Friday, August 24, 2012

Class XI, Urdu, "مولانا الطاف حسین حالی"

مولانا الطاف حسین حالی

ایک تعارف
مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کی پہلی وجہ آپ کی اردو نثر اور اردو نظم دونوں میں یکساں شہرت و مقبولیت ہے اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایہ شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظرانداز نہیں کیا۔
حالی کے زمانے میں غیر ملکی اقتدار نے اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی۔ معاشرہ انحطاط کا شکار تھا اور کسی بھی راہ کے تعین کرنے کا قطعی فیصلہ مشکل تھا۔ ایسے دور میں پروان چڑھنے والے حالی دنیائے ادب میں اس طرح روشن ہوئے کہ ان اصلاحی کارنامے آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بنے۔بقول شاعر
فکر کو سچائی کا نغمہ دیا
شاعری کو اک نیا لہجہ دیا
گرم ہے جس سے لہو افکار کا
عشق کو حالی نے وہ شعلہ دیا
حالی کی نثرنگاری کی خصوصیات
حالی کی نثرنگاری کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔

 تنقید نگاری
اردو میں حالی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فنِ تنقید کو صحےح طور پر اپنایا۔ مقدمہ حالی کی نہایت اہم اور لازوال تصنیف ہے۔ اس سے اردو ادب میں باضابطہ تنقید کا آغاز ہوتا ہے۔ اردو تنقید کی دنیا میں مقدمے کو تنقید کا پہلا صحیفہ کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شوکت حسین سبزواری کہتے ہیں:
ہماری شاعری دل والوں کی دنیا تھی۔ حالی نے مقدمہ لکھ کر اسے ذہن دیا۔ بیسویں صدی کی تنقید اسی کے سہارے چل رہی ہے۔

 سواغ نگاری
اردو میں جدید طرز کی سواغ عمری کے بانی حالی ہیں۔ ان کی تمام سواغ عمریاں ایک خاص نقطئہ نظر کے تحت لکھی گئی ہیں۔ وہ افادیت کا ایک مخصوص تصوررکھتے ہیں۔ شیخ سعدی کی سواغ حیاتِ سعدی لکھ کر قوم کو انہوں نے ایک شاعر‘ علم اور معلمِ اخلاق سے روشناس کریا۔ اس کتاب کے بارے میں شبلی جیسے کٹر نقاد کو بھی معاصرانہ چشمک کے باوجود بے ساختہ داد دینی پڑی۔ان کی تصنیف کردہ سواغ عمریوں میں حیاتِ جاوید بھی ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع کتاب ہے ۔
علامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں:
یہ ایک دلچسپ‘ محفقانہ اور بے مثل سواغِ عمری ہے۔

ڈاکٹر مولوی عبد الحق کہتے ہیں:
ہماری زبان میں یہ اعلی اور مکمل نمونہ سواغِ عمری کا ہے۔

 مدعا نگاری
حالی کی غرض اپنے مضمون کو ادا کرنے اور مطلب کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ان کی تحریروں میں مبالغہ آرائی کا رنگ نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے جس مضمون پر قلم اٹھایا ہے اس کے مطالب کو کم سے کم رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ بڑے سچے اور دیانت دار مدعا نگار تھے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
حالی کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا مدعا نگار کہا جاسکتا ہے۔

سرسید کا اثر
حالی کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ ان کے خیالات سرسید کی آواز یا بازگشت ہیں اور اس نسبت سے ان کا اسلوب بھی سرسید سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ بلاشبہ حالی کے اسلوب مےں سرسید کی بعض باتیں ملتی ہیں۔ جیسے سادگی‘ منطق اور اظہار بیان میں بے تکلفی۔ لیکن ان کی نثر میں سرسید کے مقابلے میں جہاں تنوع کم ہے وہاں سادگی زیادہ ہے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:
حالی کے یہاں سرسید سے بھی زیادہ جچے تلے انداز میں فطرت پرستی نظر آتی ہے۔

 مقصدیت
حالی کی تمام نثری کاوشوں میں مقصدیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ان کی مقالہ نگاری کی ابتدا‘ ان کا پہلا مقالہ سرسید احمد خان اور ان کا کام سے ہوئی جس میں انہوں نے خاتم پر لکھا ہے کہ:
میں نے جو کچھ لکھا اس سے مجھے سرسید احمد خان کو خوش کرنا منظور نہیں۔ نہ ان کے مخالفین سے بحث مقصود ہے بلکہ اس کا منشاءوہ ضرورت اور مصلحت ہے جس کے سبب سے بھولے کو راہ بتائی جاتی ہے اور مریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے۔

 خلوص و سچائی
حالی کی تحریر میں اثر و تاثیر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص و سچائی ہے یعنی دل سے بات نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے ان کا یہ شعر ان کی نثر پر بھی پورا اترتا ہے۔ جس میں حالی کہہ رہے ہیں کہ

 اے شعردلفریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پہ صیف ہے جو نہ ہو دل گدازت

انگیریزی الفاظ کا استعمال
سرسید اور ان کے رفقاءنے شعوری طور پر اپنی تحریروں میں انگیریزی الفاظ کو استعمال کیا۔ حالی کے یہاں بھی انگریزی کے الفاظ کا استعمال نظر اتا ہے۔ چند فقرے ملاحظہ فرمائیں:

جس کے لٹریچر کی عمر پچاس برس سے زائد نہیں
جس کی گرائمر آج تک اطمینان کے قابل نہیں ہوئی۔

مقالہ نگاری
اردو میں مقالہ نگاری کی ابتداءسرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق سے ہوئی اور اسی کی بدولت حالی کے جوہر بھی دیکھنے کو ملے۔ حالی کے مقالات کو بہ لحاظِ موضوع کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کا پہلا اور بنیادی مقصد سرسید اور ان کے مقاصد کی تبلیغ اور جدید نظریہ کی ترجمانی ہے جس مین مسلمانوں کے سیاسی‘ سماجی ‘ صنعتی اور تعلیمی شعور کو بیدار کرنا اور نئی تعلیم کو فروغ دینا شامل ہے۔ جب کہ ان مقالات کا دوسرا حصہ تبصروں‘ خطابات ‘ کانفرنسوں اور جلسوں کے لیکچروں پر مشتمل ہے۔

منتوع موضوعات
حالی کی شخصےت کی طرح ان کے موضوعات میں بھی بہت تنوع ہے۔ وہ اپنے اسلوب کو اپنی تصنیفی ضروریات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ وہ پہلے مصنف ہیں جنہوں نے ادبی‘ سائنسی‘ تنقیدی و متانت اور روانی سے لکھے چلے جاتے ہیں۔ لیکن قدیم مزاجوں کو حالی کا یہ انداز روکھا اور پھیکا نظر آتا ہے اور وہ ان کی تحریروں کو غیر معیاری قرار دیتے تھے لیکن یہی انداز و اسلوب تو حالی کا سرمایہ ہے۔

معروف تنقید نگاروں کی آراہ
حالی اردو کے ایک عظیم نثرنگار‘ نقاد“ اور سواغ نگارہیں۔ بقول مولوی عبدالحق:
نثر حالی میں تین کتابوں یعنی یادگارِ غالب‘ مقدمہ شعروشاعری اور حیات جاوید کو درجہ کمال حاصل ہوچکا ہے یعنی یہ وہ کتابیں ہیں جو اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ہمیشہ زوق و شوق سے پڑھی جائیں گی۔
پروفیسر احتشام حسین حالی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوتے رقم طراز ہیں:
حالی نے قدیم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس میں اچھے کو برے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ انہوں نے روایتوں کا احترام کرنا سکھایا۔
عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
حالی بڑے نقاد تھے انہیں اردو کا سب سے بڑا نقاد بھی کہاجاتاہے۔ کیونکہ انہوں نے اس فن کی طرف اس وقت توجہ دی جب کسی کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ لوگ اس سے ناواقف اور نا آشناتھے۔ حالی نے تنقید کی طرف توجہ کرکے اردو ادب میں تنقیدی شعور کی شمع روشن کی اور اس شمع کو ہاتھ میں لے کر آگے بڑھے اور اس کی روشنی میں ان گنت منزلیں طے کیں ۔ حالی کی تنقید نہ ہوتی تو اردو ادب کا ان منزلوں سے ہمکنار ہونا تو درکنار ہونا تو دور کی بات‘ ان کا تصور بھی ناممکن تھا۔

No comments:

Post a Comment