‘ سچائی‘ صداقت اور غیر جانبداری کا احساس زیرِ نظر مقالے کی ایک ایک سطر سے نمایاں ہے اور آپ کے ایک بلند پایہ مورخ ہونے کی دلیل۔ آپ ایک سیرت نگار‘ ایک انشاءپرداز‘ ایک مﺅرخ اور ایک نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ عالمِ دین بھی تھے۔ آپ کی تحریروں میں حسن و دلکشی کے ساتھ ساتھ علمی وقار اور متانت بھی نظر آتی ہے جو ایک بلند پایہ عالم دین کا امتیاز ہے۔ مسلمانوں کا قدیم طرزِ تعلیم ولامہ شبلی نعمانی کے ایک تحقیقی اور تاریخی مقالے کا اقتباس ہے جس میں انھوں نے مسلمانوں کے قدیم طرزِ تعلیم کے حقیقی‘ تاریخی اور سچے خدوخال پیش کئے ہیں۔ چنانچہ وہ رقم طراز ہیں کہ ۵۴۱ھ تک علوم و فنون کا تعلق اور ذریعہ محض حافظہ اور معمولی سوچ بوجھ والا شخص بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ پھر جیسے جیسے تہذیب و تمدن کے طور طریقے بدلے طریقہ تعلیم میں بھی تبدیلی آئی اور سادہ طریقیہ تعلیم کی جگہ علم و قواعد‘ اصول حدیث‘ علم فقہ‘ رسماءالرجال اور دیگر علوم نے لے لی۔
مسلمانوں کی قدیم تعلیم کا تیسرا دور بڑا دلکش اور اہم ہے اس دور میں مسلمانوں نے بےشمار فتوحات حاصل کیں اور اس کے نتیجے میں بہت سی قوموں نے اسلام قبول کیا لیکن اسلامی حکومت نے تعلیم کے لئے کوئی شعبہ قائم نہیں کیا جس کی وجہ سے مفتوحہ قوم و ملک پر اس کے اخلاق‘ تمدن اور معاشرت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس زمانے میں تمام علوم عربی زبان میں تھے اور علم کے بڑے بڑے مراکز ہرات‘ نیشاپور‘ بخارا‘ فارس‘ بغداد‘ مصر‘ شام اور اندلس تھے۔ ان مقامات پر ہزاروں مراکز قائم تھے۔ اس کے علاوہ مساجد کے صحن‘ خانقاہیں اور علماء کے گھر بھی مکاتب تھے اور ہر طرف علوم و فنون کا چرچا تھا مگر افسوس کہ اس زمانے کا کوئی ریکارڈ ایسا نہیں جس سے طلبہ اور مدارس ی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکے۔ البتہ تذکروں‘ تراجم اور اسماء الرجال سے ہم کسی قدر اندازہ لگاسکتے ہیں۔
پھر تاتار کے حملوں نے ان اسلامی ممالک کو اس طرح تباہ و برباد کیا کہ کتب خانے اور مدارس پامال ہو کر رہ گئے۔ یورشِ تاتار کے بعد جو کچھ بچا وہ اس سرمایہ علم کا عشر عشیہ بھی نہ تھا۔اس زمانے کے نامور علماءکے ناموں کو اگر گنا جائے تو تقریباً پانچ لاکھ علماء کا حال مل سکتا ہے اور پھر یقیناً ہر استاد کے پاس ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔
تاریخ کے مشہور امام علامہ ذہبی لکھتے ہیں:

بعض حلقئہ درس میں دس دس ہزار دواتیں رکھی جاتیں تھیں اور ہر درسگاہ
 میں دوسو امام موجود ہوتے تھے جو اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے۔

اس زمانے میں تعلیم کا طریقہ وہ ہی تھا جو موجودہ دور میں رائج ہے استاد لیکچر دیتا اور طلباءاسے لکھتے جاتے اس طرح جو کتاب تیار ہوتی اسے اَمالی کہتے تھے۔ علم کے شوقین اور متلاشی اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر دور دراز ممالک کا سفر کرکے اہلِ کمال کی خدمت میں حاضر ہوتے اور فیضیاب ہوتے تھے۔ علامہ مقری کی تاریخ میں ان لوگوں کے نام درج ہیں جو حصولِ علم کی خاطر اسپین‘ مصر‘ شام اور بغداد تک گئے تھے۔ ان دنوں اعلی تعلیم کے لئے مناظرہ کی محفل میں شرکت لازمی تھی اور یہ مناظرے بڑے مفید ہوتے تھے۔ طلباء تعلیم سے فارغ ہوتے تو استاد انھیں سند دیتے اور چغہ یعنی گاﺅن پہننے کی اجازت دیتے تھے جسے طیلسان کہتے تھے۔
مفتوحہ ممالک میں حصول علم کے سلسلے میں بڑا جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا یہی وجہ تھی کہ ایران میں بھی نحو‘ حدیث‘ فقہ‘ لغت‘ فلسفہ اور دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔مشہور مسلم سائینسدان اور عالم ”بوعلی سینا“ وزارت کی مصروفیات کے باوجود مصروف رہتے اور ان کی خدمت میں ذہین اور ہونہار طلباء کا کوئی نہ کوئی گروپ حاضر رہتا جنھیں وہ تعلیم دیتے تھے پھر حکومت کے عہدہ داران بھی تعلیم کی سرپرستی کرتے اور علماءکو وظائف سے نوازا جاتاتاکہ وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر علم کو فروغ دے سکیں۔
اس کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے دور میں تعلیم کے لئے ایک قانون بنایا اور فارغ التحصیل ہونے کے لئے ایک خاص مدت مقرر کی ۔ علومِ قرآنیہ اور علمِ سے زیادہ زور علم الصرف اور نحو پر دیا جانے لگا۔ حکومتیں اور حکمران بدلتے رہے لیکن علمی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ مفید ثابت ہوئے ہر حکمران اور ہر فرد گزشتہ حکمرانوں سے زیادہ اس ضمن میں فیاضی کا ثبوت دیتا رہا تاکہ تاریخ میں اس کا نام روشن رہے۔ سرکاری مدارس سے اس وسعتِ تعلیم کا اندازہ لگانا مشکل ہے البتہ صحیح اندازہ لگانا ہو تو نجی درسگاہوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ مثلاً ۸۴۷ھ میں مصر میں بیشمار مدارس تھی اور وہاں کی صرف ایک جامع مسجد میں چالیس سے زیادہ حلقہ ہائے درس موجود تھی جن میں مختلف علوم و فنون کی تعلیم دی جا تی تھے۔
یہ ہے ہمارے اسلاف کے علمی عروج کا مختصر سا جائزہ مگر افسوس کہ ہم اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے۔ علامہ اقبال نے بڑی دلسوزی سے مسلمان نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ

حکومت کا ہے کیا رونا‘ کہ وہ عارضی شے ہے
مگر    دنیا   کے   آئینِ   مسلم   سے  نہیں چارا
وہ    موتی  علم  کے  یعنی  کتابیں  اپنے آباءکی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

No comments:

Post a Comment