Pages

Wednesday, September 12, 2012

Class XI, Islamiat, "جہاد"

جہاد

جہاد کے لفظی معنی
عربی زبان میں جہد کے معنی کوشس اور مشق کے ہیں۔ اسی لفظ سے جہاد نکلا ہے۔
جہاد کے شرعی معنی
مذہبی اصطلاح میں جہاد دین کی سربلندی ، ملت کا دفاع اور نیکی کی اشاعت کے لئے کوشش اور اسلام کی راہ میں روکنے والوں کے خلاف مسلح جنگ کا نام ہے۔ جو شخص خدا کا کلمہ بلند کرنے کے لئے مال سے زبان سے یا قلم سے اور ہاتھ پاوں سے کوشش کرتا ہے۔ وہ بھی جہاد ہی ہے۔ مگر خاص طور پر جہاد کا لفظ اس جنگ کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو تمام دنیاوی اعراض سے پاک ہوکرمحض خدا کی رضا کے لئے اسلام کے دشمنوں سے کیا جائے۔
جہاد کی اقسام
(۱) جہاد بالنفس
انسان کو اطاعت الہی سے روکنے والی پہلی چےز انسان کی اپنی خواہشات ہیں۔ جوہر وقت اس کے دل مےں موجزن رہتی ہیں۔ انسان کو ان کی سوکوبی کے لئے ہروقت چوکنا رہنا چاہئے۔ لہذا خواہشاتِ نفس کے خلاف جہاد کو نبی نے جہادِ اکبر کا نام دیا ہے۔ اور یہ جہاد کا وہ مرحلہ ہے جسے طے کرکئے بغیر انسان جہاد کے کسی اور میدان میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
(۲) شیطان کے خلاف جہاد
اپنے نفس پر قابو پانے کے بعد ان شیطانوں سے نمٹنا ضروری ہے جو اللہ کے بندوں کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے بہلا کر اپنی اطاعت اور بندگی پر مجبور کرتے ہیں۔ قرآن حکیم اس قسم کی ہر قوت کو طاغوت کا نام دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
جو لوگ ایمان والے ہیں اللہ کی راہ میں اور جو کافر ہیں سو لڑتے ہیں۔ شیطان کی راہ میں۔
(۳) جہاد بالمال
جہاد بالمال سے کیا مراد ہے کہ جوشخص استطاعت رکھتا ہو اور اس کی مالی حالت بہتر ہو تو وہ مال کے ذریعے تبلیغِ دین اور دشمنوں کے خلاف ملک و ملت کی حفاظت کے لئے مال صرف کرکے جہاد میں حصہ دار بن سکتا ہی اور اجر حاص کرسکتا ہے۔
اے ایمان والوں کہو تو میں تمہیں ایسی تجارت بتادوں جو تم کو درد ناک عذاب سے نجات دلاسکے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاو اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ مےں جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اگر تم جانتے ہو۔
(۴) جہاد بالعلم
اس سے مراد وہ جہاد اور ہردرجہ کوشش ہے جو باطل عقیدوں اور غیر الہی قانون اور ظلم و جبر کے مقابلے پر کلمہ حق کہہ کر کیا جائے اور عملی دلیلوں کے ذریعے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے بلاخوف و خطر کی جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سب سے بڑا جہاد حق بات ظلم اور سرکش حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔
(۵) جہاد بالسیف
اس سے مراد وہ مسلح جدوجہد ہے جو مسلمانوں کے ملک کے خلاف دشمنِ اسلام کے حملے کے وقت ان کی حفاظت جان و مال اور تحفظِ ناموس کے لئے ہتھیاروں سے کی جائے۔ جب مسلمانوں کا حکم اسلام کے دشمنوں کے خلاف مقابلے کے لئے بلانے یا اعلان کرلے تو مسلمانوں پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس میں شریک ہو اور دشمن کا مقابلہ مسلح ہوکر کریں۔ اسکی اتنی اہم فرضیت ہی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر ممکن ہوتا تو مےں دشمنوں کے مقابلے پر جنگ کرتے ہوئے شہید ہوتا اور پھر چلتا کہ دوبارہ زندہ کیا جاوں اور راہِ خدا میں دوبارہ شہید کیا جاوں۔
اس جہاد میں شریک ہوکر راہِ خدا میں جان دینے والوں کے لئے قرآن میں ارشاد ہے:
ان لوگوں کو جو راہِ خدا میں قتل کئے جائیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔
جہاد کی فضیلت
اسلام مےں جہاد کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی فضیلت کا بہت ذکر ملتا ہے مثلاً:
دائمی اور ابدی زندگی
اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کو دائمی اور ابدی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ اور اسے مردہ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
اور اللہ کی راہ میں جو شہید ہوں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہےں لیکن تمہیں اس بات کا شعورنہیں۔
ایک اور جگہ فرمایا:
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں۔ اپنے رب کے ہاں رزق دیئے جاتے ہیں۔
جہاد کرنے والے ایمان میں صادق ہیں
اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:
مومن تووہ ہیں جو اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جاہد کیا اپنے اموال اور اپنی جانوں سے یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
جنت کا وعدہ
اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
بے شک اللہ مومنوں سے ان کی جانیں اور مال کے عوض خرید لئے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں وہ دشمن کو قتل کرتے ہیں اور خود قتل ہوجاتے ہیں یہ اللہ کے ذمے تورات، انجیل اور قرآن میں برحق وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے اس عہد کو پورا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ پس تم اپنے اس سودے پر خوش ہوجاو تم نے جو اللہ سے کیا ہے۔ یہی عظیم کامیابی ہے۔
اللہ کے ہاں عظیم ترین درجہ
جہاد فی سبیل اللہ کرنے والوں کا اللہ کے ہاں عظیم ترین درجہ ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
اللہ کے ہاں تو انہیں لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا۔ وہی لوگ کامیاب ہیں۔
اللہ ان سے محبت کرتا ہے
جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ قرآن مےںارشاد ہے کہ:
اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بینہ ہو کر لڑتے ہیں تویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
ضرورت و اہمیت
قیامِ امن کے لئے جہاد ضروری ہے
دنیا میں امن کے قیام کے لئے جہاد ضروری ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:
اور اگر اللہ کا بعض (لوگوں) کو بعض کے ذریعے ہٹادینا ہو تو زمین مےں بگاڑ ہوجاتا لیکن اللہ جہانوں پر فعل کرنے والا ہے۔
جہاد فرض کفایہ ہے
اگر ضرورت پڑے تو ملت کے لئے جہاد کرنا فرض کفایہ ہے۔ یعنی اگر ان میں سے ضرورت کے مطابق کچھ لوگ جہاد نہ کریں گے تو سب گہنگاروں میں شامل ہوجائےں گے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اگر چہ وہ تمہیں ناپسند ہے اور ممکن ہے کہ تم ایک چےز کو ناپسند کرو اور تمہارے لئے بہتر ہو۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اور اس کی راہ میں جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔
دشمن اہلِ اسلام کو ظلم کا نشانہ بنائے
مظلوم مسلمان کی مدد کے لئے جہاد کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہےں لڑتے جو کمزور کرکے دیا کئے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔
دشمن فتنہ و فساد پھیلائے
اگر دشمن فتنہ و فساد پھیلائے تو فتنے کو دور کرنے کے لئے جنگ کا حکم ہے۔
تم ان سے لڑتے رہو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے۔

No comments:

Post a Comment