فیض احمد فیض غزل1
حوالہ
پیشِ نظر شعر فیض احمد فیض کی ایک غزل سے ماخوذ ہے۔
شعر نمبر ۱
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنی زبان بندی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
تشریح
یہ غزل چونکہ فیض نے اس وقت لکھی تھی جب کہ حکومت کے خلاف لکھنے کی پاداش میں قیدوبند اور زنجیر و سلاسل میں جکڑے ہوئے تھے۔ آپ کہتے ہیں کہ حق گوئی ہماری فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ ہمیں سچ بیان کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی ہماری زبان پر تالا نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ حقانیت پسِ پردہ کبھی نہیں رہتی۔ ہم ادب کی خدمت کرتے رہیں گے۔ یہ لوہے کے زیور ہمارے جسم کو تو سلاسل کرسکتے ہیں لیکن ہمارے قلم اور ہمارے خیالات کو کوئی پائیہ زنجیر نہیں کر سکتے۔ ہمارا قلم حق و صداقت لکھتا رہے گا۔ ہم اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کے سانچے میں اسی طرح ڈھال کر پیش کرتے رہیں گے۔
شاعر بہت حساس طبع ہوتے ہیں۔ وہ حالات و واقعات سے جو اثر قبول کرتا ہے اسے بعینہ بیان کر دیتا ہے۔ اس میں عشق کے معاملات ہوں کہ زمانے کے حالات، کوئی تخصیص نہیں!
مماثل قطع
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
شعر نمبر ۲
اسبابِ غمِ عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانیِ دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ وہ دنیا میں پیامِ محبت عام کرتے رہیں گے۔
تشریح
فیض کہتے ہیں کہ یہ دنیا نفرت، کدورت، تعصب، فرقہ بندی اور انتشار کی تاریکیوں سے اندھیری ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جستجو نے اس حسین کرہ ارض کو پُر تشدد بنا دیا ہے۔ یہ دنیا ہنگامہ آرائی کا گہوارہ بن چکی ہے اور یہاں نفرت کا آدم خور پودہ جڑیں پکڑ رہا ہے۔ اس عمیق اندھیرے میں محبت، اتحاد و اتفاق اور حق و صداقت ہی ایک ایسی شمع ہے جو اس اندھیری کا گریباں چاک کر سکتی ہے۔ اس گلِ محبت کی معطر مہک ہی انسانیت کو دوبارہ بیدار کر سکتی ہے۔ ہم قاصد بن کر پیغامِ محبت کو عام کریں گے۔ محبت کی روشنی سے اس کو منورکر دیں گے۔ ہم اس دنیا کی بنجر ذمیں کو محبت کی شیرنی سے دوبارہ ہری کر دیں گے۔ اور ہمارا وجود دنیا کی ویرانیوں اور دنتا پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
دنیا غم و الم کی ماری ہے۔ اسی وجہ سے ہر طرف ویرانی اور سناٹا مسلط ہے۔ اگر یہ جان لیں کہ غم و الم کے اسباب کیا ہیں تو امن و سکون کی فضا پیدا ہو سکتی ہے
مماثل شعر
پہلے نفرت کی گھنی باڑھ ہٹائی جائے
فصل پھر چاہ کے سینوں میں اگائی جائے
شعر نمبر ۳
ہاں! تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں! اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض ظلم و جبر کے خلاف عزم و استقلال کا اظہار کر رہیں ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ ہم ایک مدت سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہیں ہے اور ہم ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ ہمیں پابندِ سلاسل کر کے ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ ہماری خیالات اور قلم کو بھی ختم کرنے کی سازش اور سعی کی جا رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ظلم و ستم کا پیمانہ اس وقت تک بھرتا رہے گا جب تک اہلِ ستم چاہیں یا یہ پیمانہ لبریز نہ ہو جائے۔ ہم اس وقت تک تختہ مشق بنے رہیں گے جب تک کوئی اور ستم کرنے کو باقی نہ رہے گا۔ لیکن ہم اس طوفانِ ستم کے سامنے تناور درخت کی طرح کھڑے رہےں گے اور آکرخار اس کا رخ موڑ دیں گے۔ یہ جسمانی اذیت راہِ حق سے ہمارے قدموں کو اکھاڑنے کی لئے کافی نہیں، ہر ظلم ہمارے عزم کو تقویت بخشتا ہے۔
شاعر قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہے۔ اس لئے کہ اس نے حق و صداقت کا علم بلند کیا ہے۔ قلم کے ذریعے اپنے احساسات کی ترمجمانی کرتا ہے
مماثل شعر
تیرگی ہے کہ امڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
شعر نمبر ۴
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض ظلم و ستم مٹانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا عزم کر رہیں ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ ارباب اقتدار ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور ہمیں تختہ مشق و ستم بنا رہیں ہیں۔ وہ ہماری زبان و بیان پر قفل لگانے کے لئے ہر قسم کی عقوبت ہم پر ڈھا رہے ہیں۔ لیکن یہ ہمارا عزم ہے کہ ہم ہر ستم برداشت کریں گے، ہم اس ظلم کے ہر تیر کو مردِ آہن کی طرح اپنے سینے پر سہہ لیں گے۔ اس وقت تک جب تک بس چلے گا۔ اس وقت تک ہم اپنے دکھ کا مرہم کرتے رہیں گے۔ یہ زخم تو ایسے ہیں جو مٹ جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ان زخموں اور ان جان سوزیوں کے آگے گھٹنے نہ ٹیکیں گے۔ ہم اپنی قوم کی اس قدر تاریکی سے نکالنے کے لئے اپنے قلم کی روشنی پھیلائیں گے اور اپنی قوم کو اس کڑی دھوپ مین سایہ فراہم کریں گے۔
دراصل ترقی پسند شعراءسرمایہ دار طبقہ کے مخالف ہیں اور محنت کش طبقے کے حق میں ہیں۔ چونکہ سرمایہ دار اور محنت کش طبقے میں کشمکش رہتی ہے اور یہ اس طبقاتی کشمکش سے معاشرے کو پاک کرنا چاہتے ہیں اس لئے یہ اپنے اشعار میں اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہیں
مماثل شعر
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی
جو دریا جھوم کے اٹھیں گے تنکوں سے تر
شعر نمبر ۵
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگِ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض ظلم کے خاتمے کے لئے ہر قسم کے ایثار کا خاتمہ کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض طوفانِ، ستم کے آگے سینہ سپر ہونے کا عزم کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب تک روح اس جسم کی قفس میں ہے اور جب تک اس جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے، جب تک شاخِ زندگی صفحہ ہستی کے ساتھ لگا لگی ہوئی ہے تب تک ہم اپنی قوم و ملت کی خدمت کریں گے اور ہر ظلم کو سہیں گے۔ ہم اپنے قلم میں اپنے اشکوں کی سیاہی بھر کر بھی آزادی کے لئے تڑپتی ہوئی اپنی قسم کی بیدار کریں گے اور ان پر کئے جانے والے مظالم کی داستانِ غم رقم کریں گے۔ ہم ایک ایسا انقلاب برپا کر دیں گے کہ سب سانسِ طمانیت لے سکیں۔ ہم اپنے لہو سے اس پر وانہ آزادی کو سینچیں گے۔
زندگی مقصد سے عبارت ہوتی ہے اور مقصد کے حصول کے لئے آدمی بڑی سے بڑی قربانی دیتا ہے اور بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کرتا ہے
مماثل شعر
ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا اے فیض!
سیراب چند مغیلاں ہوئے تو ہیں
شعر نمبر ۶
اک طرز، تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
ایک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنی اور اپنے محبوب کی عادتِ ثانیہ کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ ہم اپنے محبوب سے کئی بار اظہارِ عشق کر چکے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ہمارے دلِ بے قرار کی بری ادا سے کچل کر چلا جاتا ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ اس کے سامنے اپنے دل کو کھول دیا لیکن اس نے ہر بار نفرت کے زہرخند تیروں کی بوچھار کر کے ہمارے دل کو اور زخمی کر دیا ہے۔ یہ بے توجہی اور بے نیازی اس کی عادت ہی ہے۔ ہم اپنی اس امید کی تکمیل کے لئے کوشاں رہیں گے۔ اس کی کرم نوازیوں کے حامل ہوں گے۔ ہم اپنی فطرت کے مطابق دوستی کا بھرم بھرتے رہیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم جب اس کی طرف مدد بھری نظروں سے دیکھیں گے وہ نفرت سے منہ پھیر لے گا۔ لیکن ہم اس کی محبت کے دعوے دار رہیں گے اور اس کی زلف کے اسیر رہیں گے۔
محبوب کی عادت ہوتی ہے کہ وہ تغافل برتتا ہے۔ بے رخی اختیار کرتا ہے۔ ہماری خواہشات کا سے علم ہوتا ہے لیکن وہ اس کے باوجود توجہ نہیں دیتا اور یہ اس کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اس انداز کو جانتے ہوئی بھی عرضِ تمنا کرتا رہتا ہے۔ اس امید پر کہ شاید کبھی تو اس کی تمنا پوری ہو گی اور مقصد بر آئے گا
مماثل شعر
تم جفا کار تھے کرم نہ کیا
میں وفا دار تھا جفا نہ ہوا
پیشِ نظر شعر فیض احمد فیض کی ایک غزل سے ماخوذ ہے۔
شعر نمبر ۱
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنی زبان بندی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
تشریح
یہ غزل چونکہ فیض نے اس وقت لکھی تھی جب کہ حکومت کے خلاف لکھنے کی پاداش میں قیدوبند اور زنجیر و سلاسل میں جکڑے ہوئے تھے۔ آپ کہتے ہیں کہ حق گوئی ہماری فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ ہمیں سچ بیان کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی ہماری زبان پر تالا نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ حقانیت پسِ پردہ کبھی نہیں رہتی۔ ہم ادب کی خدمت کرتے رہیں گے۔ یہ لوہے کے زیور ہمارے جسم کو تو سلاسل کرسکتے ہیں لیکن ہمارے قلم اور ہمارے خیالات کو کوئی پائیہ زنجیر نہیں کر سکتے۔ ہمارا قلم حق و صداقت لکھتا رہے گا۔ ہم اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کے سانچے میں اسی طرح ڈھال کر پیش کرتے رہیں گے۔
شاعر بہت حساس طبع ہوتے ہیں۔ وہ حالات و واقعات سے جو اثر قبول کرتا ہے اسے بعینہ بیان کر دیتا ہے۔ اس میں عشق کے معاملات ہوں کہ زمانے کے حالات، کوئی تخصیص نہیں!
مماثل قطع
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
شعر نمبر ۲
اسبابِ غمِ عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانیِ دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ وہ دنیا میں پیامِ محبت عام کرتے رہیں گے۔
تشریح
فیض کہتے ہیں کہ یہ دنیا نفرت، کدورت، تعصب، فرقہ بندی اور انتشار کی تاریکیوں سے اندھیری ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جستجو نے اس حسین کرہ ارض کو پُر تشدد بنا دیا ہے۔ یہ دنیا ہنگامہ آرائی کا گہوارہ بن چکی ہے اور یہاں نفرت کا آدم خور پودہ جڑیں پکڑ رہا ہے۔ اس عمیق اندھیرے میں محبت، اتحاد و اتفاق اور حق و صداقت ہی ایک ایسی شمع ہے جو اس اندھیری کا گریباں چاک کر سکتی ہے۔ اس گلِ محبت کی معطر مہک ہی انسانیت کو دوبارہ بیدار کر سکتی ہے۔ ہم قاصد بن کر پیغامِ محبت کو عام کریں گے۔ محبت کی روشنی سے اس کو منورکر دیں گے۔ ہم اس دنیا کی بنجر ذمیں کو محبت کی شیرنی سے دوبارہ ہری کر دیں گے۔ اور ہمارا وجود دنیا کی ویرانیوں اور دنتا پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
دنیا غم و الم کی ماری ہے۔ اسی وجہ سے ہر طرف ویرانی اور سناٹا مسلط ہے۔ اگر یہ جان لیں کہ غم و الم کے اسباب کیا ہیں تو امن و سکون کی فضا پیدا ہو سکتی ہے
مماثل شعر
پہلے نفرت کی گھنی باڑھ ہٹائی جائے
فصل پھر چاہ کے سینوں میں اگائی جائے
شعر نمبر ۳
ہاں! تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں! اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض ظلم و جبر کے خلاف عزم و استقلال کا اظہار کر رہیں ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ ہم ایک مدت سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہیں ہے اور ہم ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ ہمیں پابندِ سلاسل کر کے ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ ہماری خیالات اور قلم کو بھی ختم کرنے کی سازش اور سعی کی جا رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ظلم و ستم کا پیمانہ اس وقت تک بھرتا رہے گا جب تک اہلِ ستم چاہیں یا یہ پیمانہ لبریز نہ ہو جائے۔ ہم اس وقت تک تختہ مشق بنے رہیں گے جب تک کوئی اور ستم کرنے کو باقی نہ رہے گا۔ لیکن ہم اس طوفانِ ستم کے سامنے تناور درخت کی طرح کھڑے رہےں گے اور آکرخار اس کا رخ موڑ دیں گے۔ یہ جسمانی اذیت راہِ حق سے ہمارے قدموں کو اکھاڑنے کی لئے کافی نہیں، ہر ظلم ہمارے عزم کو تقویت بخشتا ہے۔
شاعر قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہے۔ اس لئے کہ اس نے حق و صداقت کا علم بلند کیا ہے۔ قلم کے ذریعے اپنے احساسات کی ترمجمانی کرتا ہے
مماثل شعر
تیرگی ہے کہ امڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
شعر نمبر ۴
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض ظلم و ستم مٹانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا عزم کر رہیں ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ ارباب اقتدار ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور ہمیں تختہ مشق و ستم بنا رہیں ہیں۔ وہ ہماری زبان و بیان پر قفل لگانے کے لئے ہر قسم کی عقوبت ہم پر ڈھا رہے ہیں۔ لیکن یہ ہمارا عزم ہے کہ ہم ہر ستم برداشت کریں گے، ہم اس ظلم کے ہر تیر کو مردِ آہن کی طرح اپنے سینے پر سہہ لیں گے۔ اس وقت تک جب تک بس چلے گا۔ اس وقت تک ہم اپنے دکھ کا مرہم کرتے رہیں گے۔ یہ زخم تو ایسے ہیں جو مٹ جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ان زخموں اور ان جان سوزیوں کے آگے گھٹنے نہ ٹیکیں گے۔ ہم اپنی قوم کی اس قدر تاریکی سے نکالنے کے لئے اپنے قلم کی روشنی پھیلائیں گے اور اپنی قوم کو اس کڑی دھوپ مین سایہ فراہم کریں گے۔
دراصل ترقی پسند شعراءسرمایہ دار طبقہ کے مخالف ہیں اور محنت کش طبقے کے حق میں ہیں۔ چونکہ سرمایہ دار اور محنت کش طبقے میں کشمکش رہتی ہے اور یہ اس طبقاتی کشمکش سے معاشرے کو پاک کرنا چاہتے ہیں اس لئے یہ اپنے اشعار میں اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہیں
مماثل شعر
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی
جو دریا جھوم کے اٹھیں گے تنکوں سے تر
شعر نمبر ۵
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگِ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں فیض ظلم کے خاتمے کے لئے ہر قسم کے ایثار کا خاتمہ کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض طوفانِ، ستم کے آگے سینہ سپر ہونے کا عزم کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب تک روح اس جسم کی قفس میں ہے اور جب تک اس جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے، جب تک شاخِ زندگی صفحہ ہستی کے ساتھ لگا لگی ہوئی ہے تب تک ہم اپنی قوم و ملت کی خدمت کریں گے اور ہر ظلم کو سہیں گے۔ ہم اپنے قلم میں اپنے اشکوں کی سیاہی بھر کر بھی آزادی کے لئے تڑپتی ہوئی اپنی قسم کی بیدار کریں گے اور ان پر کئے جانے والے مظالم کی داستانِ غم رقم کریں گے۔ ہم ایک ایسا انقلاب برپا کر دیں گے کہ سب سانسِ طمانیت لے سکیں۔ ہم اپنے لہو سے اس پر وانہ آزادی کو سینچیں گے۔
زندگی مقصد سے عبارت ہوتی ہے اور مقصد کے حصول کے لئے آدمی بڑی سے بڑی قربانی دیتا ہے اور بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کرتا ہے
مماثل شعر
ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا اے فیض!
سیراب چند مغیلاں ہوئے تو ہیں
شعر نمبر ۶
اک طرز، تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
ایک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنی اور اپنے محبوب کی عادتِ ثانیہ کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں فیض کہتے ہیں کہ ہم اپنے محبوب سے کئی بار اظہارِ عشق کر چکے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ہمارے دلِ بے قرار کی بری ادا سے کچل کر چلا جاتا ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ اس کے سامنے اپنے دل کو کھول دیا لیکن اس نے ہر بار نفرت کے زہرخند تیروں کی بوچھار کر کے ہمارے دل کو اور زخمی کر دیا ہے۔ یہ بے توجہی اور بے نیازی اس کی عادت ہی ہے۔ ہم اپنی اس امید کی تکمیل کے لئے کوشاں رہیں گے۔ اس کی کرم نوازیوں کے حامل ہوں گے۔ ہم اپنی فطرت کے مطابق دوستی کا بھرم بھرتے رہیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم جب اس کی طرف مدد بھری نظروں سے دیکھیں گے وہ نفرت سے منہ پھیر لے گا۔ لیکن ہم اس کی محبت کے دعوے دار رہیں گے اور اس کی زلف کے اسیر رہیں گے۔
محبوب کی عادت ہوتی ہے کہ وہ تغافل برتتا ہے۔ بے رخی اختیار کرتا ہے۔ ہماری خواہشات کا سے علم ہوتا ہے لیکن وہ اس کے باوجود توجہ نہیں دیتا اور یہ اس کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اس انداز کو جانتے ہوئی بھی عرضِ تمنا کرتا رہتا ہے۔ اس امید پر کہ شاید کبھی تو اس کی تمنا پوری ہو گی اور مقصد بر آئے گا
مماثل شعر
تم جفا کار تھے کرم نہ کیا
میں وفا دار تھا جفا نہ ہوا
No comments:
Post a Comment