Pages

Tuesday, September 11, 2012

Class XI, Islamiat, "عقیدہ رسالت"

عقیدہ رسالت

رسالت کا مفہوم
اللہ تعالی کی بندگی اور اطاعت کا نام آتے ہی فطری طور پر اللہ تعالی کے احکام اور رضا کا سوال سامنے آکھڑا ہوجاتا ہی۔ کیونکہ جب بھی ایک انسان اپنے پروردگار کا اطاعت گزار بن کر رہنے کا فیصلہ کرے گا تو وہ جاننا چاہے گا کہ اس کے مالک کے احکام کیا ہےں۔ وہ کن باتوں کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اس کا وفادار رہنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے۔ ان ساری باتوں کو جانے بغیر اطاعتِ الہی کی راہ میں پہلا قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس صورت حال کا واضح مطالبہ یہ تھا کہ اس معاملے میں انسان کو بھٹکنے کے لئے چھوڑنے کے بجائے اس کی رہنمائی کی جاتی کیونکہ اس کی فکری اور روحانی قوتوں میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ مرتبات معلوم کرلیتے حالانکہ انسان کو اس بات کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پانی، ہوا اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک طرف تویہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت تھی اور دوسری اللہ کا عدل اس کی رحمت اور اس کی ہرصفت کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ انسان کو یوں بھٹکنے کے لئے نہ چھوڑ دے بلکہ وہ انسان کے لئے اخلاقی، دینی، سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے انتظام کرے۔ یہی وہ انتظام تھا جسے دین کی اصطلاح میں رسالت کہاجاتا ہے۔
رسول کی خصوصیات
انسان کو جس طرح ہوا اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح الہامِ ہدایت ار انبیاءکی تعلیم کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے انسان (حضرت آدم عہ) کو بھیجا اور اسے منصبِ نبوت سے سرفراز کیا۔ حضرت آدم عہ کے بعد مختلف جہگوں پر مختلف انبیاءکو انسانوں کی ہدایت اور رہمائی پر فائز کیا۔ ان میں حضرت ابراہیم عہ، حضرت موسیٰ عہ، حضرت عیسیٰ عہ، حضرت نوح عہ حضرت اسحق عہ اور حضرت یحیٰ عہ کے نام ہم اچھی طرح مانوس ہیں۔ ان کے علاوہ کئی انبیاءآئے ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔
قرآن مجید میں انبیاءکی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) بشریت
اگر چہ انبیاءکرام روحانی اعتبار سے عام انسانوں سے بہتر تھے اس کے باوجود وہ سب انسان ہی تھے۔ وہ نہ فرشتوں کے گروہ سے تھے اور نہ جنوں کے گروہ سے اس لئے ہر نبی نے ہمیشہ اس بات کا اعلان کیا کہ:
میں تمہاری طرح کا انسان ہوں۔
سورة ابراہیم کی آیت میں وضاحت ہوتی ہے:
بلاشبہ ہم تمہاری طرح انسان ہیں۔
(۲) ویت
ویت کے معنی ہین رسالت کوئی ایسی شے نہیں جو محنت تلاش اور جستجو سے مل جائے بلکہ وہ اللہ کو عطیہ ہے اور اس شخص کو ملتا ہے جسکو وہ مرہمت فرماتا ہے۔ انکی ملنے میں انسانی کوششوں کا دخل نہیں ہوتا۔ سورة انعام میں ارشادِ باری تعالی ہے:
اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اسے اپنی پیغمبری کے لئے سپرد کرنی ہے۔
(۳) تعلیمات من جانب اللہ
پیغمبر دین اور شڑیعت کے نام پر جو کچھ انسانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ وہ ہدایت ریائی کے تابع ہوتے ہےں نہ خود انکی کوئی مرضی ہوتی ہے۔ وہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جسکا انکو حکم دیا جاتا ہے۔
وہ اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ وہی کہتا ہے جو خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
(یعنی) جوکچھ (حکم) رسول تمہیں دے اسے مان لو اور جس (چیز) سے منع کردے اس سے رک جاو۔
(۴) عصمت
نبی معصوم ہوتا ہے اس سے نہ فعال کی غلطیاں ہوتیں ہیں اور نہ اخلاق و اعمال کی لرزشیں جس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کی فکر و بصیرت بھی کامل ہوتی ہے اور اسکی اخلاقی قوت بھی ایک طرف تو وہ احکام الہی کا منشا سمجھنے اور ان سے مزید احکام نکالنے کی بہترین صلاحیتیں رکھتا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنے نفس پر پورا قابو ہوحاصل ہوتا ہے اور اسکی اخلاقی حس اسکا خوفِ خدا اور اسکا اندیشہ آذت اس قدر ترقی یافتہ ہوتے ہیں کہ گناہ کے محرکات سر اٹھا ہی نہیں سکتے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس پر اللہ کی خصوصی نگرانی رہتی ہے اور یہی نگرانی انہیں اخلاق و عمل کی کوتاہیوں سے بچائے رکھتی ہے۔ اور اس طرح اس کا ہر قول اور ہر عمل صحیح ہوتا ہے اور پوری زندگی ایک صاف اور روشن آبگینے کی طرح ہوتی ہے جسے خالق کائنات نے انسانوں کے لئے اس وقت مثالی نمونہ مقرر فرمایا ہے۔
ہر قوم کے لئے نبی
ان باتوں کے علاوہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انبیاءہر قوم پر بھیجے گئے ہیں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
کوئی بھی ایسی قوم نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے والا (رسول) نہ آیا ہو۔
اس کی وجہ ظاہر ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب ایک مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اللہ کی بندگی سب کا فریضہ ہے اور آخرت میں اس فرض کے مطابق ہر ایک سے پوچھ گچھ ہوگی۔
ان تمام انبیاءکو ماننا ہر مسلمان کا فرض ہے اور نہ صرف ماننا بلکہ ان کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔
رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی خصوصیات
حضرت آدم عہ سے نبوت کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ خاتم النبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ختم ہوا۔ اللہ تعالی نے پہلے انبیاءکو علیحدہ علیحدہ کمالات عطا فرمائے تھے۔ نبی آخری زماں کی ذات میں وہ تمام شامل کردئیے۔ رسالتِ محمد بڑی نمایاں خصوصیات رکھتی ہے۔ جن میں سے چند یہ ہیں:
(۱) عمومیت
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آنے والے انبیاءکی نبوت کسی خاص قوم یا ملک کے لئے ہوئی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہے۔ ارشادِ ربانی ہے کہ:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تو کہہ اے لوگوں میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔
(۲) پہلی شریعتوں کا نسخہ
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا۔ اب صرف شریعتِ محمدی پر عمل کیا جائے گا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ:
اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
(۳) کاملیت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی دین کی تکمیل ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دینِ کامل عطا فرمایاگیا جو تمام انسانوں کے لئے کافی ہے۔ اس لئے اب کسی اور دین کی ضرورت نہیں رہی۔ سورة امائدہ میں آتا ہے کہ:
آج میں نے مکمل کردیا تمہارے لئے دین تمہارا اور پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا تمہارے واسطے دینِ اسلام کو۔
(۴) قرآنی آیات
اللہ کے رسول کی ایک صف یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے اہلِ ایمان کو ذندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا۔ یہ ضابطہ حیات نہ صرف مکمل ہے بلکہ انتہائی پراثر بھی ہے۔
آیات قرآنی اپنی اندر وہ اعجاز رکھتی ہے کہ اس کے آگے تمام طاقتیں جھوٹی رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
اگر یہ قرآن پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ زرہ زرہ ہوجاتا۔
یہ کلام ایسا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قرآن کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ پر مخلوق پر۔
(۵) کتاب و دانائی
اللہ نے آپ کو ایک ایسی کتاب عطافرمائی جو رہتی دنیا تک اپنی اصل شکل میں باقی رہے گی۔ اور جس کی کڑوڑوں بندگانِ خدا ہر صبح و شام تلاوت کرتے ہےں۔ اس کی اس شان کی بناءپر اس کا نام قرآن مجید رکھا گیا اور اس کی حفاظت کا خود ذات باری تعالی نے ذمہ لیا۔
بے شک ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
اس میں انسانوں کے لئے ایسی ہدایت سمودی گئی ہیں جو زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر دور میں رہنمائی کرتی رہے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ قرآنی آیات لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور انہیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ یہ ایسی آیات ہیں کہ ان کا مقابلہ دنیا کی کوئی زبان یا لغت نہیں کرسکتی۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے آیات کی تشریح و وضاحت فرمائی۔ آیات کے رموز فرمائے۔ تاکہ لوگ کسی دقت کے بغیر قرآن پر عمل پیرا ہوں۔ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:
ہم نے آپ کو اسلئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ آیات کے مطالب بیان کرسکیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
ختمِ نبوت
ختمِ نبوت کی سب سے پہلی دلیل تو سورةاحزاب کی آیت ہی ہے۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا ذکر ہے لیکن ہمیں بہت سی احادیث اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حدیثِ مبارک ہے کہ:
میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاءکی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کنارے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی اور وہ میں ہوں۔
ایک اور جگہ حدیث مےں ارشاد ہوتا ہے کہ:
میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
ختمِ نبوت دراصل تکمیل اسلام ہی ہے اور جب اللہ نے اپنے دین کی تکمیل کردی تو اس کے نبوت کے سلسلے پر اجتمام کی مہر لگا دی اور ایک جامع مکمل دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک پہنچا کر نبوت کے طویل سلسلے کا اختتام کردیا۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تمہارے لئے اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند فرمایا۔
سورة عمران میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
ہم نے تم کو امت و ضبط بناکر بھیجا تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔
ان آیات کی رو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے نبی کے ذریعے سے اپنے دین کی تکمیل کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت آئندہ تمام نسلوں کے لئے کافی ہے۔ اس کے علاوہ حفاظتِ قرآ کے سلسلے میں جو آیت ہمیں ملتی ہے۔ وہ بھی ختمِ نبوت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
ہم نے ایک ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
ثابت یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے دین کی تکمیل کے بعد اسکی حفاظت کا وعدہ بھی کرلیا تو بعد میں رسالت کی ضرورت باقی نہ رہی۔ لہذا رسالت کے سلسلے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں اور آپ کو یہ لقب قرآن ہی نے دیا ہے۔ لہذا ختم نبوت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور تمہارا اس پر ایمان لازمی ہے اور جوشخص ختمِ نبوت کا اقرار نہیں کرتا اسے شریعت اور ملکی قانون کافر کا درجہ دیتی ہے۔

No comments:

Post a Comment