Pages

Wednesday, September 12, 2012

Class XI, Islamiat, "مساوات"

مساوات

مساوات کا مفہوم
مساوات کے لفظی معنی برابری کے ہےں لیکن اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں نکلتا کہ تمام افراد کو اعلی اور ادنی خدمات کا ایک ہی معاوضہ دیا جائے بلکہ شریعت کے حکم کے مطابق لوگوں سے موقع کے حصول میں مساوات بڑھتی جائے۔
مساوات کی اقسام
مساوات کی دو اقسام قابلَ غور ہیں:
(۱) قانونی مساوات
(۲) معاشرتی مساوات
(۱) قانونی مساوات
قانونی مساوات سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص مفلس ہو یا خوشحال، کالا ہو یا گورا، عالم ہو یا جاہل قانون سے بالا تر نہیں۔ اگر اس سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو اس کی حیثیت اور دولت کے بناءپر کوئی رعایت نہ برتی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے مےں ارشاد فرمایا ہی کہ:
کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر سوائے تقوی کے۔
(۲) معاشرتی مساوات
معاشرتی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں کسی کو اولیت حاصل نہیں ہے بزرگی اور عظمت کا معیار صرف تقوی ہے۔
بے شک خدا کے نزدیک سب سے زیادہ تم میں عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوی والا ہے۔
بقول شاعر
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اسوة رسول اور مساوات
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں سب برابر تھے امیر، غریب، آقا غلام، صغیر و کبیر سب برابر تھے۔ عربی اور عجمی میں کوئی تفریق نہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ایسی پچاسوں مثالیں مل جائیں گی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا عمل ہر موقع پر مساویانہ رہا۔ حضور کا یہ طریقہ تھا کہ مجلس میں کوئی چیز تقسیم فرماتے تو دائیں جانب سے شروع کرتے بعض اوقات یہ بھی ہوتا کہ دائیں جانب عام لوگ ہوتے اور بائیں جانب معززین بیٹھتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا طریقہ کبھی بھی نہ بدلتے۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مساویانہ رویہ کی مثال
غزوہ بدر میں سواریاں کم تھیں۔ تین افراد کے حصے میں ایک سواری آئی لہذا صحابی باری باری اترتے۔ آپ صلی اللہ علیہ سلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ صحابہ رضہ حاضر ہوتے اور خواہش ظاہر کرتے کہ ہم آپ کے بدلے پیدل چل لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے:
نہ تم مجھ سے زیادہ پیادہ پا نہ میں تم سے کم ثواب کا محتاج ہوں۔
غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی قیدی بن کر آئے۔ چونکہ وہ آپ سے قرابت داری رکھتے تھے اس لئے صحابہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے فدیے کی رقم معاف کردی جائے۔ لیکن آپ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا اور حکم دیا کہ ایک درہم بھی معاف نہ کرو۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری خطبہ دیا اس میں معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی ہے۔
قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے الزام میں گرفتار ہوئی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باتھ کاٹ ڈالنے کا حکم دے دیا۔یہ فیصلہ لوگوں کو گوارہ نہ تھا ان کا خیال تھا کہ اس طرح خاندان کی بدنامی ہے۔ چنانچہ حضرت اسامہ رضہ کو جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا محبت کرتے تھے سفارش کے لئے بھیجا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
اسامہ تم کیا حضورِ خداوندی میں سفارش کرتے ہو۔
اس کے بعد آپ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا:
پچھلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں جب ان میں کوئی معزز آدمی جرم کرتا تو نظر انداز کردیتے اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اس کی سزا دیتے۔ خدا کی قسم اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئیے جاتے۔

No comments:

Post a Comment