Pages

Monday, August 27, 2012

Class XI, Urdu, "میر تقی میر غزل 2"

میر تقی میر غزل 2

شعر نمبر ۱
ہمارے آگے جب ترا کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
مرکزی خیال
میر فرماتے ہیں کہ جب ہم تیرا نام کسی سے سنتے ہیں تو ہمارا دل بری طرح بے چین، مضطرب اور تڑپنے لگتا ہے۔ اور ہمیں بار بار دل کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اہلِ عشق کے لئے محبوب کو بھلانا ممکن نہیں۔
تشریح
میر تقی میر زیرِ نظر شعر میں عشق کی بے چینی کا نذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبت میں محبوب کی ذات سے ایک عجیب تعلق اور لگاﺅ پیدا ہو جاتا ہے اور عاشق اس کا نام سنتے ہی بے تاب ہو جات اہے۔ میر اپنے محبوب کے بارے میں کہتے ہیں کہ تیری نام کے ساتھ جو احساسِ بے وفائی کا غم ہے، تیرا تصور اضطراب کن ہے۔ اب اگرچہ ہمارا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں مگر جب بھی کوئی ہمارے سامنے تیرا نام لیتا ہے تو ہمیں ماضی مےن تجھ سے تعلق اور تیرے ظلم و ستم سبھی کچھ یاد آ جاتے ہیں اور ہمارا دل اس قدر تڑپتا ہے کہ جیسا سینے سے باہر آ جائے گا اور اس لمحے ہم اپنے آپ کو سنبھالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں
شعرنمبر ۲
قسم جو کھائیے تو طالعِ زُلیخا کی
عزیزِ مصر کا بھی صاحب ایک غلام لیا
مرکزی خیال
شاعر زلیخا کی خوش قسمتی بیان کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس کی خوش نصیبی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے حُسنِ تلمیح سے کام لیتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کے مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نہایت حسین و جمیل تھے۔ آپ سے حسد کی وجہ سے آپ کے بھائی آپ کو جنگل میں ایک کنویں میں پھینک آتے ہیں ۔ وہاں سے گزرنے والا ایک قافلہ آپ کو کنویں سے نکال کر غلام بنا لیتا ہے اور مصر کے بازاروں میں خرید و فروخت کے لئے لے جاتا ہیں۔ وہاں کا ایک عزیز اُس غلام کو اپنی بیوی زلیخا کے لئے خرید لیتا ہے تاکہ گھر کے کام کاج میں اُس کی مدد کرے۔ زلیخا جو ایک قابلِ مذمت کردار کی مالکہ تھی حضرت یوسف علیہ السلام میں دلچسپی لینے لگتی ہے اور اُنہیںدعوتِ گناہ قبول نہ کرنے کے جرم میںجیل میں قید کروا دیتی ہے۔ جب یہ مسئلہ عزیزِ مصر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاکیزہ کردار سے بہت متاثر ہوتا ہے اور اُنہیں اپنے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔
شاعر اس واقعہ کی روشنی میں زُلیخا کی قسمت کوقابلِ رشک اور بلند کہہ رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زُلیخا وہ خوش قسمت عورت ہے جس کے گھر آنے والا ایک غلام بادشاہت کے بلند ترین منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور زلیخا کو ہمیشہ کے لئے اُن کی قربت حاصل ہو جاتی ہے۔ زلیخا کے نصیب سے متاثر ہو کر شاعر کہتا کہ محبوب کا حصول ہی سب سے اچھی قسمت ہے۔ اس لئے اگر قسم کھانی ہو تو ہمیں عزیزِ مصر کی بیوی کی کھانی چاہئے جس کے بخت کی بدولت اُسے حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جمیل انسان کا حصول ہوا
مماثل شعر
کیا خوش بختی ہے زلیخا کی کیا زور ہے اُس کی قسمت کا
کل اُس نے خریدا تھا جس کو وہ آج ہے شامل شاہوں میں
شعر نمبر ۳
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانے
نگاہِ مست نے ساقی کا انتقام لیا
مرکزی خیال
اس شعر میں میر اپنے محبوب کے حسن کی سحر انگیزی بیان کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں میر نے اپنے محبوب کو ساقی سے تشبیہ دی ہے کہ جب لوگ مفتی تھے تو مسجدیں آباد ہوا کرتی تھیں اور مے خانے ویران۔ مسجدوں کی رونق دیکھ کر ساقی جلتا تھا۔ اس نے بناﺅ سنگھار کر کے اپنی مخمور آنکھوں کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی تو لوگ مے خانوں کا رخ کرنے لگے۔ بقول شاعر
لوگ بڑھ بڑھ کر جام پیتے رہے
اور ہم ساقی کی آنکھوں کا مزہ لیتے رہے
میر فرماتے ہیں کہ بالکل اسی طرح ہمارے محبوب نے بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بناﺅ سنگھار کیا اور لوگوں پر اپنے حسن کی بجلیاں گرائیں۔ نتیجتاً اس کے سحر انگیز حسن اور نشیلی آنکھوں کا جام پینے والے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ عابد تک رند بن گئے، مساجد ویران ہونے لگیں اور سست نگاہوں کی لٹیروں سے کوئی بھی اپنا دامن نہ بچا سکا۔ ہمارے محبوب کی نگاہوں کا جام پینے والا کبھی ہوش کا دعویٰ نہیں کر سکتا
شعر نمبر ۴
وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے اُن نے مرا سلام لیا
مرکزی خیال
اس شعر میں میر اپنے محبوب کے طرزِ تغافل کا تزکرہ کر رہے ہیں۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ اے مرے محبوب! میں تری محبت میں ایک زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا ہوں لیکن تجھ کو رحم و محبت کا واسطہ نہیں۔ تو نے بڑی بے رحمی سے میرے تڑپنے کا منظر دیکھا اور اب تو میں فراق کی صعوبتیں سہہ سہہ کر نڈھال ہو چکا ہوں۔ تیری ان جفا کاریوں کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم تیری جدائی کا ناسور لئے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جائیں گے اور تیرے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہو گا۔ اور لوگ تجھے ہماری موت کا سبب جانیں گے
شعر نمبر ۵
مزا دکھاویں گے بے رحمی کا تیری صّیاد
گر اضطرابِ اسیری نے زیرِ دام لیا
مرکزی خیال
مظلوم ایک حد تک ظلم و ستم برداشت کرتا ہے۔ اِس کے بعد وہ اپنے افعال ، حرکات و سکنات سے ظالم کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔
تشریح
شاعر نے اس شعر میں تمثیلی اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک مظلوم اور بے کس پرندہ ظاہرکیا ہے جوشکاری کی قید میں ظلم و جبر کا نشانہ بن رہا ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے ہمکلام ہو کر کہتا ہے کہ ہم تیری محبت کے پنجرے میں قید ہیں اور تو ہم پر مسلسل ستم ڈھا رہا ہے۔ وہ مخاطب کرتا ہے کہ اے صّیاد! تو نے ہم پر بہت ستم کر لئے اور ہم کو بہت جبر کا نشانہ بنا لیا۔ تو ایک بے رحم اور بے حس شخص ہے جو ہم پر نہایت بے دردی سے اپنے حربے آزما رہا ہے۔ شاید تجھ کو اس بات کا احساس نہیں کہ اگر ہماری مظلومیت اور تیرے تکلیف دہ افعال برداشت کی حد پار کر گئے تو ہم تجھ کو تیری اِن ظالمانہ حرکتوں کو خوب مزہ چکھائیں گے اور تجھ سے اپنی بے کسی کا بدلہ لیں گے۔ اگرچہ ہم قید ہیں لیکن ہم کو صیاد سے بدلہ لینا آتا ہے۔ ہم خود ہی اپنے جسم سے روح کو علیحدٰہ کر دیں گے اور تجھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے چینی، بے قراری اور اضطراب کے بھنور میں پھنسا جائیں گے۔ تو ہم کو یاد کر کر کے اپنے دل کو تڑپائے گا اور تاموت خلش اور اذیت سے دوچار رہے گا۔ اِس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہم پر ظلم و ستم اتنا کر جتنا تو برداشت کر سکیں ورنہ اِس کا انجام دونوں کے حق میں بہت برا ہو گا۔
اس شعر میں شاعر نے ایک خوبصورت حقیقت بیان کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب جب اپنے چاہنے والے کا بہت کرخت اور مشکل امتحان لیتا ہے تو وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا اور محبوب سے دور ہو جاتا ہے۔آخر کار محبوب اس کی یاد میں ہمیشہ بے قرار اور مضطرب رہتا ہے
مماثل شعر
حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر جو تدارک پذیر ہو
شعر نمبر ۶
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تشریح
عشق میں رنج و غم، حسرت و یاس، ناکامیوں اور محرومیوں سے سابقہ رہتا ہے۔ عاشق ابتداءمیں صبر و ضبط سے کام لیتا ہے لیکن بالاخر صبر و تحمل کھو بیٹھتا ہے، دیوانہ ہو جاتا ہے، شائستگی جاتی رہتی ہے، ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے جس سے محبوب بدنام ہو جائے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے اس کے بر عکس بڑے سلیقے اور شائستگی سے عاشقی میں زندگی بسر کر دی۔ محبوب کے ظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اس راہ کی ناکامیوں اور محرومیوں سے واسطہ رہا مگر اس کا اظہار نہیں ہونے دیااور نہایت شائستہ اور مہذب انداز مےں زندگی گزار دی کہ نہ تو محبت بدنام ہوئی نہ ترکِ محبت کا خیال دامن گیر ہوا
شعر نمبر ۷
اگرچہ گوشہ گُزیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
تشریح
ہر انسان فطرتاً شہرت پسند واقع ہوا ہے۔ اس میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا جزبہ ضرور ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کی طبعتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو مواقع بھی میسر ہوتے ہیںلیکن اس کے بعد بھی وہ شہرت کو پسند نہیں کرتے اور خاموشی سے زندگی گزار دیتے ہیں۔ میر صاحب کہتے ہیں کہ عام شعراءکے برعکس شہرت کا خواہاں نہیں بلکہ گوشہ نشینی میں رہنے والا انسان ہوں۔ اپنے آپ کو نمایاں نہیں کرتا لیکن کیا کروں کہ میرے اشعار نے مجھے ایسی شہرت دی جو دوسروں کو نصیب نہ ہوئی۔ میں نے اپنے اشعار میں رنج و الم کا اظہار اس شدت سے کیا ہے کہ ہر سننے والا متاثر ہوتا ہے اور میری طرف متوجہ بھی۔ میرے دکھی دل کی پکار روئے زمیں پر پھیل گئی اور یہی میری شہرت کا باعث ہوئی ، ورنہ میں تو گوشہ نشین انسان تھا

No comments:

Post a Comment