خطوط – غالب (۲
نامہ نگار : مرزا اسداللہ خان غالب مکتوب الیہ : یوسف مرزا
تعارفِ نامہ نگار
مرزا غالب عظیم شاعرِ‘ مخصوص‘ منفرد اور جدید خطوط نگاری کے موجدتھے۔
خطوط میں بے تکلفی‘ سادگی‘ اختصار و جامعیت‘ جزئیات نگاری‘ نکتہ نگاری‘
نکتہ آفرینی اور مزاح و ظرافت کو اپنانے‘ مختلف اسالیبِ بیان مہارت سے
کھپانے‘ انھیں اپنی سوانح حیات اور اپنے زمانے کی تاریخ بتانے والے‘ وہ
منفرد دانش ور ہیں جن کے خطوط‘ اردو نثر میں نیا تجربہ اور نقشِ اول ثابت
ہوئے۔ انھوںنے اپنے اس موقف کو سچ کر دکھایا کہ‘ ان کی خطوط نگاری شاعری کی
طرح ان کے دعویٰ کی سچائی پیش کرتی ہے کہ
ادائے خاص سے غالب ہوا نکتہ سرا
صدائے عام ہیں یارانِ نکتہ داں کے لئے
صدائے عام ہیں یارانِ نکتہ داں کے لئے
تعارفِ مکتوب ِ الیہ
یوسف مرزا‘ امیر محمد نصیر کے فرزند تھے جو لکھنوءمیں رہتے تھی۔ ان کی
والدہ قدسیہ سلطان‘ مرزا غالب کے دوست حسین مرزا کی بہن تھیں۔ انھوں نے
زندگی کا زیادہ تر حصہ دہلی میں گزارا۔ غالب حسین مرزا کے بیٹوں سجاد مرزا
اور اکبر مرزا اور بھانجے یوسف مرزا کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ یہ خط انھی کے
نام ہے۔
اقتباس ۱
کیوں کر تجھ کو لکھوں کہ تیرا باپ مرگیا اور اگر تجھ کو لکھوں تو پھر
آگے کیا لکھوں کہ اب کیا کرو‘ مگر صبر؟ یہ ایک شیوئہ فرسودہ ابنائے روزگار
کا ہے۔ تعزیت یوں ہی کیا کرتے ہیں اور یہی کہا کرتے ہین کہ صبر کرو۔ ہائے
ایک کا کلیجہ کٹ گیا اور لوگ اسے کہتے ہیں کہ تو نہ تڑپ ۔ بھلا کیون کر نہ
تڑپے گا۔ صلاح اس امر میں نہیں بتائی جاتی۔ دعا کو دخل نہیں‘ دوا کا لگاﺅ۔
پہلے بیٹا مرا‘ پھر باپ مرا۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ بے سروپا کس کو کہتے
ہیں تو میں کہوں گا یوسف مرزا کو۔
تشریح
پیشِ نظر سطور مرزا غالب کے خط یوسف مرزا کی ابتدائی سطور ہیں جن میں
غالب نے مرزا یوسف سے ان کے باپ کے انتقال پر اظہارِ افسوس یا تعزیت کی ہے۔
ان کے یہ تعزیتی الفاظ ان کے مﺅثر اندازِ بیان اور واقعیت نگاری کا ثبوت
ہے۔مرزا یوسف کے باپ جو انگریز دشمنی کے الزام میں قید تھے۔ ذندان میں
بیمار ہوگئے انگریز نے ان کی رہائی کا حکم دیا لیکن اس سے قبل ہی وہ دنیا
سے رحلت فرماگئے۔ جب غالب کو ان کی وفات کا بہ ذریعہ خط علم ہوا تو جوابً ‘
مرزا سے یوں تعزیت کررہے ہیں۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں تمھارے باپ کی
موت کا اپنی زبان سے ذکر کروں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح اظہارِافسوس
کروں اور تمھیں تسلی دوں۔ زمانے یا دنیا کا یہ دستور ہے کہ لوگ لواحقین کو
صبر کی تلقین کرتے ہیں۔سوچو! بھلا یہ کیسا دستور و طریقہ ہے کہ کسی شخص کا
وزیر اس سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جائے وہ اس کی جدائی پر رنجیدہ اور ملول ہو
اور لوگ کہیں کہ اس نقصان پر صبر کرو‘ غم و آہ وزاری نہ کرو۔ حالانکہ عزیز
کی جدائی پر مضطرب اور بے چین ہونا‘ فطری امر ہے اور اسے کہا جائے میاں
صبر کرو بھلا کیسے ممکن ہے کہ اسے صبر آجائے۔میرے نزدیک تو ایسے ماحول میں
صبر کی تلقین کرنا تسلی دینا فضول معلوم دیتا ہے۔ اس لئے کہ چند الفاظ اس
کی بے چینی اور تڑپ کو کم نہیں کرسکتے سچ ہے اس دکھ اور غم کا ازالہ نہ تو
دعا سے ہو سکتا ہے نہ دوا سے۔ یعنی عزیز کی موت یا فرقت کا داغ آسانی سے
نہیں مٹ سکتا جیسا کہ عموماً تصور کیا جاتا ہے۔
مرزا یوسف تمھارا دل یقیناً بہت زخمی اور گھائل ہے۔ تمھیں پہلے ہی بیٹے
کی جدائی کا گھاﺅ لگا ہوا ہے۔ اب باپ کی جدائی کا بھی غم لاحق ہوگیا ہے۔ سچ
ہے جس کے سینے پر ایسے گہرے گھاﺅ ہوں‘ جس کا جگر داغ دار ہو اس سے کہا
جائے گریا و زاری نہ کرو‘ آنسو نہ بھاﺅ‘ آہ و بکاہ نہ کرو کسی طرح مناسب
نہیں۔آخر باپ کی موت پر اظہارِ غم سے روکنے کا فائدہ کیا ہے۔ کیوں نہ ایسے
آزاد چھوڑ دیاجائے تاکہ وہ رو رو کر دل کی بھڑاس نکال دے۔ غالب نے آخری
جملے میں۔ اپنی بلاغت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے
کہ بے سروپا کس کو کہتے ہیں یعنی بے سہارا کسے کہا جاتا ہے تو میرے نزدیک
اس کی مثال یوسف مرزا ہیں۔ کیونکہ باپ کا سایہ ہمیشہ کے لئے سر سے اٹھ گیا‘
دورِ مستقبل کا سہارا بیٹا بھی جداہوگیا۔ اب یوسف بے یارو مددگاررہ گیاہے
اقتباس ۲
تمھاری دادی لکھتی ہیں کہ رہائی کا حکم ہو چکا تھا‘ یہ بات سچ ہے؟ اگر
سچ ہے تو جوانمرد ایک بار دونوں قیدوں سے چھوٹ گیا۔ نہ قیدِ حیات رہی‘ نہ
قیدِ فرنگ۔ ہاں صاحب‘ وہ لکھتی ہیں کہ پنشن کا روپیہ مل گیا ہے‘ وہ تجہیز و
تکفین کے کام آیا۔یہ کیا بات ہے؟ جو مجرم ہو کر چودہ برس کو مقید ہوا ہو‘
اس کا پنشن کیوں کر ملے گا اور کس کی درخواست سے ملے گا؟ رسید کس سے لی
جائے گی؟
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل غالب‘ یوسف مرزا کے نام ان کے باپ میر نصیر کی وفات پر
تعزیت کرتے ہوئے اپنے مخصوص طرزِ بیان میں دستورِ زمانہ کے مطابق تعزیت
کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص کا عزیز اس سے ہمیشہ سے جدا
ہوجائے‘ جس کا دل غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے زمانے کے دستور کے مطابق اسے صبر
کی تلقین کرنا اور آہ وزاری نہ کرنے کا کہنا عجیب لگتا ہے۔ لیکن کیا کیا
جائے اس کے سوا چارہ بھی نہیں۔
تشریح
پیشِ نظر سطور میںغالب مرزا یوسف کو لکھتے ہیں کہ تمھاری دادی کے خط سے
معلوم ہوا کہ انتقال سے قبل تمھارے باپ کو انگریزوں کی قید سے چھٹکارے کا
حکم ہو گیا تھا۔ اگر یہ بات درست بھی ہے تو کیا فائدہ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ
اس جواں ہمت‘ نڈر اور بہادر شخص کو بیک وقت زندگی کے مصائب‘ تکالیف اور
پریشانیوں سے بھی نجات مل گئی اور انگریز کی قید سے بھی۔سانحہ تو یقیناً
عظیم ہے لیکن جو کچھ ہوا ان کے حق میں اچھا ہوا۔ تمام الجھنوں سے آزادی مل
گئی۔ دنیا ایک قید خانہ ہے جہاں انسان کی خواہشات کا خون ہوتا ہے اور وہ
اپنی مرضی کے بجائے جبر کی زندگی گزارتا ہے۔
بقول میر
بقول میر
یاں کہ سپید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا دن کو جوں توں شام کیا
رات کو رو رو صبح کیا دن کو جوں توں شام کیا
تمہاری دادی کے خط سے بھی معلوم ہوا کہ انگریزوں نے جو پنشن دی وہ ان کی
تکفین و تدفین میں خرچ ہوگئی۔بھلا‘ بتائے اس کے مرنے کے بعد اس کی کیا
ضرورت تھی۔ جس شخص کو حق کی حمایت اور انگریز کی مخالفت کی پاداش میں چودہ
سال کی قید ہوئی ہو اور پھر وہ دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ اس کو پنشن ملنا‘
نہ ملنا فضول ہے۔ اب اس کی وصولیابی کی رسید پر کون دستخط کرے گا۔ آہ وہ
پنشن کا مستحق تو دکھ جھیلتے اور حاکم کے ظلم سہتے سہتے اس دنیا سے رخصت ہو
گیا۔ اب اسے پنشن کا مستحق سمجھنا اور ورثاءکو نوازنا‘ عجب بات ہے
اقتباس ۳
مصطفی خان کی رہائی کا حکم ہوا۔ مگر پنشن ضبط۔ ہر چند اس پرستش سے کچھ
حاصل نہیں۔ لیکن بہت عجیب بات ہے‘ تمھارے خیال میں جو کچھ آئے گا وہ مجھ کو
لکھو۔ دوسرا امر یعنی تبدیلِ مذہب‘ عیاذاً باللہ! علی کا غلام کبھی مرتد
نہ ہوگا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حضرت چالاک اور سخن ساز اور ظریف تھے۔ سوچے ہوں
گے میں اپنا کام نکالو اور رہا ہو جاﺅ۔ عقیدہ کب بدلتا ہے اگر یہ بھی تھا
تو انکا گمان غلط تھا۔ اس طرح رہائی ممکن نہیں۔
ربطِ ما قبل
ان سطور سے قبل غالب‘ یوسف مرزا کے نام ان کے باپ میر نصیر کی وفات پر
تعزیت کرتے ہوئے اپنے مخصوص طرزِ بیان میں دستورِ زمانہ کے مطابق تعزیت
کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص کا عزیز اس سے ہمیشہ سے جدا
ہوجائے‘ جس کا دل غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے زمانے کے دستور کے مطابق اسے صبر
کی تلقین کرنا اور آہ وزاری نہ کرنے کا کہنا عجیب لگتا ہے۔ لیکن کیا کیا
جائے اس کے سوا چارہ بھی نہیں۔
غالب کہتے ہیں کہ تمھارے باپ کا انتقال یقیناً دکھ کی بات ہے لیکن ایک
طرح سے اچھا ہے کہ انھیں دنیا اور انگریز دونوں کی طرف سے رہائی مل گئی۔
ساتھ ہی ان کی پنشن ان کی موت کے بعد ملنے پر افسوس کیا ہے۔
تشریح
نواب مصطفی علی خان شیفتہ کی انگریزوں کی قید سے رہائی کے سلسلے میں یہ
بات یام طور پر سنی جارہی تھی کہ وہ آزادی کی خاطر اسلام کو خیرباد کہنے
یعنی مذہب قبول کرنے کو تیار تھے۔ ان کا مقصد تھا کہ انگریز خوش ہوجائیں
اور انھیں آزاد کردے۔ غالب کہتے ہیں یہ خبر درست معلوم نہیں ہوتی۔ اللہ سے
توبہ اور پناہ مانگتا ہوں بھلا جو شخص دل و جان سے حضرت علی رضہ کا پیرو
اور ماننے والا ہو وہ بھلا اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرسکتا ہے۔ ہرگز
ہرگز نہیں۔ البتہ مصطفی خان بڑے سمجھدار‘ باتونی اور ظریفانہ مزاج کے حامل
تھے۔ انھوںنے سوچاہوگا کہ اس وقت انگریز کو دھوکا دے کر چھٹکارا حاصل کرلیا
جائے۔ مذاق کا مذاق رہے گا اور اور انگریز دام میں آگیا تو آزادی بھی مل
جائے گی۔
غالب کہتے ہیں کہ جب مذہبی عقائد انسان کے دل میں راسخ اور پختہ ہوجاتے
ہیں تو وہ انہیں ترک نہیں کرسکتا اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ مصطفی
خان اپنے طور پر سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ مذہبِ اسلام کو ترک کرچکے ہیں تو یہ
ان کی خام خیالی ہے۔ اس طرح نہ انگریز کو یقین آسکتا ہے کہ وہ سچ بول رہے
ہیں اور نہ خود ان کا اپنا ضمیر اس معاملے میں ان کا ساتھی بن سکتا تھا
No comments:
Post a Comment