Pages

Tuesday, September 11, 2012

Class XI, Urdu, "مولانا الطاف حسین حالی"

مولانا الطاف حسین حالی

ایک تعارف
افسانہ تیرا رنگین‘ روداد تیری دلکش
شعر و سخن کو تونے جادو بنا کے چھوڑا
مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کے پہلی وجہ آپ اردو نثر میں اور اردو نظم دونوں مےں یکساں مقبولیت اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایا شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دورِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
انیسویں صدی مین کسی شخص نے ہماری زبان و ادب پر ایسے گراں قدر احسانات نہیں کیے جتنے حالی نے کےے۔ وہ ہماری شاعری کے امام اور مجتہد ہیں۔
حالی کے محاسنِ کلام
مولانا الطاف حسین حالی کے محاسنِ کلام ذیل میں درج ہیں۔
(۱) اسلوبِ نگارش
محترمہ صالحہ عابد حسین نے یادگارِ حالی میں حالی کے اسلوب کی بڑی جامع تعریف کی وہ فرماتی ہیں:
انہوں نے میر سے دردِ دل لیا‘ درد سے تصوف کی چاشنی لی‘ غالب سے حسنِ خیال‘ ندرتِ گکر اور شوخی گفتار سیکھی‘ سعدی سے بیان کی سادگی و معنی آفرینی‘ شیفتہ سے سیدھی سادھی باتوں کو دلفریب بنانے کا حسن۔ وہ جذبات و احساسات کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ ان مین دل کی سچی لگن اور اس کی یہ دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔
مثال کے طور پر
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
(۲) سادگی و پرکاری
حالی کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست تھی۔ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں دونوں مین عام فہم زبان‘ آسان اور سبک الفاظ استعمال کئے ہیں۔ وہ تکلف اور تصنع سے بچتے ہیں اور نہایت فطری انداز مے ناپنے جذبات ادا کرتے ہیں۔ الفاظ سادہ ضرور ہوتے ہیں مگر ساتھ ساتھ نہایت موثر اور دلنشین ہوتے ہیں۔سادگی کی تعریف کرتے ہوئے الطاف حسین حالی مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں:
سادگی سے صرف لفظوں کی سادگی مراد نہیں بلکہ خیالات ایسے نازک اور دقیق نہ ہوں جن کو سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔
مثلاً
رنج اور رنج بھی تنہائی کا
وقت پہنچا میری رسوائی کا
سخت مشکل ہے شیوہ تسلیم
ہجر بھی آخر کو جی چرانے لگے
(۳) صداقت و خلوص
صداقت کا جوہرحالی کی زندگی‘ شاعری اور نثر میں ہر جگہ جھلکتا نظر آتا ہے۔ وہ جذبہ و خیال کو حقیقت و صداقت کی زبان مین ادا کرتے ہیں۔ حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے کے خلاف ہیں۔ اور اصلیت کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت ہوں یا قومی و ملی افکار و خیالات‘ حالی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
(۴) غزل کو توسیعی تصور
حالی نے غزل کے قدیم سانچوں کو توڑ کر اس کی ترقی کیلئے نئی راہوں کی نشاندہی کردی ہے۔ غزل کی محدود دنیا اور آداب غزل کا لگا بندھا تصور جو مانگے تانگے کے قدیم احساسات اور خیالات کے لئے وضع ہواتھا حالی کیلئے قابلِ قبول نہ تھا۔ ان کا لہجہ اس مہدود شاعرانہ زبان سے گریزاں تھا۔ اس لئے انہوں نے غزل کی سابق حد بندی توڑ کر اجتماعی موضوعات اور قومی اور سماجی خیالات کو غزل مین داخل کیا۔ انہوں نے عام بول چال اور زندگی سے اخذ کردہ حقیقی اور ذاتی تجربات کو اپنی شاعری میں اس طرح ڈھالا کہ شعر کا حسن بگڑنے نہ پایا۔
اب بھاگتے ہیں سایہ زلف بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرتے ہوئے کچھ آسماں سے ہم
(۵) سوزو گذاز
حالی کی غزل میں سوزوگداز کا عنصر نمایاں طور پر نطر آتا ہے۔ خصوصاً ان کی وہ شاعری دردوغم اور سوزوگداز سے لبریز ہے۔ جو انہوں نے سرسید کی اصلاحی تحریک مےن شمولیت سے پہلے کی تھی۔ حالی کی غزل کے بعض اشعار نشتر کی طرح دل مین اتر جاتے ہیں۔ عشق و محبت کے روایتی موضوعات کو وہ بعض اوقات نہایت بے ساختگی اور پر گداز لہجے میں بیان کرتے ہیں جس کی تپش دل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتی ہے
گر صاحب دل ہوتے‘ سن کر مری بے تابی
تم کو بھی قلق ہوتا اور مجھ سوا ہوتا
اس کے جاتے ہی ہوگئی کیا گھر کی صورت
وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
عشق کہتے ہیں جسے سب وہ یہی ہے شاید
خودبخود دل میں اک شخص سمایا جاتا
(۶) دھیما لب و لہجہ
غزل میں حالی کا لب و لہجہ شوخ و شنگ نہیں بلکہ نہایت ہلکا اور دھیما ہے۔ وہ گہرے اور پرسوز جذبات بھی بڑے سادہ اور ہلکے انداز مین بیان کرتے ہیں لیکن یہی دھیما انداز نہایت مﺅثر ہوتا ہے۔ چنانچہ حالی کے بعض اشعار دل میں خلش کی سی پیدا کردیتے ہیں اور بے اختیار تڑپ پیدا کردیتے ہیں
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں
یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا ان کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
(۷) درسِ اخلاق
ان کی شاعری میں اصلاحی اور اخلاقی مضامین کی کثرت ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے قوم کو پست حالت کو ابھارنے کی کوشش کی۔ نوجوان طبقہ کو تحریک و عمل کی ترغیب دی‘ ان کو تحصیل علم کیلئے آمادہ کیا‘ گداگری کے پیشے کی مذمت کی ‘ نوجوانوں کو بازاری عشق سے مضر اثرات سے آگاہ کیا اور ان کو محنت کی طرف مائل کیا۔ وہ اثر آفرین اور درد انگیز پیرائے میں بڑے پاکیزہ اخلاقی اور اصلاحی پیغام دیتے جیسے
عیب اپنے گھٹاﺅ پر خبردار رہو
گھٹنے سے کہیں نہ ان کے بڑھ جائے نہ غرور
حالی راہ راست جو کہ چلتے ہیں سدا
خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیر کا
آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
(۹) حبِ وطن
حالی کا کلام وطن کی سچی محبت کے نغموں اور قومی درد کے جذبات سے پر ہے۔ قوم کی طرح وطن کی محبت میں بھی ان کی آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں
اے میرے وطن میرے بہشت بریں
کیا ہو تیرے آسمان و زمیں
وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر
موج حائل ہے اور ہوا ناساز
معروف تنقید نگاروں کی آراہ
پروفیسرآل احمد سرور لکھتے ہیں:
حالی نے ایسا پرسوز راگ الاپا ہے جس کو سن کر خوبیدہ قوم چونک پڑی۔
بقول ایک نقاد:
حالی کا نام ان کی قومی شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔
ڈاکٹرسید عبداللہ کہتے ہین:
ان کی شاعری قدیم اور جدید کے درمیاں ایک پل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔
بقول الطاف حسین حالی
مال ہے نایاب پر گاہک ہے اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکان سب سے الگ
حرفِ آخر
غرض یہ کہ حالی کی غزلیں حسن و بیان‘ لطفِ زبان‘ جذبات نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و صفائی کے نہایت اعلی نمونے ہیں اور ان کی نظمیں خالصتاً افادی نقطہ نگاہ کی حامل ہیں۔ انہوں نے شاعری کو ملک و قوم کی اصلاح کا دریعہ بنایا۔ وہ اردو شعر و ادب کے بہت بڑے محسن تھے اور تاریخِ نظم اردو اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گے
حالی نشاط نغمہ ہے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے اے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت
اس مضمون کو جناب احتشام حسین کے ان الفاظ پر ختم کیا جاسکتا ہے:
حالی نے اپنے قدیم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس مےن اچھے کو برے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ انہوں نے روایتوں کا احترام کرتے ہوئے عقل سے کام لینے کی طرف مائل کی تاکہ بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ بنانے میں آسانی ہو۔ انہوں نے ادب کی بنیاد حقیقت اور اصلیت پر رکھنے پر زور دیا تاکہ ادب زندگی سے قریب تر آسکے۔حالی کے عہدے نے شاعری‘ تاریخ‘ مقابلہ نگاری‘ ناول نویسی‘ صحافت وغیرہ کے علاوہ تنقید کو بھی بہت کچھ دیا۔ اتنی کامیابی کسی کے لئے بھی قابلِ فخر ہوسکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment