اسوہ حسنہ
حرفِ آغاز
خدائے بزرگ و برتر نے زمین کو انسانیت کی آماجگاہ بنادیا اور کن فیکون
سے تخلیقِ کائنات کا کام انجام دیا اور طرح طرح کی مخلوقات بنائیں مگر
انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا۔ اب انسانوں کی اخلاقی اور روحانی
تربیت کے لئے انبیاءکا سلسلہ شروع ہوا۔ جن کو فضائل، اخلاق، عصمت و
پاکیزگی، تقوی، شرم و حیا، احسان و کرم، عفودرگزر، صبروتحمل اور ایثارو
قربانی کا فریضہ سونپا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات محفوظ ہے
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا تمام مشہور لوگوں کے بارے میں جو اس دارِ
فانی سے کوچ کرگئے ہیں بہت کم جانتی ہے۔ مثلاً تمام انبیاءکے تو نام تک سے
لوگ واقف نہیں ہیں۔ اور چند انبیاءکرام جنہیں لوگ جانتے ہیں ان کے حالات
قرآن مجید اور دوسری مذہبی کتب میں ناکافی ہےں اور اسی طرح عظیم شخصیتوں کے
حالات ان کی کتابِ حیات سے بہت کم معلوم ہوئے۔
لیکن اگر پوری تاریخ عالم میں کوئی زندگی پوری محفوظ ہے تو وہ آخری نبی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ آپ کی حیاتِ پاک کے تمام واقعات
ایک ایک جزئیات کے ساتھ اسطرح جمع کئے گئے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک قول و فعل دیانت داری کے ساتھ آج تک
محفوظ ہے۔ حدیث کو ہی لئجئے تو دنیا کی کوئی زبان اور کوئی قوم فنِ حدیث
جیسا ادب پیش نہیں کرسکتی۔
حفاظتِ حیاتِ نبی کی وجہ
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی
تمام جزئیات کے ساتھ موجود ہے اور رہے گی تو اس کا جواب قرآن پاک اپنی ایک
آیت میں پیش کرتا ہے:
تم لوگوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
پوری انسانیت کے لئے اگر کسی کی زندگی معیار اور نمونہ ہے تو وہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ اسی لئے اس کو مکمل طور طر اللہ نے محفوظ
کرلیا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ پاک کو محفوظ رکھنا اس بات
کی دلیل ہے کہ کامل نمونہ بس یہی ایک ذات ہے اور جس معاشرے یا فرد میں اس
زندگی کا نمونہ موجود ہے وہاں کی فلاح اور نیکی کے پھول کھلتے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ رضہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
اخلاق کیسے ہیں؟ انہوں نے اس میدان میں اپنے آپ کو عاجزو مجبور پاکر کہہ
دیا:
کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جوکچھ قرآن میں ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک میں ہے۔
انبیاءکے اخلاق کا مجموعہ
حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک نبی ہی نہیں بلکہ تمام انبیاءکے
اوصاف کا مجموعہ تھے۔ حضرت موسیٰ عہ کے معجزات، حضرت عیسیٰ عہ کی شفائ،
حضرت یوسف عہ کا حسن و جمال، حضرت زکریا عہ کی حمدوثنائ، حضرت داود عہ اور
حضرت ایوب عہ کا صبروشکر، حضرت ابراہیم عہ کی قربانی اور ہجرت ، حضرت
اسماعیل عہ کا صبر اور ایمانداری کے علاوہ تمام انبیاع کی صرف ایک شخص کی
ذات میں جمع ہوگئیں تھیں۔
بقول شاعر
بقول شاعر
حسنِ یوسف، دمِ عیسی یدِ بیضی داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مکارمِ اخلاق کی جملہ اوصاف کا مجموعہ
تھی۔ کون سی عادی اور اخلاق تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہ
تھا۔ کافر ہو یا مسلمان، امیر ہو یا غریب، سپہ سالار ہو یا قاضی، باپ ہویا
شوہر، تاجر ہو یا حاکم غرض سب کے لئے آپ کے اخلاق نمونہ کامل ہیں۔ اللہ کا
ارشاد بالکل بجا ہے کہ:
اے ایمان والو! تمہارا رسول جو چیز دے اسے خوشی سے قبول کرلو اور جس سے تمہیں روکے اس رک جاو۔
اے ایمان والو! تمہارا رسول جو چیز دے اسے خوشی سے قبول کرلو اور جس سے تمہیں روکے اس رک جاو۔
رحمتِ عالم
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
صلی اللہ علیہ وسلمہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔
اس سے ظاہر ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں، انسانوں اور
قوموں کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی
رحمت اور رسالت، زمان و مکاں کی قید سے آزادی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی رحمت و نبوت کامل ہے اور ہر انسان کے لئے عام ہے۔ سب کے لئے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی ذات رحمت کا سایہ تھی۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ:
لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مشرکین کے لئے بدعا کیجئے
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بدعا کے لئے نہیں بلکہ رحمت بناکر
بھیجا گیا ہوں۔
صادق و امین
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و امانت کے وہ لوگ بھی معترف تھے
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے۔ قریش نے باوجود تمام عداوت و
سنگدلی کے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار پر کبھی انگلی
نہیں اٹھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی کا زمانہ اس قدر پاکیزگی،
شرافت اور صداقت کے ساتھ گزرا کہ نبوت سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
صادق و امین کا لقب دے دیا گیا تھا۔ قریش نے طرح طرح سے آپ کو جھٹلایا مگر
نجاشی کا دربار ہو یا مکہ کی گلیاں، ابو سفیان ہو یا ابو جہل سب ہر جگہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کی گوای دیتے تھے۔
سخاوت و فیاضی
جودوسخا کا یہ عالم تھا کہ گھر میں آٹے کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہ تھی
مگر سائل کو سارا آٹا عطا کردیا۔ اسی طرح ایک مہمان کو بکری کا سارا دودھ
پلا دیا ۔ کئی روز کے فاقوں کے باوجود گھر میں ذراسا بھی کچھ ہوتا تو سائل
کو عطا کردیتے۔ گھر میں اس وقت تک نہ جاتے جب تک سائل کو گھر میں رکھی ہوئی
نقد رقم یا خیرات نہ کردی جاتی۔ اکثر اشرفیاں اور مال و دولت خراج کی شکل
میں آتیں تو سب تقسیم کرکے دامن جھاڑ کر کھڑے ہوجاتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے اور سخاوت میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے تھے۔
عفوودرگزر
دشمن سے اپنا انتقام لینا انسانی فطرت ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم
عفوودرگزر سے کام لیتے تھے۔ یہاں تک کہ بدترین دشمن، کافروں اور مشرکوں تک
کو معاف کیا اور ان سے کہیں انتقام نہ لیا بلکہ ان کے حق میں دعا بھی کی۔
غزوہ احد میں زخمی ہوئے مگر معاف کیا۔ طائف میں جسِ مبارک خون سے لہولہان
ہوگیا۔ مگر ان کو بھی معاف کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر سب آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے قدموں تلے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان
کیا اور فرمایا:
آج تم پر کوئی الزام نہیں۔
مشرکوں کے لئے بھی کبھی بددعا نہ کی بلکہ یہ فرمایا:
میں لعنت کرنے نہیں بلکہ رحمت کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔
احسان مندی
ہمیشہ احسان کا بدلہ احسان سے دیتے تھے۔ نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بہت
اچھا سلوک کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے ایک دفعہ فکے ساتھ
بہت زیادہ حسنِ سلوک کیا۔
خاکساری، خوش خلقی و سادگی
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اپنی ذات کو دوسروں سے برتر اور
بلند نہیں سمجھتے تھے۔ غرور و تکبر کسی قسم کی برائی آپ کو چھو کر بھی بہ
گزری تھی۔ بادشاہوں اور حاکموں کو فرمان بھیجنے والا سادگی و خاکساری کا
پیکر ہے۔ کئی کئی دن فاقے کرتا ہے اپنے ہاتھ سے مالِ غنیمت تقسیم کرتا ہے
اور خود محنت و مشقت سے اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ یہ اس شخص کا پیکر ہے جس
نے غرض ساری دنیا پر احسانِ عظیم کیے مگر کبھی کسی کا احسان نہیں اٹھایا۔
غلاموں، یتیموں اور ناداروں کا والی
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کرنے کی تلقین کی اور فرمایا:
جو خود کھاو انہیں بھی کھلاو اور جو خود پہنو وہی انہیں بھی پہناو۔
ایک اور جگہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
َغلاموں کو دن میں ستر دفعہ معاف کرو۔
یتیموں اور ناداروں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار حسنِ
سلوک کی تاکید فرمائی ہی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان سے بے حد
اچھا سلوک کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
مجھے مسکین زندہ رکھ، مسکین اٹھا اور ان کے ساتھ میرا حشر کر۔
غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک
آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں سے بھی عزت، نرمی اور محبت کا سلوک
کرتے تھے۔ اکثر یہودی کافر اور مشرک آپ کے پاس آتے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے بداخلاق سے پیش آتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن جبیں پر
بھی ملال کی گرد نہیں نظر نہیں آئی بلکہ ان کے لئے فرماتے تھے کہ:
کوئی مسلمان کسی غیر مسلم پر ظلم کرے گا تو خدا کی عدالت میں قائم ہونے والے والے مقدمے میں غیرمسلم کا وکیل بن کر کھڑا ہوں گا۔
عورتوں، بچوں اور حیوانات کے ساتھ سلوک
عورتوں کو ذلت، ظلم و ستم کے پنجے سے آزادکیا ان کے حقوق مقرر کئے اور ہر حیثیت سے ان کا درجہ بلند فرمایا۔
ارشادِ نبوی ہے کہ:
ارشادِ نبوی ہے کہ:
دنیا کی بہترین متاع نیک کردار خاتون ہے۔
ایک اور جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورت کی عظمت بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو خاص توجہ اور محبت دیتے تھے اکثر راہ
چلتے بچوں کو سلام کرتے اور اپنی سواری پر بٹھا لیتے۔ موسم کا سب سے چھوٹا
پھل سب سے چھوٹے بچے کو عطا کرتے تھے۔ حیوانات پر ظلم کرنا، ان کو بھوکا
رکھنا اور ضرورت سے زیادہ کام لینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند
تھا۔
عدل و انصاف
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
اے مسلمانوں! عدل و انصاف کے ساتھ گواہی دیا کرو۔
اکثر غیر مسلموں کے مقدمے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے جاتے
تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف سے کام لے کر ان کے حق میں فیصلہ
فرمادیا کرتے تھے۔ جو سزا مسلمانوں کے لئے تھی وہی غیر مسلم کے لئے بھی
تھی۔ غیر مسلم پر زیادتی عاقبت کی بربادی کا سبب ہے۔
صبروتحمل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبروتحمل کا نمونہ تھی۔ کفار نے
ظلم و ستم کی حد کردی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صبروتحمل کی حد
کردی۔ ہجرت کی تو صبر کیا، دشمن کی گالیاں سنیں تو تحمل کا مظاہرہ کیا۔ جنگ
ہو یا امن، خوشحالی ہو یا بدحالی، راحت ہو یا مصیبت غرضیکہ صبروتحمل کا
دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ خوفِ خدا اور قربِ الہی
خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ تیز ہوا بھی چلتی تو چہرہ فق ہوجاتا۔ اس طرح
دعا مانگتے جیسے کوئی بھکاری ہاتھ پھیلارہا ہو۔ اکثر نماز میں طویل صورتیں
پڑھتے اور خوفِ خدا سے روتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوفِ خدا
رکھنے والے اور مغفرت طلب کرنے والے بندے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتے تھے کہ:
میں خدا سے سب سے زیادہ ڈرانے والا ہوں۔
قربِ الہی کا یہ عالم تھا کہ شب معراج سورة المنتہی کو پیچھے چھوڑ دیا
اور سماعت کا یہ عالم تھا کہ لوح محفوظ پر قلم چلنے کی آواز سنی۔
پاکیزگی کردار
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن، جوانی اور نبوت کے بعد کی زندگی
ایسی لطیف، پاک و صاف تھی کہ عرب معاشرے کی غلاظت میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے کردار کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ پھولوں کی
پتیاں بہت نازک اور پاک و صاف ہوتی ہےں۔ قوس قزاح بہ اچھوتی اور حسین ہوتی
ہے چاندنی بے حد اجلی اور بے داغ نظر آتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی ان سب چیزوں سے زیادہ حسین اور پاکیزہ تھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی
چیز نہیں کرسکتی تھی۔ مکے میں جگہ جگہ اخلاق سوز کام ہوتے تھی مگر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا دامن اس طرح صاف و شفاف تھا جیسے کسی کا دامن پانی میں
جانے کے باوجود خشک اور صاف ستھرا رہے۔ آپ انسانِ کامل تھے۔ اگر ہم دین و
دنیا کی فلاح اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
حسنہ کی تقلید کرنی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment