Monday, August 27, 2012

Class XI, Urdu, "مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 2"

مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 2

شعر نمبر ۱
سب کہاں، کچھ لالہ و گُل میں نُمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مرکزی خیال
ازل سے آج تک طرح طرح کی خوبیاں رکھنے والے اور بے شمار حسین لوگ مرنے کے بعد مٹی میں مل گئے۔ مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے کارناموں کی بدولت لالہ و گُل بن کر اپنی بہارِ حسن دکھا رہے ہیں۔
تشریح
یہ شعر مرزا غالب کی معنی آفرینی اور جدت خیالی کا ایک خوبصورت اور انوکھا نمونہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات مسلمہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ کوئی اس دنیا میں نہیں آتا۔ لیکن حسن کا جوشِ نمو اور شوقِ نمائش ایک ایسی چیز ہے کہ جو حسن کو دوبارا وجود میں لاتا ہے۔ اور سے لالہ و گُل کی شکل دے کر ایک دفعہ پھر اہلِ نظر کے لئے سامانِ تسکین مہیا کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال تمام اہلِ حسن کے لئے ہے جو کہ زندگی کے اسٹیج پر اپنا اپنا کردار ادا کر کے واپس چل دئے اور دوبارہ اس خاک میں مل گئے۔ جو لوگ گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں اور صرف اپنی ذات کے لئے جیتے ہیں تو مرنے کے بعد اُن کا وجود انکے نام کے ساتھ اجزائے خاک ہو جاتاہے۔ مگر دوسروں کی خاطر جینے والااپنا نام ہمیشہ کےلئے امر کر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوا بھی جو ماضی کے اوراق کو فنا کر دیتی ہے۔ ان کی وجود کو تو خاک میں ملا دیتی ہے مگر اُن کا نام لوگوں کے دلوں میں انمٹ چھوڑ جاتا ہے
مماثل شعر
عجیب یہ تیرا خاک داں ہے اسی کی ہے روشنی جہاں میں
فلک نے اختر بنا لئے چراغِ ہستی بجھا بجھا کر
شعر نمبر ۲
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
اب مگر نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب اپنے ماضی کی فراموشی کا تذکرہ کر رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ جب ہمیں غمِ جاناں کا سامنا نہ تھا تو اُس وقت زندگی بڑی حسین و دلکش تھی، صبر و فکر سے پاک تھی اور ہر لحاظ سے مثالی زندگی تھی۔ وہ زمانے بھی ہمےں یاد ہے جب ہم جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ جب زندگی کا لطف دوبالا ہوا کرتا تھا لیکن جب سے گردشِ زمانہ نے عشق کے مرض میں مبتلا کیا ہے اس سقت سے زندگی کی وہ رنگینی باقی نہیں رہی اور صرف دل کے صنم خانے میں اپنے محبوب کا خوبصورت مجسمہ رکھے اسی کی پرستش کئے جا رہے ہیں۔ محبوب کے عشق نے وہ بے خودی کا عالم کر دیا ہے کہ اس کے سوا کچھ یاد ہی نہیں۔ نہ وہ غافل نہ وہ دوست احباب، پر دنیاوی شہرت اور ہر رشتے کو بھول کر ہم اسی کی زلف کے سائے تلے زندگی بتانا چاہتے ہیں۔ اب تو مئے عشق نے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ اس حسین زندگی کے دھندلکی میں تیری شبیہ بھی ذہن میں رکھ سکوں۔ اس لئے کہ مدہوشی نے ماضی کے ہر عکس کو مٹا دیا ہے
مماثل شعر
ایسا الجھا ہوں غم دنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں
شعر نمبر ۳
سب رقیبیوں سے ہوں ناخوش پر زنانِ مصر سے
ہے زُلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب حضرت یوسف علیہ السلام کے سحر انگیز حسن کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح
زیر نظر شعر اُس واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے احسن القصص سے تعبیر کیا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بہت حسین و خوبصورت تھے۔ انہیں اُن کے بھائیوں نے حسن کی وجہ سے کنویں میں گرا دیا تھا۔ بعد میں قافلے والوں کے ہاتھوں فروخت ہوئے۔ عزیز نے اپنی زوجہ زلیخا کو آپ کی پرورش پر مامور کیا۔ لیکن عہد شباب میں آپ کا حسن لاثانی ہو گیا اور عزیزِ مصر کی بیوی آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر فراق ہو گئی۔ جب اس عشق کا چرچا مصر میں ہوا تو وہاں کو عورتیں زلیخا پر آوازیں کستی تھیں کہ تم ایک غلام پر عاشق ہو گئی ہو۔ تم نے اس میں کیا خوبی، کیا حسن اور کیا رعنائی دیکھی جو دل دے بیٹھی۔ اس طرح کے طنز سے تنگ آکر زلیخا نے ایک روز تمام عورتوں کو جمع کیا۔ اُن کے ہاتھوں میں چھری اور لیموں دے دیا کہ جب یوسف کو دیکھو تو کاٹنا۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایا گیا۔ وہ سب حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال میں ایسی محو ہو گئیں کہ لیمو کاٹنے کے بجائے اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھیں اور کہا کہ یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔
اس واقعے کو پیشِ نظر رکھ کر شاعر کہتا ہے کہ عشق میں یہ بات عام ہے کہ عاشق اپنے رقیبوں سے جلتے ہی۔لیکن عام عادت کے خلاف زلیخا مصر کی عورتوں یعنی رقیبوں سے خوش ہے کہ وہ بھی اُسی طرح یوسف پر عاشق ہو گئیں۔ اس خوشی کا سبب یہ تھا کہ یہ عورتیں زُلیخا کو اب کوئی طعنہ نہیں دیں گی
مماثل شعر
شاعرو، نغمہ گرو، سنگ تراشو دیکھو
اُس سے مل لو تو بتانا کہ حیسں تھا کوئی
شعر نمبر ۴
جوئے خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فِراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
مرکزی خیال
اس شعر مےں غالب اپنے محبوب کی جدائی کے کرب کو بیان کر رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ شبِ فراق محبوب اور اہلِ عشق کے لئے کٹھن پہاڑ کی حیثیت رکھتی ہے جسے بسر کرنا بے حد دشوار ہوتا ہے۔ ہم بھی اپنے محبوب کی جدائی میں بے حد تڑپ رہے ہیں۔ اس سے دوری اور اُس کی جفا کا کرب ہمیں خون کے آنسو رُلاتا ہے۔ ہم اس کے فراق میں اس قدر روتے ہیں کہ ہمارے آنسو خشک ہو چکے ہیں اور آنکھوں سے آپ کی جگہ خون سیل رواں بہہ نکلا ہے۔ محبوب کا فراق بہت بڑی اذیت ہے۔ اور اس اذیت میں مبتلا ہو کر رونا تو ہمارا حق ہے۔ اس لئے ہمیں کوئی نہ روکے کیونکہ یہ رونے والی دو آنکھےںان دو چراغوں کی مانند ہے کہ جو اس کڑی رات میں ہمیں روشنی کا احساس دلاتی ہیں۔ اور یہی دو شمعیں ہمارے محبوب کو بھی اس بات کا اغساس دلائیں گی کہ ہم اس کے عشق میں کس قدر گرفتار ہیں اور اس کے فراق میں کس قدر عقوبت سے گزر رہے ہیں۔
عاشق کے لئے سب سے کٹھن اور تکلیف دہ فراق کی رات ہوتی ہے کہ اس میں محبوب کی یاد بہت ہی زیادہ تڑپانے لگتی ہے۔ اس وقت دردِ عشق سے بے چین ہو کر عاشق آنسو بہانے لگتا ہے
شعر نمبر ۵
میں چمن میں کی گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبل سُن کر مرے نالے غزلخواں ہو گئیں
تشریح
یہ عام قائدہ ہے کہ مکتب میں استاد کی غیر موجودگی میں طلبہ نہیں پڑھتے لیکن جیسے ہی استاد کو آتا دیکھتے ہیں یا اُس کی آواز سن لیتے ہیں تو اور بھی زیادہ جوش و خروش سی اپنا سبق دہرانے لگتے ہیں۔ شاعر نے اسی نفسیات کو پیشِ نظر رکھ کر شعر کہا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا چمن میں جانا تھا کہ ایک مکتب و مدرسہ کا سماں پیدا ہو گیا۔ بلبلیں میرا نالہ سن کر اپنے اپنے نغمے نہایت جوش و خروش سے دہرانے لگیں۔ انہوں نے مجھ سے ہی نالہ و فریاد کرنا سیکھا ہے لیکن میرے نالوں کے مقابلے میں اُن کے نالوں میں درد و اثر کی کیفیت کم ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلبل دلکش آواز سن کر خود بھی نغمہ سرا ہو جاتی ہے۔ میں باغ میں گیا میرے نالے سن کر بلبلیں جوش و مسرت میں غزل سرا ہوگئیں کہ دیکھو ہمارے ہی جیسا نالہ و فریاد کرنے والا آگیا۔ چونکہ میں بھی عاشق ہوں اور بلبل بھی عاشق ہے اس لئے ہم دونوں کی کیفیات ملتی جلتی ہیں۔ میری غزلوں میں وہی کچھ ہے جو اس کے دل کی پکار ہے یا پھر مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہیں کیونکہ دیوانے کو دیکھ کر بچے خوش ہوتے ہیں
شعر نمبر ۶
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
تشریح
خدا واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور خدا کو جو ایک مانتا ہے وہ موحد ہے اور موحد اُن تمام رسوم کو ترک کر دیتا ہے جو ملت و مذہب کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ وہ صرف اور صرف ایک خدائے واحد کی پرستش کرتا ہے۔ یہی بات شاعر کہتا ہے کہ ہم موحد ہیں اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رسوم کو مٹائیں اور ترک کریں کیونکہ جب رسمیں ترک ہوتی ہیں تو تمام مذاہب آپ ہی آپ ختم ہو جائیں گے اور ملتیں مٹ کر افزائے ایمان بنتی جائیں گی۔ مطلب یہ کے مذہب و ملت کی آر میں طرح طرح کی رسمیں اختراع کر کے جزوایمان بنا دی جاتی ہیں۔ اس طرح وحدانیت کا تصور خاک میں مل جاتا ہے جو کہ اصل ایمان ہے۔ لیکن موحدین ان رسومات کو ترک کرتے ہیں تو مذاہب و ملت میں خالص وحدانیت کا تصور رہ جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مذاہب مٹ کر ایمان کا جزو ہو جاتے ہیں
شعر نمبر ۷
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
مرکزی خیال
زمانے کے نشیب و فراز دیکھنے والے افراد میں مصائب و آلام کا احساس رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے۔
تشریح
شاعر نے بڑا خوبصورت اور مﺅثر اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیشِ عقل کیا ہے کہ کسی بھی چیز کی انتہا اور زیادتی اس کے احساس و حقیقی اثر کو ختم کر دیتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت مصائب و آلام کا سامنا رہتا ہے اور وہ مشکلات میں گھرا رہتا ہے تو اس کا احساس ِ غم فنا ہو جاتا ہے کہ اسے غم ٰغم معلوم نہیں ہوتا بلکہ معمول کی بات لگتی ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ میرے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کے واقعات پیش آئے ہیں اور میں بھی اس سے متاثرہ شخص ہوں۔ مجھے اس قدر دکھوں کا سامنا رہتا ہے کہ میں غم کی کیفیت ہی بھلا بیٹھا ہوں۔ اس شعر کو اگر ہم وسیع معنوں میں لیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی انتہا نقصاندہ ہوتی ہے
شعر نمبر ۸
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا اِن بستیوں کو تُم کہ ویراں ہو گئیں
تشریح
اس شعر میں غالب لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتاہے کہ اے لوگو! اگر غالب اسی طرح روتا رہا یعنی مسلسل لگاتار بہت شدت سے روتا رہا تو اُس کا یہ رونا ضرور رنگ لائے گا۔ تم دیکھ لو گے کہ اس کی رونے سے بستیاں کی بستیاں ویران ہو جائےں گی کیونکہ اس کے رونے میں درد و اثر کی ایسی کیفیت ہے کہ وہ بستیاں چھوڑ کر ویرانوں میں نکل جائیں گے یا اُس کے آنسو ایسا سیلاب لائیں گے کہ یہ سیلابِ اشک آبادی کو بہا کر لے جائے گا، مکانوں کو مسمار کر دے گا۔ نتیجتاً پوری بستی ویراں ہو جائے گی

No comments:

Post a Comment