Pages

Tuesday, September 11, 2012

Class XI, Urdu, "خواجہ حیدر علی آتش"

خواجہ حیدر علی آتش

ایک تعارف
کھینچ دیتا ہے شبیہ شعر کا خاکہ خیال
فکر رنگیں کام اس پہ کرتی ہے پرواز کا
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری کام ہے آتش مرصع ساز کا
آتش کی شاعری لکھنوی اور دہلوی مزاج کا خوبصورت امتزاج ہے جس میں حقیقی عاشقانہ تجربات کا اظہار‘ اندازِ بیان کی بے ساختگی‘ آرائش حسن‘ تخیل کی بے جا بلند پروازی اور اپنے عہد کی سطحی زندگی کا احساس نمایاں ہے۔ بانکپن‘ قلندری اور رجائیت آتش کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے۔ آتش کے کلام کی نمایاں خوبی ان کی تحریکِ اصلاح بیان ہے۔ جدید تشبیہات اور استعارات نے ان کی شاعری کا صفِ اول کا مقام عطا کیا ہے۔ ان کے اسُار اردو شاعری میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔
آتش کے محاسنِ کلام
آتش کے محاسنِ کلام ذیل میں درج ہیں۔
(۱) جذبات نگاری
آتش کی شاعری صرف خدوخال کی شاعری نہیں۔ انہوں نے جذبات اور احساسات کو نہایت موثر اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ آتش نے خیال و بیان اور جذبے کو بڑی خوبی اور سلیقے سے ہم آہنگ کرکے اپنی غزل کو سنوارا ہے۔ مثال کے طور پر
سن تو یہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا نائیانہ کیا
تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
رہی ہے ایک تصویرِ خیالی روبرو برسوں
آئے بھی لوگ‘ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جہاں یہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
(۲) قلندریت
آتش کسی بھی طرح مصلح یا واعظ نہیں۔ لیکن طبیعت میں بے نیازی کی وجہ سے تصوف اور اخلاقیات کے مضامین بھی ان کی شاعری میں شامل ہوگئے ہیں۔ آتش نے قلبی واردات کو تصوف کی چاشنی دے کر اپنی قلندیت کے سانچے میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ہر لفظ اپنی جگہ انگوٹھی میں نگینہ ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
ظہورِ آدمِ خاکی سے یہ ہم کو یقین آیا
تماشہ انجمن کا دیکھنے خلوت نشیں آیا

بازارِ دہر میں تیری منزل کہاں نہ تھی
یوسف نہ جس میں ہو ایسی دکان نہ تھی
(۳) تصورِ حسن و عشق
آتش کے کلام کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا تصورِ حسن و عشق ہے۔ ان کے عاشقانہ تتجربات اور احساسات میں سحائی اور واقعیت کا اظہار ہوتا ہے۔ آتش کے کا کلام میں لکھنوی رحجانات کے برعکس پاکیزگی اور معصومیت پائی جاتی ہے۔ وہ وارداتِ عشق کو نہایت سادہ اور روز مرہ کی زبان میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً
روٹھ کر ملنے جو جاتا ہوں تو کہتا ہے وہ شوخ
کل خفا تم تھے‘ مزاج آج ہے ناساز اپنا
کہتا ہے وہ شوخ آئینے میں عکس سے آتش
تم ہم سے زیادہ ہو تو ہم تم سے زیادہ
حسنِ پری ایک جلوہ و ستانہ ہے اس کا
ہوشیار وہی ہے جو دیوانہ ہے اس کا
(۴) بے ثباتی حیات
غمِ آتش کا محرک نہ تو محبوب کی بے رخی ہے اور نہ ہی عشق میں ناکامی بلکہ غم کا یہ احساس موت کے شدید احساس کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان کی غزل میں ایک بے ثباتی حیات کا احساس مختلف روپ میں میں ہوتا ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے
(۵) ندرتِ خیال
آتش بلندخیال اور رنگین فکر شاعر ہیں۔ آتش نے اپنے کلام مین نئے نئے مضامین باندھے ہےں۔ ان کے خیالات میں بلندی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر
مرا دیوان ہے اے اتش خزانہ
ہر ایک بہت اس میں ہے گنچ معانی
تازگی فکر کی کبھی نہ گئی
جب سنائی نئی سنائی بات
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
(۶) نشاطیہ انداز
آتش کی شاعری میں نہ شدید غم ہے اور نہ لکھنﺅ جیسی خوشی اور مستی۔ ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کی راحت کا احساس ہے۔ مثلاً
بہارِ گلستاں کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغیاں کیے کیں
ہوائے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
(۷) برجستگی اور بے ساختگی
آتش کا اسلوب نہایت بے تکلف اور بے ساختہ ہے۔ برجستگی اور بے ساختگی آتش کی غز ل کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر مصرعے اور اشعار زبان زدِ عام ہوگئے ہیں۔عکسِ کلام
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خون نہ نکلا
بیان خواب کی طرح جو کررہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
(۸) تشبیہات و استعارات
آتش نے فارسی کے روایتی انداز کو ترک کرتے ہوئے جدید تشبیہات و استعارات سے اردو غزل کا دامن بھرا ہے۔ وہ شاعری کو ظاہری حسن عطا کرنے کےلئے خیالی اور روایتی تشبیہات کا سہارا نہیں لیتے بلکہ عام مشاہدات سے اپنی تشبیہات خود وضع کرتے ہیں اور جانے پہچانے مناظر کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر
کسی نے مول نہ پوچھا دلِ شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
نگاہِ یار کی پھرتے ہی ہم سے اے آتش
زمانہ پھر گیا چلنے لگی ہوا الٹی
مغرور نہ ہو حسن و جوانی پہ اے آدمی
پیری نے آسمان کی کمر کو جھکادیا
(۹) ندرتِ زبان و خیال
آتش نے ناسخ کی اصلاحِ بیان کی تحریک کے الزامات بھی قبول کیں لیکن انہوں نے اپنے ذوقِ سلیم کی رہمائی میں ایسی زبان اختیار کی جسے لوگوں میں قبولِ عام کا درجہ حاصل ہوا۔ ان کے درجنوں مصرعے اور اشعار ضرب المثل بن گئے۔
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
بس ہوچکی نماز مصلا اٹھائیے
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
معروف تنقید نگاروں کی آراہ
تاریخِ اردو ادب کے مصنف رام بابو سکسینہ کہتے ہیں:
میر و غالب کے بعد اگر کسی کا مرتبہ ہے تو وہ آتش ہے۔
بقول مولانا محمد حسین آزاد:
جس طرح لوگ باتیں کرتے ہیں اس طرح انہوں نے شعر کہہ دیے ہیں۔
ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کہتے ہیں:
آتش غزل کے مطالعے سے ہی اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

No comments:

Post a Comment