رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات
حوالہ
پیشِ نظر عبارت رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات سے لی گئی ہے جس کے مصنف سر سیّد احمد خان ہیں۔ یہ مضمون سر سیّد کی کتاب ”مقالاتِ سر سیّد“ سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ مصنف
جدید اردو ادب کے بانی سر سیّد احمد خان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کا شمار اردو ادب کے نامور نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ سر سیّد کا دائرہ ادب نہایت وسیع ہے۔ مقصدیت‘ منطقیت‘ سلاست‘ اضطراب اور بے ساختگی وہ چند خصوصیات ہیں جو سرسیّد کی تحریر کے مطالعے کے بعد قاری کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔ اردو زبان کے لئے آپ کی اَن گِنت خدمات ہیں اور اردو کی لامتناہی ترقی آپ ہی کی مرہونِ منت ہے۔ بقول مولوی عبدالحق:
یہ سر سیّد ہی کا کارنامہ تھا جس کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
تعارفِ سبق
یہ مضمون رسم و رواج کی کورانہ تقلید کے نقصانات کو اُجاگر کرتا ہے۔ اِس میں اندھی تقلید کے مضمرات واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں اور نہایت مو�¿ثر اندار میں قوموں کے عروج و زوال کی وجہ بتائی ہے۔ سرسیّد نے استدلال اور منطق سے کام لیتے ہوئے اس نکتے کو پیش کیا ہے کہ بے جا رسم و رواج کی پابندی سے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں مانند پڑ جاتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ فنا ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ قوموں سے ان کی آزادی اور ترقی چھین لیتی ہے۔
اقتباس ۱
جو امر کہ پسندیدہ اور تسلیم کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے فہم اور اپنی عقل سے کام لیں اور رسم و رواج کی پابندی بھی ایک معقول طور پر رکھیں ۔ یعنی کہ جو عمدہ و مفید ہوں اُن کو اختیار کریں‘ جو قابل اصلاح ہوں ان میں ترمیم کریں اور جو بری اور خراب ہوں ان کی پابندی چھوڑ دیں۔
تشریح
سر سید احمد خان اس عبارت میں اس وجہ کو بیان کر رہے ہیں جس پر عمل کر کے کوئی قوم ترقی کی جانب گامزن ہو جاتی ہے یا اگر کوئی قوم پستی سے نکلنا چاہتی ہو تو اسے اس فعل کو سرانجام دینا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کے لوگوں کو اپنے آباﺅ اجداد کے بنائے ہوئے اصولوں کی کورانہ تقلید سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انہیں اپنی عقل‘ اپنی سوچ‘ اپنے خیالات اور اپنے فہم سے کام لیتے ہوئے ان رسومات کو اچھی طرح پرکھنا چاہئے اور ان کے فوائد و نقصانات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ ان رسومات و پابندیوں پر تحقیق کر لینے کے بعد ان کو یہ فیصلہ کر نا چاہئے کہ ان ضوابط میں سے کون سے ان کے لئے مفید ہیں اور کن کی پیروئی سے انہیں نقصان ہوگا۔ سرسید کہتے ہیں کہ بے جا اور فضول رسومات کو ترک کر کے ایسی تہذیب و تمدن ترتیب دینا بہتر ہے جس سے عہدِ حاضر کا معاشرہ مستفید ہو۔ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر پرانی اور عائد کردہ رسومات میں کوئی خامی ہے تو اس کو دور کر کے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ان قوانین کی زنجیروں میں جکڑ لینا نہایت نقصان دہ ہے اور جہالت کے مترادف ہے۔ کسی بھی عقل و دانائی رکھنے والی قوم کو یہ عمل زیب نہیں دیتا کہ وہ رسومات کو مذہب کا درجہ دے اور بے جا کاموں میں اپنا وقت اور اپنی توانائیاں برباد کریں۔ رسم و رواج کو ایک مناسبت سے اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی گذارنی چاہئے
اقتباس ۲
تواریخ سے ثابت ہے کہ ایک قوم کسی قدر عرصے تک ترقی کی حالت پر رہتی ہے اور اس کے بعد ترقی مسدود ہو جاتی ہے۔ مگر یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ ترقی کب مسدود ہوتی ہے۔ یہ اس وقت مسدود ہوتی ہے جب کہ اس قوم میں سے وہ قوت اٹھ جاتی ہے جس کے سبب سے نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہیں۔
تشریح
تشریح طلب عبارت میں مصنف منطق اور استدلال سے کام لیتے ہوئے امّتِ مسلمہ کی وجہ زوال کو بیان کر رہے ہیں۔ مصنف دنیا کی تواریخ کو ایک مضبوط دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ گزرے ہوئے ادوار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جس قوم نے بھی ترقی کی، وہ اُس عرصے تک قائم رکھی ہے جب تک اُس نے ایک متمدن اور مہذب معاشرہ قائم رکھا ہے۔ اس دور کے بعد اقوام آہستہ آہستہ پستی کے گڑھے میں گرجاتی ہیں اور اُن کی عوام سے نظم اور حکومت سے استحکام عار ہو جاتا ہے۔ مصنف تمام فہم و فراست اور عقل و دانش رکھنے والے اذہان کو مخاطب کرتے ہیں اور اُن کی سوچ اس جانب گامزن کرتے ہیں کہ کس وجہ سے یہ ترقی رکی؟ کیسے یہ رکاوٹیں کھڑی ہوئیں؟ اور کیوں کر اس قوم کا طریقہ کار تبدیل ہوا؟ وہ اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ قوموں کی تنزلی کی ابتداءاس وقت شروع ہوتی ہے جب اِس قوم کے افراد رسم و رواج کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے ان اصول و ضوابط کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ اخلاقی اقدار میں اِن قوانین کی شمولیت معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور ذہین سے ذہین سوچیں ان رسومات کی نظر ہو جاتی ہیں۔ آخرکار ان انسانوں میں سے وہ مادہ اٹھ جاتا ہے جس کی بدولت تفکران کے دائرے وسیع ہوتے ہیں، فکر کی موجیں ابھرتی ہیں اور شعور کی کرنیں پھیلتی ہیں اور یہ معاشرہ تیز رفتار دنیا کے ہمقدم ہونے کے بجائے رسم و رواج کے منجھدار میں ہمیشہ کے لئے پھنس جاتا ہے۔ سر سید احمد خان کہتے ہیں کہ عہدِ حاضر میں ملّتِ اسلامیہ کا بالکل یہی حال ہے اور اُن کی شاہانہ حکومت کے زوال کی وجہ رسومات کی کورانہ پیروی ہے
اقتباس ۳
انسان کی زندگی کا منشاءیہ ہے کہ اُس کے تمام قویٰ اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نامناسبت اور تناقص واقع نہ ہو بلکہ سب کا مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہو۔ مگر جس قوم میں پرانی رسم و رواج کی پابندی ہوتی ہے۔ یعنی ان رسموں پر نہ چلنے والا حقیر اور مطعون سمجھا جاتا ہے وہاں زندگی کا منشاء معدوم ہو جاتا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارت میں سر سید احمد خان رسم و رواج کے ایک اور نقصان کی طرف نشاندہی کرتے ہیں اور اپنی بات مضبوط کرتے ہیں کہ رسومات کی اندھیر نگری میں گڑھوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ انسانی فطرت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کامیاب و کامران اُس وقت ہوتا ہے اور زندگی کا مقصد صرف اس وقت حاصل کرتا ہے جب اُس کی شخصیت میں استحکام آجائے۔ استحکام سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی تمام سرگرمیاں، تمام افعال، عبادات، اخلاقیات اور سماجیات ایک پختہ سوچ پر انحصار کریں اور اسی سوچ کو بنیاد بنا کر جانبِ منزل قدم بڑھائیں۔ ذہنی طور پر منتشر افراد کبھی بھی اپنی توانائیاں اور اپنا وقت صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے اور جسم و روح کے اعضاءکی حق تلفی کرتے ہیں۔ ایک مکمل، مناسب اور پرسکون زندگی اور کردار کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ ہر موضوعِ فکر میں مناسبت اختیار کی جائے اور اعتدال کا خاص خیال رکھا جائے۔ مصنف کہتے ہیں کہ میانہ روی کی راہ پر چلنا صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ ہم اپنے آباﺅ اجداد کے غیرضروری قوانین و رواجات سے انحراف کریں اور اپنی توانائیاں صحیح مقاصد کے لئے وقف کریں۔ ایسے معاشرے میں جہاں رسومات کو بلا ضرورت اہمیت دی جاتی ہے وہاں ایک مستحکم کردار کی تعمیر ممکن نہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان اصولوں پر عمل نہ کیا جائے اور اپنی سہولیت سے مطابقت رکھتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو ہر طرف سے مخالفت کی آواز بلند ہوتی ہے اور حقارت اور ذلالت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں عزت و معیار کا پیمانہ اس امر کو سمجھا جاتا ہے کہ کون کس حد تک ان رسومات کا پابند ہے۔ ایسے معاشرے میں زندگی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور تمام افراد زمانے کی گہری دُھند میں ہمیشہ کے لئے گم ہو جاتے ہیں
اقتباس ۴
ان مشرقی یا ایشیائی قوموں میں بھی کسی زمانے میں قوت اور عقل اور جودتِ طبع اور مادہ ایجاد ضرور موجود ہو گا جس کی بدولت وہ باتیں ایجاد ہوئیں جو اب رسمیں ہیں۔ اس لئے کہ اُن کے بزرگ ماں کے پیٹ سے تربیت یافتہ اور حُسنِ معاشرت کے فنون سے واقف پیدا نہیں ہوئے تھے۔
تشریح
سر سید احمد خان تمام عاقل و فہیم افراد کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ان کے سامنے یہ موضوع پیش کرتے ہیں کہ ہمیں ان باتوں کو عقل کے پیمانے پر پرکھنا چاہئے جن کی وجہ سے اصول و ضوابط ایجاد ہوئے اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان میں ترمیم کرتے رہنا چاہئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ حاضر میں جو رسم و رواج عائد ہیں وہ اس وجہ سے ترتیب پائی ہیں کیونکہ معاشرے کے افراد میں گرد و نواح کے مطابق اپنے آپ کو ترتیب دینے کی صلاحیت موجود تھی اور انہوں نے ایسے قوائد و قوانین تشکیل دیے جس سے ان کو بھرپور فائدہ حاصل ہو۔ انہوں نے اپنے فوائد اور معاشرے کے رہن سہن کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی قوتوں سے اس طرح کام لیا کہ اپنے حق میں بہتریں رسومات تشکیل دیں اور معاشرے کو اپنے اور اپنے فوائد کے طرز پر ڈھالا۔ سر سید کہتے ہیں کہ اس دور میں معاشرے کے افراد میں جو صلاحیتیں تھیں ان کو معاشرے کے لحاظ سے نکھار کر ہی رواجات قائم ہوئے۔ انہوں نے اپنی عقل وفہم سے کام لیا ، تب ہی وہ اس قابل ہوئے کہ کچھ تخلیق کریں۔ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھے جو تمام علم لے کر اس دنیا میں اتری ہو اور نہ ان پر کوئی وحی نازل ہوتی تھی جس کو دیکھ کہ انہوں نے اصول بنائیے۔ مصنف کہتا ہے کہ ہم بھی ویسے ہی افراد ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنی عقل اور ذہنی قوتوں کو استعمال کریں اور اپنے دنیوی و اخروی فائدوں کے لحاظ سے آئینِ جہانبانی تشکیل دیں
حوالہ
پیشِ نظر عبارت رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات سے لی گئی ہے جس کے مصنف سر سیّد احمد خان ہیں۔ یہ مضمون سر سیّد کی کتاب ”مقالاتِ سر سیّد“ سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ مصنف
جدید اردو ادب کے بانی سر سیّد احمد خان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کا شمار اردو ادب کے نامور نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ سر سیّد کا دائرہ ادب نہایت وسیع ہے۔ مقصدیت‘ منطقیت‘ سلاست‘ اضطراب اور بے ساختگی وہ چند خصوصیات ہیں جو سرسیّد کی تحریر کے مطالعے کے بعد قاری کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔ اردو زبان کے لئے آپ کی اَن گِنت خدمات ہیں اور اردو کی لامتناہی ترقی آپ ہی کی مرہونِ منت ہے۔ بقول مولوی عبدالحق:
یہ سر سیّد ہی کا کارنامہ تھا جس کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
تعارفِ سبق
یہ مضمون رسم و رواج کی کورانہ تقلید کے نقصانات کو اُجاگر کرتا ہے۔ اِس میں اندھی تقلید کے مضمرات واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں اور نہایت مو�¿ثر اندار میں قوموں کے عروج و زوال کی وجہ بتائی ہے۔ سرسیّد نے استدلال اور منطق سے کام لیتے ہوئے اس نکتے کو پیش کیا ہے کہ بے جا رسم و رواج کی پابندی سے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں مانند پڑ جاتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ فنا ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ قوموں سے ان کی آزادی اور ترقی چھین لیتی ہے۔
اقتباس ۱
جو امر کہ پسندیدہ اور تسلیم کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے فہم اور اپنی عقل سے کام لیں اور رسم و رواج کی پابندی بھی ایک معقول طور پر رکھیں ۔ یعنی کہ جو عمدہ و مفید ہوں اُن کو اختیار کریں‘ جو قابل اصلاح ہوں ان میں ترمیم کریں اور جو بری اور خراب ہوں ان کی پابندی چھوڑ دیں۔
تشریح
سر سید احمد خان اس عبارت میں اس وجہ کو بیان کر رہے ہیں جس پر عمل کر کے کوئی قوم ترقی کی جانب گامزن ہو جاتی ہے یا اگر کوئی قوم پستی سے نکلنا چاہتی ہو تو اسے اس فعل کو سرانجام دینا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کے لوگوں کو اپنے آباﺅ اجداد کے بنائے ہوئے اصولوں کی کورانہ تقلید سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انہیں اپنی عقل‘ اپنی سوچ‘ اپنے خیالات اور اپنے فہم سے کام لیتے ہوئے ان رسومات کو اچھی طرح پرکھنا چاہئے اور ان کے فوائد و نقصانات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ ان رسومات و پابندیوں پر تحقیق کر لینے کے بعد ان کو یہ فیصلہ کر نا چاہئے کہ ان ضوابط میں سے کون سے ان کے لئے مفید ہیں اور کن کی پیروئی سے انہیں نقصان ہوگا۔ سرسید کہتے ہیں کہ بے جا اور فضول رسومات کو ترک کر کے ایسی تہذیب و تمدن ترتیب دینا بہتر ہے جس سے عہدِ حاضر کا معاشرہ مستفید ہو۔ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر پرانی اور عائد کردہ رسومات میں کوئی خامی ہے تو اس کو دور کر کے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ان قوانین کی زنجیروں میں جکڑ لینا نہایت نقصان دہ ہے اور جہالت کے مترادف ہے۔ کسی بھی عقل و دانائی رکھنے والی قوم کو یہ عمل زیب نہیں دیتا کہ وہ رسومات کو مذہب کا درجہ دے اور بے جا کاموں میں اپنا وقت اور اپنی توانائیاں برباد کریں۔ رسم و رواج کو ایک مناسبت سے اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی گذارنی چاہئے
اقتباس ۲
تواریخ سے ثابت ہے کہ ایک قوم کسی قدر عرصے تک ترقی کی حالت پر رہتی ہے اور اس کے بعد ترقی مسدود ہو جاتی ہے۔ مگر یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ ترقی کب مسدود ہوتی ہے۔ یہ اس وقت مسدود ہوتی ہے جب کہ اس قوم میں سے وہ قوت اٹھ جاتی ہے جس کے سبب سے نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہیں۔
تشریح
تشریح طلب عبارت میں مصنف منطق اور استدلال سے کام لیتے ہوئے امّتِ مسلمہ کی وجہ زوال کو بیان کر رہے ہیں۔ مصنف دنیا کی تواریخ کو ایک مضبوط دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ گزرے ہوئے ادوار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جس قوم نے بھی ترقی کی، وہ اُس عرصے تک قائم رکھی ہے جب تک اُس نے ایک متمدن اور مہذب معاشرہ قائم رکھا ہے۔ اس دور کے بعد اقوام آہستہ آہستہ پستی کے گڑھے میں گرجاتی ہیں اور اُن کی عوام سے نظم اور حکومت سے استحکام عار ہو جاتا ہے۔ مصنف تمام فہم و فراست اور عقل و دانش رکھنے والے اذہان کو مخاطب کرتے ہیں اور اُن کی سوچ اس جانب گامزن کرتے ہیں کہ کس وجہ سے یہ ترقی رکی؟ کیسے یہ رکاوٹیں کھڑی ہوئیں؟ اور کیوں کر اس قوم کا طریقہ کار تبدیل ہوا؟ وہ اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ قوموں کی تنزلی کی ابتداءاس وقت شروع ہوتی ہے جب اِس قوم کے افراد رسم و رواج کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے ان اصول و ضوابط کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ اخلاقی اقدار میں اِن قوانین کی شمولیت معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور ذہین سے ذہین سوچیں ان رسومات کی نظر ہو جاتی ہیں۔ آخرکار ان انسانوں میں سے وہ مادہ اٹھ جاتا ہے جس کی بدولت تفکران کے دائرے وسیع ہوتے ہیں، فکر کی موجیں ابھرتی ہیں اور شعور کی کرنیں پھیلتی ہیں اور یہ معاشرہ تیز رفتار دنیا کے ہمقدم ہونے کے بجائے رسم و رواج کے منجھدار میں ہمیشہ کے لئے پھنس جاتا ہے۔ سر سید احمد خان کہتے ہیں کہ عہدِ حاضر میں ملّتِ اسلامیہ کا بالکل یہی حال ہے اور اُن کی شاہانہ حکومت کے زوال کی وجہ رسومات کی کورانہ پیروی ہے
اقتباس ۳
انسان کی زندگی کا منشاءیہ ہے کہ اُس کے تمام قویٰ اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نامناسبت اور تناقص واقع نہ ہو بلکہ سب کا مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہو۔ مگر جس قوم میں پرانی رسم و رواج کی پابندی ہوتی ہے۔ یعنی ان رسموں پر نہ چلنے والا حقیر اور مطعون سمجھا جاتا ہے وہاں زندگی کا منشاء معدوم ہو جاتا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر عبارت میں سر سید احمد خان رسم و رواج کے ایک اور نقصان کی طرف نشاندہی کرتے ہیں اور اپنی بات مضبوط کرتے ہیں کہ رسومات کی اندھیر نگری میں گڑھوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ انسانی فطرت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کامیاب و کامران اُس وقت ہوتا ہے اور زندگی کا مقصد صرف اس وقت حاصل کرتا ہے جب اُس کی شخصیت میں استحکام آجائے۔ استحکام سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی تمام سرگرمیاں، تمام افعال، عبادات، اخلاقیات اور سماجیات ایک پختہ سوچ پر انحصار کریں اور اسی سوچ کو بنیاد بنا کر جانبِ منزل قدم بڑھائیں۔ ذہنی طور پر منتشر افراد کبھی بھی اپنی توانائیاں اور اپنا وقت صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے اور جسم و روح کے اعضاءکی حق تلفی کرتے ہیں۔ ایک مکمل، مناسب اور پرسکون زندگی اور کردار کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ ہر موضوعِ فکر میں مناسبت اختیار کی جائے اور اعتدال کا خاص خیال رکھا جائے۔ مصنف کہتے ہیں کہ میانہ روی کی راہ پر چلنا صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ ہم اپنے آباﺅ اجداد کے غیرضروری قوانین و رواجات سے انحراف کریں اور اپنی توانائیاں صحیح مقاصد کے لئے وقف کریں۔ ایسے معاشرے میں جہاں رسومات کو بلا ضرورت اہمیت دی جاتی ہے وہاں ایک مستحکم کردار کی تعمیر ممکن نہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان اصولوں پر عمل نہ کیا جائے اور اپنی سہولیت سے مطابقت رکھتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو ہر طرف سے مخالفت کی آواز بلند ہوتی ہے اور حقارت اور ذلالت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں عزت و معیار کا پیمانہ اس امر کو سمجھا جاتا ہے کہ کون کس حد تک ان رسومات کا پابند ہے۔ ایسے معاشرے میں زندگی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور تمام افراد زمانے کی گہری دُھند میں ہمیشہ کے لئے گم ہو جاتے ہیں
اقتباس ۴
ان مشرقی یا ایشیائی قوموں میں بھی کسی زمانے میں قوت اور عقل اور جودتِ طبع اور مادہ ایجاد ضرور موجود ہو گا جس کی بدولت وہ باتیں ایجاد ہوئیں جو اب رسمیں ہیں۔ اس لئے کہ اُن کے بزرگ ماں کے پیٹ سے تربیت یافتہ اور حُسنِ معاشرت کے فنون سے واقف پیدا نہیں ہوئے تھے۔
تشریح
سر سید احمد خان تمام عاقل و فہیم افراد کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ان کے سامنے یہ موضوع پیش کرتے ہیں کہ ہمیں ان باتوں کو عقل کے پیمانے پر پرکھنا چاہئے جن کی وجہ سے اصول و ضوابط ایجاد ہوئے اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان میں ترمیم کرتے رہنا چاہئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ حاضر میں جو رسم و رواج عائد ہیں وہ اس وجہ سے ترتیب پائی ہیں کیونکہ معاشرے کے افراد میں گرد و نواح کے مطابق اپنے آپ کو ترتیب دینے کی صلاحیت موجود تھی اور انہوں نے ایسے قوائد و قوانین تشکیل دیے جس سے ان کو بھرپور فائدہ حاصل ہو۔ انہوں نے اپنے فوائد اور معاشرے کے رہن سہن کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی قوتوں سے اس طرح کام لیا کہ اپنے حق میں بہتریں رسومات تشکیل دیں اور معاشرے کو اپنے اور اپنے فوائد کے طرز پر ڈھالا۔ سر سید کہتے ہیں کہ اس دور میں معاشرے کے افراد میں جو صلاحیتیں تھیں ان کو معاشرے کے لحاظ سے نکھار کر ہی رواجات قائم ہوئے۔ انہوں نے اپنی عقل وفہم سے کام لیا ، تب ہی وہ اس قابل ہوئے کہ کچھ تخلیق کریں۔ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھے جو تمام علم لے کر اس دنیا میں اتری ہو اور نہ ان پر کوئی وحی نازل ہوتی تھی جس کو دیکھ کہ انہوں نے اصول بنائیے۔ مصنف کہتا ہے کہ ہم بھی ویسے ہی افراد ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنی عقل اور ذہنی قوتوں کو استعمال کریں اور اپنے دنیوی و اخروی فائدوں کے لحاظ سے آئینِ جہانبانی تشکیل دیں
No comments:
Post a Comment