میبل اور میں
پطرس ان مزاح نگاروں میں سے ہیں جن
کی تحریریں حجم میں کم ہونے کے باوجود وزن میں بہت زیادہ ہےں جن پر ادب کا
شعئبہ مزاح فخر کرسکتا ہے ۔ ان کے مزامین اردو کے مزاحیہ ادب میں ایک نئے
باب کا درجہ رکھتے ہیں وہ زندگی کے نہایت معمولی اور روزمرہ معاملات میں
میں مزاح کے انوکھے پہلو نکالتے ہیں۔ زبان انکے مزاح میں شہ رگ کا درجہ
رکھتی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں:
ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں:
پطرس اردو ادب میں خالص مزاح نگاری کے سب سے بڑے علم بردار ہیں
اگرچہ ان
کے سوچنے کا انداز اور مزاح نگاری کے حربوں کا استعمال انگریزی
اثرات کا غماز
ہیں پھر بھی ان کی نگارشات خالص ادب کا درجہ اختیار کرگئی
ہیں۔
میبل اور میں احمد شاہ پطرس بخاری پطرس کے
فنِ مزاح نگاری کا ایک شاہکار ہے٬ جس میں انہوںنے لطیف پیرائے میں عورت اور
مرد کی نفسیاتی کیفیت کو پیش کیا ہے۔انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
کہ بعض معاملات میں عورت اور مرد دونوں کی فطرت یکساں ہے۔ اسکے ثبوت کے طور
پر انہوںنے اپنا اور اپنی یورپی خاتون دوست میبل کا ذکر کیا ہے۔
میبل اور پطرس دونوں کیمیرج یونیورسٹی میں ایک ہی مضمون (انگریزی
ادبیات) کے طالب علم تھے۔ دونوں کو مطالعے کا شوق تھا ان کے مشاغل اور
دلچسپیاں بھی تقریباً ایک ہی تھیں۔ دونوں کا مطالع وسیع تھا۔ اس سلسلے میں
دونوں کتب کا باہمی تبادلہ کرتے رہتے تھے۔ پطرس کے مطابق جدید نظریئہ
مساوات اور فرد کی آزادی کے تصور کے خیال نے دونوں سے قولاً مرد اور عورت
کی برابری اور ہر لحاظ سے مساوی حیثیت کو تسلیم کرالیا تھا۔ لیکن فطرت کے
اصول نے دونوں کے اندرونی جذبات کو بیرونی اثرات سے آزاد رکھا۔ یہی وجہ تھی
کہ دونوں ایک دوسرے کے برتر ہونے کے احساس میں مبتلا تھے اور دونوںیہ مثل
صادق آتی تھی۔
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور!
اپنی برتری کے احساس نے میبل کو آمادہ کیا کہ کم تر معلومات رکھنے کے
باوجود وہ خود کو علم کی ذخیرہ اندوز اور لٹریچر کی مکھی ثابت کرے خواہ اس
کے لئے اسے غیر اخلاقی اصول بھی اختیار کرنا پڑیں۔ دوسری جانب پطرس نے اپنے
دل میں میبل کو شکست دینے کی ٹھان لی۔ پطرس نے اپنے مطالعے پر اپنا تمام
وقت صرف کیا لیکن اسکے باوجود اسکی رفتارِ مطالعہ میبل سے میل نہ کھا سکی۔
میبل معمول کے مطابق زیرِ مطالعہ کتب اور مضامین پر بحث و مباحثہ اور دو
رکنی تنقیدی نشست میں برجستہ‘ بےباک اور استادانہ شان سے تبصرہ اور تنقید
کرتی رہی۔ وہ ہر روز نئی کتابیں لاتی اور پطرس کو تنقید و گفتگو کی دعوت
دیتی اور موقع پر ذہناً اپنی برتری منوا کر چلی جاتی۔
ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر بالآخر مردانہ برتری اور وقار کے احساس نے
پطرس کو آمادہ کرلیا کہ میبل کی رفتارِ مطالعہ کا ساتھ دیا جائے۔ اس لئے کہ
وہ صرف مرد ہی نہیں تھا بلکہ ایشیائی مرد تھا اور اسے یقین تھا کہ مرد ہی
برتر ہے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو مرد کی برتری کو برقرار
رکھا جائے گا۔ اس نے اپنی خفت مٹانے اور مردوں کی لاج رکھنے کے لئے کتابوں
پر بغیر مطالعے کے تنقید شروع کردی اور اس فنکارہ انداز میں تنقید کی کہ
میبل کے فرشتے بھی نہ سمجھ سکے کہ پطرس جزوی مطالعے کی بعد بھرپور تبصرہ و
تنقید کرتا ہے۔
بات کرتی ہیں کتابیں سننے والا کون ہے
سب ورق یونہی الٹ دیتے ہیں پڑھنے والا کون ہے
سب ورق یونہی الٹ دیتے ہیں پڑھنے والا کون ہے
لیکن ضمیر کی ہر دھڑکن اسکے فعل پر ملامت کرتی رہی اور دل و دماغ میں
کشمکش جاری رہی ایک دن اچانک پطرس انفلوئینزا میں مبتلا ہوا علالت نے اسکے
احساسِ ندامت کو بیدار کیا اور دوسرے گناہوں کیطرح یہ گناہ بھی اسے بے چین
کرنے لگا۔ آخر کار پشیمانی نے پطرس کو مجبور کردیا کہ وہ اعترافِ گناہ کرتے
ہوئے اپنی اس حرکت پر میبل سے معذرت کرلے۔ چنانچہ اس نے اپنی اس ناپسندیدہ
حرکت پر میبل سے معذرت کرلی اور اس پر واضح کردیا کہ وہ کتب کا مطالعہ کیے
بغیر تبصرہ کرتارہا تھا۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی عزم کرلیا کہ اب وہ تمام
کتابیں پوری دلجمعی سے پڑھے گا اور تنقید و مطالعے کا حق ادا کردے گا۔
چنانچہ جب پطرس نے کتابوں کو مطالعے کیلئے کھولا تو یہ دیکھ کر اسکی عقل
کے طوطے اڑگئے کہ کتابون کے اکثر اوراق کٹے ہوئے نہ تھے۔ جس پر پطرس یہ
سمجھ گیا کہ میبل نے بھی میری طرح کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ اسے یقین
ہوگیا تا کہ جدید مغربی نظریہ مساوات درست ہے اور یہ حقیقت ہے کہ:
مردو عورت کسی معاملے میں مساوی ہوں یا نہ ہوں ایک دوسری
پر برتری حاصل کرنے اور فریب دینے میں یقیناً برابر ہیں۔
No comments:
Post a Comment