Wednesday, September 12, 2012

Class XI, Islamiat, "زکوة"

زکوة

زکوة کے لغوی معنی
زکوة کے لغوی معنی نشونما پانے کے ہیں ایک اور مطلب اس کا پاک کرنا بھی ہے۔
زکوة کے شرعی معنی
شریعت کی اصطلاح میں زکوة ایک مالی عبادت ہے۔ یہ مال کہ اس حصے کو کہتے ہیں جو ہر سال ادا کیا جاتا ہے۔ اللہ نے ایک خاص مقدار موجودہ مال پر ہر سال ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
اے نبی! ان کی دولت سے آپ زکوة لیجئے جس کے ذریعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پاک و صاف کردیں گے۔
زکوة کے معنی قرآن کی روشنی میں
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
جو لوگ زکوة ادا کرتے ہیں اللہ تعالی ان کے مال مےں برکت ڈال دیتا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے مال میں غریبوں اور ناداروں کو معلوم اور مقرر حق ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
جو لوگ مال جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کرتے وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ یہ بخل اور زرپرستی ان کے حق میں ہے۔
زکوة کا مطلب احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لائے اسے چاہئے کہ وہ زکوة ادا کرے۔
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو لوگ زکوة ادا نہیں کرتے ان کا مال قیامت کے دن ایک سانپ کی شکل میں بدل دیا جائے جو اسے ڈھونڈے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں۔
ایک عورت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مےں حاضر ہوئی اس کی بیٹی نے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیا تم اس کی زکوة دیتی ہو؟ عورت نے کہا نہیں
آپ نے فرمایا کہ
کیا تم چاہتی ہو کہ قیامت کے دن یہ کڑے آگ کے ہوں۔
زکوة کی فرضیت
زکوة اسلام کا تیسرا رکن ہے ہر بالغ صاحبِ نصاب پر اس کی فرضیت بالکل لازم ہے اور اس کا انکار کرنے والا کافر اور ترک کرنے والا فاسق ہے۔ اس کی فضیلت اس لئے بھی بہت زیادہ ہے کہ قرآن میں کئی جگہ اس کا ذکر نماز کے ساتھ کیا گیا ہے اور الگ بھی اس کا ذکر ہے۔ زکوة ادا کرنے والوں کو بڑے دلکش اور سچے وعدوں سے نوازا گیا ہے اور ادا نہ کرنے والوں کو شدید عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی فرضیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ:
اور نماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اور نماز پڑھا کرو، زکوة دیا کرو اور جو نیکی تم اپنے لئے پہلے (مرنے سے پہلے) کرلوگے اس کے ثواب کو تم اللہ کی یہاں پاوگے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
اگر تم اللہ کو قرضِ حسنہ دوگے تو وہ اس ثواب کو تمہارے لئے بڑھاتا چلا جائے گا۔
گزشتہ انبیاءپر زکوة
قرآن کی شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکوة گزشتہ انبیاءپر بھی اور مذاہب میں بھی فرض کی گئی تھی مگر ان انبیاءکی امتوں نے اس فرض کو فراموش کردیا۔ بنی اسرائیل میں زکوة پیدوار پر مشتمل تھی۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
اور ہم نے بنی اسرائیل سے عہد کرالیا تھا کہ پڑھتے رہو نماز اور زکوة دیتے رہو۔
حضرت عیسیٰ عہ کی امت پر بھی زکوة فرض تھی۔ اللہ تعالی کافرمان حضرت عیسیٰ عہ کی زبان میں درج ذیل ہے:
اللہ نے مجھے ساری زندگی زکوة کی تلقین کرنے کو کہا ہے۔
حضرت اسماعیل عہ کی امت پر بھی زکوة فرض تھی۔ ارشاد ہوتا ہے کہ:
اور وہ لوگوں کو نماز پڑھنے اور زکوة دینے کی ہدایت کرتے تھے۔
غرضیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پاک سے پہلے تمام مذاہب میں زکوة موجود تھی۔ قرآن میں سورة الانبیاءمیں حضرت نوح عہ، حضرت لوط عہ، حضرت ہارون عہ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب عہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ:
اور ہم نے انہیں نیک کام کرنے، نماز کا اہتمام کرنے اور زکوة دیتے رہنے کی ہدایت کی۔
زکوة کی تاریخ
نماز کی طرح زکوة کی طرح زکوة کا آغاز بھی اسلام کے ابتدائی دور ہی میں ہوگیا تھا۔ ابتدا میں زکوة کے لفظ کی جگہ خیرات کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ جس کا نصاب، حد اور استعمال مقرر نہ تھا۔ فتح مکہ کے بعد زکوة کا اصل نفاذ شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوة کو دو لفظوں کا مرکب بتایا ہے۔ ایک اللہ کا حق اور دوسرا مسلمان کا حق۔ پہلے حق سے مراد نماز اور دوسرے سے مراد زکوة ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں اللہ کی عبادت کے ساتھ غریبوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت خدیجہ فرماتی ہیں کہ:
آپ قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں اورمصیبت میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
دربارِ نجاشی میں حضرت جعفر نے اسلام اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تقریر کی تھی اسمیں زکوة کا ذکر بھی آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ زکوة کا آغاز ابتدائی دور میں ہی ہوگیا تھا اور یہ ایسی عبادت قرار دی گئی کہ نماز کے ساتھ ہی فرض ہوئی اور قرآن میں اصلوة اور الذکوة کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ نماز اگرحقوق اللہ ہے تو زکوة بھی حقوق العباد میں ہے۔ یہ اصل میں ۸ ہجری میں فرض ہوئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وصولی کے لئے عامل مقرر فرمائے۔
زکوة کی فضیلت و اہمیت
زکوة اس قدر اہم رکن ہے کہ قرآن و حدیث میں بار بار اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورة توبہ میں ذکر ہے کہ:
اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے اسے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو آپﷺ ایک بڑی دردناک سزا کی خبر سنادیجئے جو ان کو واقع ہوگی جب ان کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں کو اور ان کی کروٹوں اور پشت کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا، اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔
زکوة ادا کرنے کی فضیلت و اہمیت سورة ابقرہ میں ان الفاظ میں بیا کی گئی ہے کہ:
جو لوگ زکوة ادا کریں گے انہیں اجرِ عظیم کی خوشخبری سنائی گئی ہے یعنی اللہ کی راہ میں دئیے گئے ایک روپے کا ثواب سات سو گناہ ملے گا۔
زکوة کی فضیلت و اہمیت چند الفاظ میں محدود نہیں کی جاسکتی بلکہ اللہ اس کا اجر دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی دیگا۔ یہ ایسی تجارت ہے جس میں نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر شرط یہ ہے کہ نیت صاف ہو اور صرف اللہ تعالی کے لئے دی گئی ہو۔ فرمانِ الہی ہے کہ:
جو لوگ دن رات کھلے اور چھپے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو ان کی مزدوری اللہ کے یہاں ہے۔ آخرت میں نہ ان پر خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے۔
ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
میری رحمت ہر چیز پر شامل ہے بس عنقریب میں اس کو ان لوگوں کے لئے مقرر کردوں گا جو پرہیز گار ہیں اور زکوة دیتے ہیں۔
نہ صرف قرآن مجید میں بلکہ احادیث کی روشنی میں زکوة کی فضیلت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
جوشخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مال کی زکوة ادا کرے۔
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
جوشخص زکوة ادا نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
جس نے زکوة دینا بند کردی اللہ اس پر بارش روک دیتا ہے۔
زکوة کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جوشخص حرام مال کھاتا ہے اور اگر وہ خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی، صدقہ کرے تو قبول نہیں ہوتا اور اگر میراث کے طور پر چھوڑ جائے تو گویا جہنم کا گوشہ چھوڑ گیا۔
قرآن و حدیث کے علاوہ صحابہ کرام نے بھی زکوة کی فرضیت و اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بہت زور دیا ہے۔ حضرت ابنِ مسعود فرماتے ہیں کہ:
جوشخص حلال مال کمائے اور اس کی زکوة ادا نہ کرے تو اس ک مال خراب ہوجاتا ہے اور جوشخص حرام مال کمائے اور زکوة ادا کرے تب بھی اس کا مال پاک نہیں ہوتا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضہ فرماتے ہیں:
خدا کی قسم جو نماز اور زکوة میں فرق کرےگا میں اس سے جنگ کروں گا اور جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بھیڑ کا بچہ بھی زکوة میں دیتا تھا اسے دینا پڑے گا۔
یہ فرمان اس وقت کا ہے جب حضرت ابوبکر صدیق رضہ کے خلافت سنبھالنے کے بعد اہلِ عرب نے زکوة دینے سے انکار کیا تو انہوں نے ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائی۔
مصارفِ زکوة
اللہ تعالی نے زکوة کے مصارف خود قرآن میں اس طرح بیان فرمادیئے ہیں کہ:
زکوة مفلسوں اور محتاجوں کا حق ہے، زکوة کے کام پر جانے والوں کا، گردن چھڑانے والوں کا اور جو تاوان بھرے اللہ کے راستے میں راہ کے مسافر کا۔
قرآن کی اس رو سے زکوة کے مندرجہ ذیل مصارف معلوم ہوئے:
  • ان تنگدست لوگوں کی مدد جن کے پاس کچھ نہ ہو۔
  • ان لوگوںکی مدد جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوں۔
  • زکوة کی وصولی پر متعین عملے کی تنخواہیں وغیرہ۔
  • ان لوگوں کی مدد جو نومسلم ہیں تاکہ ان کو سکونِ قلب حاصل ہوسکے۔
  • غلاموں اور قیدیوں کو آزاد کرنے کے لئے اخراجات میں۔
  • بہت غریب قرضداروں کے قرض کی ادائیگی میں۔
  • اللہ کے لئے جہاد اور تبلیغِ دین میں جانے والوں کی مدد میں۔
  • کوئی مسافر چاہے کتنا ہی خوشحال ہو مگر راستے میں مالی محتاج ہو۔
جب اسلامی نظامِ حکومت قائم ہوجائے تو زکوة حکومت سپرد کرنا لازم ہوگا تاکہ وہ اپنے طور پر بہتر طریقے سے تقسیم کرے اگر کسی اسلامی ریاست پر غیر اسلامی حکومت کا تسلط ہوجائے تو اس صورت میں ہر فرض اپنے طور پر زکوة ادا کرسکتا ہے۔
مسائلِ زکوة
زکوة کے مسائل سے مراد یہ ہے کہ زکوة کون کون سے اشیاءپر فرض ہے۔ وہ مال خواہ کسی بھی شکل میں ہو اگر پورے ایک سال تک جمع ہو تو اس جمع شدہ مال یا نصاب پر مندرجہ ذیل طریقے سے زکوة دینا فرض ہے۔
سونا
ساڑھے سات تولے سونے پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوة نکالی جائے گی۔
چاندی
ساڑھے باون تولے چاندی پر بھی ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوة نکالی جائے گی۔
روپے
سوروپے پر ڈھائی روپے کے حساب سے زکوة نکالی جائے گی۔
سامانِ تجارت
اگر کوئی سامانِ تجارت سال بھر تک رکھا ہو اوراس کی قیمت سونے یا چاندی یا دونوں میں سے کسی ایک کے برابر ہو تو اس کے مطابق زکوة نکالی جائے گی۔
جائیداد
جائیداد پر بھی ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوة فرض ہے۔
غلہ اور پیداواری زمین
۰۸ من غلے پر زکوة فرض ہے اس سے پر کم نہیں۔
بارانی زمین
ایسی زمین پر دسواں حصہ زکوة ہے۔ ندیوں سے سیراب ہونے والی زمین پر پانچواں اور ٹیوب سیل و کنووں سے سیراب ہونے والی زمین پر دتیسواں حصہ ہے۔ اگر زمین سے کوئی خزانہ نکلے تو اس پر ایک بٹا پانچ زکوة ہے۔
موشی اور جانور
مویشیوں پر بھی زکوة دینا فرض ہے۔ اگر ان کی قیمت مال تجارت کے برابر ہو اور جانور تجارت کے لئے استعمال ہورہے ہیں تو اس کا حساب اس طرح ہے۔
  • پانچ یا زائد اونٹوں پر ایک سالہ بکری یا اس کے برابر قیمت۔
  • تیس گائیں، بیل یا بھینس پر ایک گائے۔
  • چالیس بکریوں پر ایک بکری۔
وة مندرجہ ذیل لوگوں پر فرض ہے
مسلم
زکوة صرف مسلمانوں پر فرض ہے۔ غیر مسلموں پر زکوة نہیں ہے۔
بالغ اور باشعور
جو شخص بالغ ہونے کے ساتھ باشعور بھی ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں عقل و شعور سے کام لیتا ہو اس پر زکوة فرض ہے۔
مالکِ نصاب
جو شخص صاحب نصاب ہو اس پر زکوة فرض ہے۔
تکمیلِ سال
ہر نصاب کے مطابق کسی مال پر سال کے مکمل ہونے پر زکوة فرض ہوتی ہے۔
قرضدار
ہر قرضدار قرض ادا کرنے کے بعد اگر صاحبِ نصاب ہوجائے تو اس پر زکوة فرض ہوگی۔
ضرورت سے زائد
زندگی کی لازمی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو مال بچے اس پر نصاب کے مطابق زکوة فرض ہے۔
زکوة سے مستثنی حضرات
صاحبِ حیثیت مسلمان
وہ مسلمان جو گھر پر ۰۵ روپے سے زائد کا سامان رکھتا ہو اور صاحبِ نصاب ہو۔
غیر مسلم
غیر مسلموں کو زکوة نہیں دی جاسکتی۔
سید اور اہلِ بیت
سید اور اہلِ بیت کو زکوة نہیں دی جاسکتی صرف ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔
تعمیرِ مسجد اور کفن دفن
ان کاموں کے لئے بھی زکوة نہیں دی جاسکتی صرف چندہ یا مدد کی جاسکتی ہے۔
زکوة کے مقاصد و فوائد
زکوة ایک ایسا اسلامی رکن ہے جس کا ذکر قرآن میں نماز کے ساتھ آیا ہے اور یہ بات واضح ہوگئی کہ جوشخص زکوة نہیں دے گا اس کی نماز بھی قبول نہیں ہوگی جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے کہ:
اور نماز پڑھا کرو اور زکوة دیا کرو اور خدا کے آگے جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔
زکوة مالی عبادت ہے جو مال کو پاک و صاف کردیتی ہے اور اس میں برکت اور اضافہ بھی کرتی ہے۔ جب انسان حلال اور پاکیزہ مال استعمال کرتا ہے تو اس کی زندگی بھی پاک و صاف ہوجاتی ہے اور اس کی اولاد حلال مال استعمال کرکے سیدھے راستے پر آجاتی ہے۔ زکوة ایک قسم کا قرض ہے جو بندہ اپنے رب کو دیتا ہے جب انسان دولت جیسی چیز اللہ کے نام پر قربان کرتا ہے تو اللہ اس کے ایثار کی قدر کرتے ہوئے اس کے مال پر کئی گنا منافع بڑھا دیتا ہے۔ ارشاد ِ باری تعالی ہے:
اگر قرض دو اللہ کو تو اچھی طرح دو تاکہ وہ اس کو تمہارے لئے دوگنا کردے اور تم کو بخشے۔
زکوة کے دو اہم فوائد مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) انفرادی فوائد
(۲) اجتمائی فوائد
انفرادی فوائد
جیسا کہ معلوم ہے کہ زکوة انسان کے مال کو پاک و صاف کرتی ہے تو جب انسان کے جسم میں پاک و صاف مال سے حاصل کی ہوئی غذا پہنچتی ہے تو اس کا دل و دماغ بھی پاکیزہ خیالت کا مرکز بن جاتا ہے اور اس میں اوصافِ حمیدہ پیدا ہوجاتے ہیں۔
محبتِ الہی
جب انسان مال پر زکوة دیتا ہے تو اس کی مال سے محبت کم ہوتی رہتی ہے اور اس کا دل اللہ کی محبت سے معمور ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو مال میں کھالوں گا یا پہن لوں گا وہی میرا ہے باقی ہے سب اللہ کا ہے اور اس پر دوسروں کا بھی حق ہے۔ اس طرح اس کے دل سے مال اور دنیا کی محبت نکل جاتی ہے۔
غریبوں اور مساکین کی محبت
زکوة کا نظام معاشی ناہمواری ختم کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ زکوة دینے والے کے دل میں غریبوں اور مساکین کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
قلب کی صفائی و پاکیزگی
زکوة بڑے بڑے حاسدوں اور سرکشوں کے قلب کو پاک و صاف کردیتی ہے۔ کیونکہ ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ زکوة اللہ کے حکم اور خوف سے ہی ادا کرتے ہیں۔ تو اس طرح ان کے دل سے لالچ، ہوس اور بخل نکل جاتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ غریبوں کی ہمدرد بن جاتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔
گردشِ دولت
زکوة کے ذریعے دولت ایک مرکز میں جمع نہیں ہوتی بلکہ امیروں سے غریبوں کی طرف گردش کرتی رہتی ہے۔ مال انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اس کی محبت انسان کو دنیا داری کے جال میں اس طرح جکڑ لیتی ہے کہ اللہ کی محبت اس کے دل سے نکل جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ:
ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔
انسان اگر یہ ارادہ کرلے کہ اس کو مال کے فتنے سے بچنا ہے تو وہ مال میں سے ان کا بھی حق نکالے جو اس کے مستحق ہیں اور اس کا ذریعہ زکوة ہے۔ زکوة ہی انسان کو گناہوں سے دور کردیتی ہے۔ اللہ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
اور وہ لوگ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔
اجتماعی فوائد
زکوة سے حاصل ہونے والے سماجی یا اجتماعی فوائد کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
امدادِ باہمی
زکوة نہ صرف انسان کی اپنی ذات پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے ، ملک اور عالم اسلام پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زکوة کا مقصد ایک دوسرے کی مدد کرنا، غریبوں سے محبت کرنا اور ملک میں معشی مساوات پیدا کرنا ہے۔ امیروں کی دولت میں غریبوں کا بھی حق ہے اور زکوة کا نظام یہ حق غریبوں کو دلواتا ہے کہ وہ امیروں سے مالی سرمایہ حاصل کریں۔ زکوة کے ذریعے بے سہاروں کے روزگار کا بندوبست بھی کیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
اللہ نے زکوة فرض کی ہے کہ امیروں سے لی جائے اور غریبوں میں تقسیم کی جائے۔
نصرت دین
اللہ تعالی نے بار بار مسلمانوں کی جان، ایمان اور عزت کی حفاظت کے لئے جہاد کا حکم دیا ہے جس میں مال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ زکوة کا روپیہ اس کام میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ تبلیغِ دین کے لئے بھی زکوة بڑی معاون ہے۔ زکوة دینا اور اس کا صحیح مصرف دونوں ثواب میں اضافہ کرتے ہیں اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کے لئے فرمایا گیا ہے کہ:
اللہ کے لئے خرچ کرو اور ہاتھ روک کر اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
اشتراکیت کا علاج
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقِ ملکیت عطاکرکے انسان میں اعلی اخلاق پیدا کئے ہیں اور یہ حق انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ وہ اس طرح کہ جب انسان اپنے ذاتی مال میں سے اپنے ہاتھ سے ناداروں اور محتاجوں کو روپیہ دیتا ہے اور ان کے دکھ کا مداوا کرتا ہے تو اس کے دل کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ کسی کی مدد کرسکوں۔ یہ حقوقِ ملکیت اشتراکی حکومتوں میں نہیں ہوتے وہاں سارے حقوق حکومت کے پاس ہوتے ہیں۔
سرمایہ داری کا خاتمہ
اسلام نے سرمایہ داری نظام کو ناپسند فرمایا کیونکہ اس نظام میں دولت چند ہاتھوں میں گردش کرتی رہتی ہے اور بہت سی سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ امیروغریب میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ اس لئے زکوة کے ذریعہ امیر اپنی دولت میں سے کچھ غریبوں کو دینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور کسی حد تک معاشی ناہمواری دور ہوجاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام بھی دم توڑنے لگتا ہے۔ غربت اور ناداری میں کمی ہوتی ہے۔
اچھے جذبات کا فروغ
جب دولتمندوں کو یہ معلوم ہوگا کہ ہمیں زکوة ادا کرنی ہے تو ان کے دل میں غریبوں کے لئے ہمدردی اور اخوت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ دونوں طبقے ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں اور اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہیں۔
قومی ترقی
زکوة سے غربائ، نادار بے روزگار اور بے سہارا اپنا کاروبار شروع کرسکتے ہیں اس سے قومی ترقی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
حرفِ آخر
زکوة انسان کے مال کو پاک و صاف کرنے کے علاوہ اس میں برکت کا بھی باعث ہے۔ انسان اپنی آخرت سنوارتا ہے اور معاشی ناہمواری دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment