Pages

Friday, August 24, 2012

Class XI, Urdu, "ڈپٹی نذیر احمد دہلوی"

ڈپٹی نذیر احمد دہلوی

ایک تعارف
اردو ادب پر سحروطلسم کی گھٹائیں‘ مافوق الفطرت فضائیں‘ تضع و مبالغہ کی بلائیں چھائی ہوئی تھیں۔ ایسے میں ہم ایک ادیب کو دعائیںدیں‘ یہ ادیب ڈپٹی نذیر احمد ہیں جو سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک میں ان کے اہم رفیقِ کار تھے۔ انھوں نے اپنے قلم کی تمام تر توانیاں معاشرے کی اصلاح کے لئے وقف کردیں۔ اس مقصد کے لئے انھوںنے ناول نگاری کی صنف کو اپنا یا۔
پروفیسر آل آل احمدسرور کہتے ہیں:

انگریزی میں رچرڈسن اور فیلڈنگ ناول کے موجد کہے جاتے ہیں ہمارے یہاں
 نذیر احمد کی کہانیاں کو ناول کا اولین نمونہ کہا جاسکتا ہے۔

بقول شاعر
جو ضیاءدیتی ہے پنہاں لفظ کی تنویر میں
وہ نظر آتی ہے مجھ کو اس کی ہر تحریر میں
اس کے ہر ناول سے جلوہ گر ہے اصلاحی جمال
اس نے دل کی نیکیاں بھر دی ہیں ہر تصویر میں

طرزِ تحریر کی خصوصیات
ڈپٹی نذیر احمد کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔

رواں اسلوب
مولوی صاحب کا طرزِ تحریر سادہ اور رواں ہے۔ وہ دہلی کی ٹھےٹ اور ٹکسالی زبان میں لکھتے ہیں۔ محاورات کا استعمال بھی بڑی سلیقہ مندی سے کرتے ہیں۔ محاورات کے بر محل استعمال سے ان کی زبان میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے ۔ بقول فرحت اللہ بیگ:
ان کا یہ شوق کچھ حد سے بڑھا ہوا ہے کہ بعض اوقات وہ محاورات استعمال نہیں کرتے زبردستی ٹھونستے ہیں۔

 ناول نویسی کے بانی
نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ان کا ناول ”مراة العروس“ اردو کا اولین ناول ہے۔ کچھ لوگ ناول نگاری کا بانی پنڈت رتن ناتھ کو تصور کرتے ہے لیکن مراة العروس جو کہ نذیر احمد کا ناول ہے ۹۶۸۱ میں شائع ہوچکا تھا جبکہ رتن ناتھ کا ناول ”فسانہ آزاد“ ۹۷۸۱ میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر ابوللیث صدیقی کہتے ہیں:
نذیر احمد کو بلاشبہ جدید اردو ناول کا پیش رو قرار دینا چائیے۔

روایت شکنی
نذیر احمد نے پہلی بار غیر فطری رنگ کو چھوڑ کر سادی اور حقیقی زندگی میں قدم رکھا۔ انہوںنے جنوں‘ بھوتوں‘ پریوں اور مافوق الفطرت کرداروں کے بجائے اپنے ناول کے کردار ہماری گرد و پیش کی زندگی سے منتخب کیے۔ اس طرح انہوں نے صدیوں پرانا بندھن توڑنے میں پہل کی جن کے پیچھے زندگی کی بےشمار حقیقتیں چھپی ہوئی تھےں اور جس کو ہمارے افسانوی ادب نے چھپارکھا تھا ان کا سب سے بڑا کمال بھی یہی ہے کہ انہوں نے کہانی میں اصلیت کا رنگ بھرا۔
ڈاکٹر ابو للیث صدیقی کہتے ہیں:
قدیم قصے بادشاہوں‘ وزیروں‘ سوداگروں‘ شہزادوں یا پھر جنوں اور پریوں کے محور پر گھومتے تھے‘ عوام کو اس بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی‘ نذیر کے ناولوں میں عوام اس بزم میں پہلی بار شریک ہوئے۔

 مقصدیت
نذیر احمد بھی اپنے دور کے دوسرے ادیبوں کی طرح مقصدیت کی پیداوار تھے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جس میں ہر ادیب قوم کی اصلاح کی خاطر کام کرتا تھا گو کہ ہر ایک کا دائرہ عمل الگ الگ تھا۔ نذیر احمد نے بھی اپنے قصوں سے دین داری‘ خداپرستی اور اصلاحِ معاشرت کا کام لیا۔ ان کے ناول کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھے جاتے تھے وہ قصہ نویس سے زیادہ واعظ تھے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:
نذیر احمد سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن وہ مقصد نہیں بھول سکتے جس کے تحت وہ قصے لکھتے تھے۔ ان کے ناول جتنے اچھے وعظ ہیں اتنے اچھے قصے نہیں۔

پرچوش اندازِ بیان
نذیر احمد کا اندازِ بیان پرزور اور پرچوش ہے۔ ان کے کرداروں کی گفتگو بعض اوقات سراپا تقریر معلوم ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں:
نذیر احمد ہی اردو کے وہ انشاپرداز ہیں جن کی باتیں زوردار ہوتی ہےں۔ حالی کی آواز دھیمی‘ لحجہ مسکینوں جیسا۔ شبلی پکی مگر مختصر بات کہنے والے‘ آزاد میٹھی میٹھی‘ کبھی کبھی مختصر کہانیاں سنانے والے۔ ان میں نذیر احمد ہی وہ انشاپرداز ہیں جو پرزور انداز میں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

 مثالی کردار نگاری
ان کے کردار زیادہ تر مثالی ہوتے جو اگر نیک ہیں تو فرشتے اور بد ہیں تو شیطان۔ اسطرح وہ ارتقائی مدارج سے دور رہتے تھے۔
پروفیسر منظور حسین شور کہتے ہیں:
ان کے کردارمیکانکی طور پر عقل کے ایسے پتلے ہیں جو حسن و شباب اور محبت کے لطیف جذبات سے عاری ہیں۔ جن کے بغیر انسان فرشتہ ہو سکتا ہے لیکن انسان نہیں۔

 معاشرے کی عکاسی
سرسید احمد خان نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا۔ نذیر احمد نے اپنی تحریروں سے اسے قوت بخشی۔ نذیر احمد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تمام قصوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی سچی تصویر پیش کی ہے۔ انہوں نے قصوں سے مافوق الفطرت عناصر کی بھرمار کو خارج کرکے حقائق نگاری اور واقعیت کا رنگ بھر کر زندگی کی عکاسی کا ڈھنگ سکھایا۔ انھون نے طوطا مینا کی کہانیوں سے نکل کر اصلاح مواشرت اور اخلاق کے تانے بانے سے اپنے ناول مکمل کیے۔ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوںنے ادب کو زندگی کے قریب کردیا۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:
ماحول کی مصوری ان کے یہاں بہت اچھے طرح کی گئی ہے۔ اسلامی سوسائٹی اور خاص کر اسلامی خاندانوں کی اندرونی معاشرت کی جو تصویریں نذیر احمد نے کھینچی ہیں وہ ایسی سچی اور بے لاگ ہے کہ آنکھوں کے سامنے نقشہ پھر جاتا ہے۔

 شوخی و ظرافت
نذیر احمد کی نثر کا ایک خاص جوہر ان ظریفانہ رنگ ہے۔ جو انکے ناولوں لیکچروں اور مضامین میں نمایاں ہے۔ وہ عمل زندگی میں بھی زیادہ خشک نہ تھے۔ نہایت زندہ دل اور ظریف آدمی تھے اور یہی ظرافت و زندہ دلی ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے انکی ظرافت اپنے نامور ہم عصر آزاد کی طرح شگفتگی کے دائرے سے آگے نہیں بڑھی۔ وہ تبسم تو بن جاتی ہے۔ مگر قہقہے سے گریز کرتی ہے البتہ وہ تقریروں میں طنز کے تیر چلانے سے نہیں چوکتے تھے۔
ڈاکٹر حسن فاروقی کہتے ہیں:
انہوں نے اہم معاشرتی مسائل کو دلچسپ فرضی قصوں کے ذریعے اس طرح پیش کیا ۔ جیسے کڑوی دوا کو حلق سے اتارنے کے لئے اس پر شکر لپیٹ دی جاتی ہے۔

 بے تکلفی
ان کا تعلق بھی چونکہ دبستانِ سرسید سے تھا۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں بے تکلفی اور بے ساختگی کا عنصر نمایاں ملتا ہے۔ یہ اپنے ناولوں میں اور اپنی تحریروں میں اپنے موضوع کو بے ساختگی کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی قسم کی بناوٹ‘ یا تکلف سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے موضوع کو انتہائی رواں انداز میں پیش کرتے ہیں اگرچہ کہ ان کے مضامین میںطوالت کے باوجود بھی بے تکلفی کا عنصر کثرت کے ساتھ جھلکتا ہے۔

حاصلِ تحریر
یہ تھیں اردو کے پہلے ناول نگار مولوی نذیر احمد کی نمایاں خصوصیات۔ انکے ناولوں کو کوئی ناول نہیں مانتا نہ مانے۔ ان کو ناول نگار کہنے میں کسی کو حجاب سے تو ہواکرے مگر ناول نگاری کی تاریخ ان کو خراجِ تحسین پیش کیے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔
بقول شاعر
جو ضیاءدیتی ہے پنہاں لفظ کی تنویر میں
وہ نظر آتی ہے مجھ کو اس کی ہر تحریر میں
اس کے ہر ناول سے جلوہ گر ہے اصلاحی جمال
اس نے دل کی نیکیاں بھر دی ہیں ہر تصویر میں

No comments:

Post a Comment