رحمت العالمین
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت رحمت العالمین
رحمت کے لفظی معنی مہربانی اور نرمی کے ہیں۔ کسی کی تکلیف کو دیکھ کر
رقت طاری ہونا، حاجت مند کی حاجت روی کرنا، کسی کی بے چارگی میں اسکی
چارسازی کرنا۔یوں تو یہ تمام جذبات انسانوں میں فطری طور پر ودیعت کئے گئے
ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا
گیا ہے۔ آپ کو اللہ نے قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لئے رہبرو رہنما
بنایا ۔ سورة انبیاءمیں ارشاد ہوتا ہے کہ:
اے نبی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔
اس آیت میں لفظ العالمین استعمال ہوا ہے جس نے اپنے اندر کائنات و ارض و
سموت کے تمام لوگوں کو سمو دیا ہے۔ اللہ نے اپنے لئے رب العالمین کا لفظ
استعمال فرمایا ہے۔ اس کے معنی ہیں تمام جہانوں کا رب یعنی اس کی ربویت ہر
ایک کے لئے ہے خوہ وہ مومن ہوں یا کافر، فرمانبردار ہوں یا نافرمان اسی طرح
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی پوری کائنات کے لئے رحمت۔ حضرت
ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا ہے:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے لئے بددعا کیجئے۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا مجھے
تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
مومنین پر رحمت
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی معاشرے کے ہر طبقے کے لئے
رحمت بنا کر بھیجی گئی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سب سے زیادہ
نسلِ انسانی کی اس گروہ پر ہے جس کو اللہ نے ایمان کی دولت سے مالامال
رکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملے میں اپنی امت کے لئے سہولت کا
خیال رکھا اور اس سلسلے مےں یہ عام اصول بیان فرمایا ہے:
”دین کوآسان کرکے پیش کرو مشکل بنا کر لوگوں کے سامنے نہ لاو حکم
ہوا ہے کہ لوگوں کو رحمتِ الہی کی خوشخبری سناو اور عذاب کا ڈراوہ دے کر
دین سے برکشتہ نہیں کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم مومنین سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے جس کا
اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اور اس بات کاثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
حدیث سے ہوتا ہے:
ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے اس لئے مےں چاہتا ہوں کہ اگر
خدا کو منظور ہو تو میں اپنی ضرور قبول ہونے والی دعا کو قیامت کے دن اپنی
امت کی شفاعت کے لئے محفوظ رکھوں گا۔
گناہ گاروں کے لئے رحمت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مومنین پر شفقت کا برتاو روا رکھا
گناہ گاروں کے ساتھ بھی شفقت فرمائی ان کی توبہ کی ترغیب دلاتے ہوئے
فرمایا:
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا وہ (جس کا) کوئی گناہ نہ ہو۔
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا وہ (جس کا) کوئی گناہ نہ ہو۔
بیماروں کے لئے رحمت
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بیماروں کے لئے رحمت ہے ۔ مریض کی خبر
گیری، غم خواری اور مزاج پرسی ایک عظیم انسانی فریضہ ہے۔ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس کی تاکید اتنے پراثر انداز سے کی ہے کہ ایک مسلمان ہمہ وقت
بیمار کی عیادت، خدمت اور تیمارداری کے لئے آمادہ نظر آتا ہے اس سلسلے میں
متعدد احادیث موجود ہیں۔ نبی کریم کا ارشاد ہے:
جب کوئی صبح کو کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو شام تک ملائقہ اس کی
بخشش کی دعا کرتا ہی اور اگر وہ شام کو اس کی عیادت کرتا ہی تو وہ صبح تک
اس کی بخشش کی دعا کرتا ہے۔
ایک اور جگہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے چند حقوق ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو اس کی عیادت کی جائے۔
ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے چند حقوق ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو اس کی عیادت کی جائے۔
بچوں کے لئے رحمت
جہاں تک بزرگوں کے حقوق کا تعلق ہے، وہ دنیا کے ہر مذہب میں دئیے گئے
ہیں۔ ان کا ادب و احترام اور خبر گیری کی تاکید کی گئی ہے۔ لیکن حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا
ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں سے محبت اور شفقت کی تعلیم و تربیت کے
مطابق خصوصی اصول بیان فرمائے اور اس کو اجرو ثواب کا ذریعہ قرار دیا۔ بچوں
کے حقوق کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انتہائی مختصر اور بلیغ
فقرے میں یہ کہہ کر فرمائی:
جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے وہ ہم مین سے نہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا حکم اللہ نے ان الفاظ میں دیا ہے:
اے ایمان والوں اپنے آپ کو اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاو۔
جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے وہ ہم مین سے نہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا حکم اللہ نے ان الفاظ میں دیا ہے:
اے ایمان والوں اپنے آپ کو اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاو۔
جانوروں کے لئے رحمت
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں
بلکہ جانوروں کے لئے بھی رحمت بن کر آئی۔ اسلام سے پہلے خود جانوروں سے برا
سلوک کیا جاتا تھا اس کی مختلف صورتیں تھیں۔ جب کوئی مرجاتا تو اس کی
سواری کے جانور کو قبر پر باندھ دیا جاتا تھااور اس کو کھانا نہ دیا جاتا
تھا یہاں تک کہ وہ جانور سوکھ کر مرجاتا۔ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری ذبح کرتا ہوں تو
مجھے اس پر رحم آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو اللہ تم پر رحم کرے گا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ دیکھا جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے سکڑ گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان بے زبان جانوروں کے مقابلے میں خدا کا خوف کرو۔ ان پر سوار کرکے
ان کو اچھی حالت میں رکھ کر سوار ہو۔ ان کو کھاو تو اچھی حالت میں رکھ کر
کھاو۔
No comments:
Post a Comment