علامہ محمد اقبال
ایک تعارف
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے
وہ اپنے قلم سے جذبات و احساسات کے موتیوں کو حروف کی مالا میں پروتے۔
اُن کے پُرجوش قلم سے اُن کے دل کی پکار سنائی دیتی۔ اُنہوں نے کلام کے عکس
میں اِس امّت کو ایک پاکیزہ نسل عطا کی‘ اس دنیا کے شاہینوں کو اُڑان و
پرواز سکھائی‘ نوجوانوں کی بلندیوں سے ہمکنار کرایا‘ ایک قوم کو غلامی کی
زنجیروں سے آزاد کرایا اور ان افراد کو خودی سے نوازا جو اپنی لاشیں اپنے
ہی کاندھوں پر اُٹھائے استحکام سے عاری سماج میں گردش کر رہے تھے۔ حق گوئی و
بے باکی کا پیامبر‘ خودی کا یہ پیکر‘ مسلمانوں کا یہ حکیم‘ اقدارِ اسلامی
کا یہ مبلغ‘ عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا یہ داعی‘ شاہینِ انسانی کا یہ
خالق‘ علم و معرفت کی یہ جویا‘ اخوت و بھائی چارگی کی یہ علامت‘ یقین و
ایمان کا یہ پیکر اور دنیائے سخن کا یہ مُحسن ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال
ہے۔ وہ اقبال جس نے تصوف و معرفت کے پھول کھلائے‘ جس نے انقلابی شاعری کی
بنیاد رکھی اور جس نے اردو غزل گوئی کو نکھار بخشا۔ یہی ہے وہ مردِ مُجاہد
ہے جس نے آفاقی شاعری کے گوہر ہائے آبدار تخلیق کئے اور یہی ہے وہ مومن جس
کے بارے میں کہا جاتا ہے
اس قدر رمزِ خودی سے آشنا کوئی نہ تھا
راہِ حق میں نازش بانگ درا کوئی نہ تھا
خوابِ غفلت سے جو اہلِ درد کو چونکا گیا
صرف وہ اقبال تھا اس کے سوا کوئی نہ تھا
راہِ حق میں نازش بانگ درا کوئی نہ تھا
خوابِ غفلت سے جو اہلِ درد کو چونکا گیا
صرف وہ اقبال تھا اس کے سوا کوئی نہ تھا
اقبال کے ادوارِ شاعری
دورِ اوّل: اقبال مولانا الطاف حسین حالی کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دور میں انہوں نے غزلیں کہیں اور مسلمانوں کی خامیوں کا ذکر کیا۔
دورِ دوم: فارسی زبان میں اشعار نظم کیے۔ اپنی شاعری کے ذریعے سے مغربی تہذیب کی مخالفت کی اور ان کے خد و خال کو واضح کیا۔
دورِ سوم: اپنی شاعری کو مسلمانوں کی خدمت کا ذریعہ بنایا اور مسلمانانِ ہند کی ذہنی و فکری اصلاح کے لئے سعی کی۔
دورِ چہارم: یہ ان کی شاعری کا آخری دور تھا۔ اس میں انہوں نے فلسفہ�¿ خودی پیش کیا اور انسان کی افضلیت اور آفاقی حیثیت کو واضح کیا۔
دورِ دوم: فارسی زبان میں اشعار نظم کیے۔ اپنی شاعری کے ذریعے سے مغربی تہذیب کی مخالفت کی اور ان کے خد و خال کو واضح کیا۔
دورِ سوم: اپنی شاعری کو مسلمانوں کی خدمت کا ذریعہ بنایا اور مسلمانانِ ہند کی ذہنی و فکری اصلاح کے لئے سعی کی۔
دورِ چہارم: یہ ان کی شاعری کا آخری دور تھا۔ اس میں انہوں نے فلسفہ�¿ خودی پیش کیا اور انسان کی افضلیت اور آفاقی حیثیت کو واضح کیا۔
اقبال کے محاسنِ کلام
علامہ اقبال کے طرزِ کلام کی نمایاںخصوصیات پیشِ نظر ہیں۔
(۱) فلسفیانہ طرزِ بیان
اقبال فطرتاً فلسفیانہ سوچ کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میںمنفرد
اور فطری اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اشعار کو ان تفکرات کا آئینہ دار
بنایا۔ پہلی مرتبہ اردو غزل گوئی میںفلسفیانہ خیالات کو لفظوں کے احاطے میں
مقید کیا اور اسلامی‘ نفسیاتی‘ تہذیبی‘ اخلاقی‘ سیاسی اور سماجی نظریات کو
غزلوں کا رنگ دیا۔ ملک راج آنند لکھتے ہیں۔
اِقبال کی شاعری کی بنیاد فلسفے پر ہے۔ اسی فلسفے کی فضا میں اِقبال کی
شاعری نے نشوونما پائی‘ بلندی پائی‘ حوصلہ پایا‘ نظر پائی اور ایمان پایا۔
مثال کے طور پر نمونہ کلام پیش ہے
مثال کے طور پر نمونہ کلام پیش ہے
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
نہیں ہے ناامید اقبال اپنے کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
(۲) مقصدیتِ دین
علامہ اقبال کو دینِ اسلام سے بے حد لگاﺅ تھا اور آپ عشقِ الٰہی سے
سرشار مجاہد تھے۔ اس مردِ مومن کا مقصدِ زندگانی امّت مسلمہ کو خوابِ غفلت
سے بیدار کر کے میدانِ عمل میں سر گرم کرنا تھا۔ آپ کے کلام کا مقصد اہلِ
سماج کا ایمان اس بات پر پختہ کرنا تھا کہ زندگی کی پیچیدگیاں صرف اور صرف
دینِ حق کی پیروی سے سلجھ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بیان کرتے ہیں
کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ�¿ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا و کارساز
غالب و کار آفریں کارکشا و کارساز
(۳) اثر آفرینی
حکیم الامّت کا قلم جب ان کی معطر جبلی فکر کی ترجمانی کرتا ہے تو ایسے
گہر ہائے آبدار تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں اثر آفرینی کادل آویز مرقع
بن کر روح کو وجد میں لے آتی ہیں۔ اقبال کے کلام کے مطالعے کے بعد ایسا
محسوس ہوتا ہے گویا فنکار نے الفاظ میں اپنا خونِ جگر شامل کر دیا ہے۔ بقول
یوسف حسین خان۔
زورِ کلام اور اثرِ آفرینی کا اعلیٰ نمونہ دیکھنا ہو تو اقبال کی نظم
’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘ کو پڑھئے۔ اس کا ایک ایک لفظ درد و خلوص میں ڈوبا ہوا
ہے۔
نمونہ کلام درج ذیل ہے
نمونہ کلام درج ذیل ہے
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کہ ہر خوشہ�¿ گندم کو جلا دو
کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کہ ہر خوشہ�¿ گندم کو جلا دو
(۴) فکرِخودی
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے کلام میں فلسفہ خودی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
حکیم الامّت استحکام سے عاری بے یقین اور مایوس قوم کا علاج خودی کی تعلیم
کو قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے نظریہ کے مطابق اپنی ذات کے ادراک و
عرفان کے بغیر قوم کا جذبہ محرکہ سرد پڑ جاتا ہے۔ ان کے نزدیک خودی یقین کی
گہرائی ‘ سوزِ حیات ‘ ذوقِ تخلیق اور ایک عبادت ہے۔ ان کے کلام سے ان کی
یہ سوچ جھلکتی ہے
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیداری�¿ کائنات
خودی کیا ہے بیداری�¿ کائنات
یہ موجِ نفس کیا ہے‘ تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
(۵) عاشقانہ رنگ
اقبال کی شاعری میں عشقِ حقیقی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اُن
کے نزدیک عشق ایک والہانہ کیفیت کا نام ہے جو کسی مسلمان کو اپنے قصدومقصد
کی تکمیل کرنے میں سہارا دیتی ہے۔ عشق ایک متحرک قوّت ہے جو مردِمومن کو
خوب سے خوب تر کی تلاش میں مصروف رکھتی ہے۔ اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ عقل
اور عشق دو متضاد قویٰ ہیں۔ عقل انسان کو مصلحتوں کے آئینے میں پیچھے ہٹنے
پر مجبور کرتی ہے جبکہ عشق اُسے ڈوبتے ہوئے آفتاب جلوہ گر کرنے کی ذمہ داری
سونپتا ہے۔ اُن کے کلام میں اِن کیفیات کا رنگ نظر آتا ہے
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصوّرات
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصوّرات
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھتا تھا میں
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھتا تھا میں
(۶) جوشِ بیان
زورِ بیان اقبال کی شاعری کی موثر ترین خوبی ہے اور وہ اپنی اس خصوصیت
میں لاثانی ہیں۔ علامہ اقبال جب اپنے قلم سے جذبات و احساسات کے موتیوں کو
حروف کی مالا میں پروتے ہیں تو ان کے پُرجوش قلم کی تخلیق سے ان کے دل کی
پکار سنائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور امتِ مسلمہ سے ان کا والہانہ عشق‘
جنونی لگاﺅ اور بے ساختہ اُلفت ان کے قلم کی زینت بن جاتا ہے۔ اُن کا شعر
اگر سمجھ میں نہ آئے تب بھی ضرور متاثر کرتا ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
نہ تخت و تاج میں‘ نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقامِ رَنگ و بو کا راز پا جا
مقامِ رَنگ و بو کا راز پا جا
(۷) تصورِ عملِ پیہم و شاہین
اقبال ایک بامقصد شاعر تھے۔ آپ ملّت کے نوجوانوں کو اسلام کی آفاقی
تعلیمات کی روشنی میں مثالی کردار کی علامت بنانا چاہتے تھے۔ آپ اُس دور کے
نوجوانوں کو شاہین کی خودداری‘ بلند پرواز اور غیرت کی مثال دے کر عملِ
پیہم کا پیام دیتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں۔ اِس پرندے میں اسلامی فکر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
عکسِ کلام پیش ہے
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں۔ اِس پرندے میں اسلامی فکر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
عکسِ کلام پیش ہے
پرواز ہے دونوں کی اسی اِیک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
یقین محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
(۸) رفعتِ تخیّل
منظر کشی اقبال کے کلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ مناظرِ فطرت کی
لفظی تصاویر ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کھینچتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو
بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔ مثال کے طور پر
پانی کو چھو رہی ہو جُھک جُھک گُل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ اُفق سے لے کر لالے کے پھول مارے
طشتِ اُفق سے لے کر لالے کے پھول مارے
معروف نقادوں کی آراہ
شاعر مشرق‘ حکیم الامّت‘ سر‘ ڈاکٹر علامہ محمد اِقبال وہ ہستی ہیں جن کے
اشعار ہر دل کی دھڑکن ہیں اور جن کی عظمت کا اعتراف ہر زبان پر ہے۔ ان کے
بارے میں جس نے بیان دیا توصیف کا دیا‘ جس قلم نے لکھا تعریف میں لکھا اور
جہاں ان کا ذکر ہوا خوب ہوا۔ اقبال زندگی اور اُس کے تقاضوں کے سچے شاعر
تھے اور اُن کی شاعری گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔
بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق۔
بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق۔
اِقبال برصغیر ہی کے نہیں بنی نوعِ انسان کی لازوال تہذیب کے ایک برگزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
پروفیسر احتشام حسین رقم طراز ہیں۔
اقبال نے ہمیں وہ لب و لہجہ اور آہنگ عطا کیا جو کرئہ ارض پر انسانی
اقوام کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ اردو شاعری میں ایسا لب و لہجہ اور آہنگ پہلے
کبھی نہیں تھا۔
قاضی عبدالغفار فرماتے ہیں۔
اقبال کی شاعری کا ہر دور فلسفہ حیات کا حامل ہے۔
No comments:
Post a Comment