Pages

Friday, August 24, 2012

Class XI, Urdu, "مولانا محمد حسین آزاد"

مولانا محمد حسین آزاد

ایک تعارف
مولانا آزاد شاعر بھی ہیں مورخ بھی‘ نقاد بھی ہیں اور مضمون نگار بھی۔ لیکن جس چیز نے انہیں شہرت عام اور بقائے دوام بخشا ہے وہ ان کی طرزِ تحریر ہے۔ انہوں نے نثر میں شعری لوازمات کو سمودیا۔ ان کی خوبصورت تشبیہوں‘ لطیف استعارے‘ مقطع اور مسجع عبارت‘ رنگین اور موسیقیت سی لبریز جملے اور اس کے ساتھ ساتھ سادگی اور روانی وہ صفات ہیں جنہوں نے آزاد کو اردو ادب میں ایک بلند اور ممتاز مقام دلایا ہے۔ بقول رام بابو سکسینہ:
آزاد کی نثر مینں بھاشا کی سادگی‘ انگریزی کی صاف گوئی اور فارسی کا حسن موجود ہے۔
آزاد کا شمار اگرچہ سرسید گروپ یعنی اردو کے ارکان خمسہ میں ہوتا ہے مگر ان کا اسلوب نگارش اپنے ہم عصر ادیبوں سے سراسر مختلف اور منفرد ہے ان کے سامنے قدیم اردو کا پر تکلف نمونہ بھی تھا اور غالب اور سرسید کی سادگی اور بے تکلفی کی نثر بھی تھی۔ مگربنی راہ پر چلنا انہوں نے اپنے لئے عار سمجھا اور دونوں راہوں کے سنگم سے ایک نئی راہ نکالی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں جہاں مقطع‘ مسجع اور رنگین عبارتیں نظر آتی ہیں وہاں سادہ اور سلیس ٹکڑوں کی بھی کمی نہیں۔بقول الطاف حسین حالی
تاریخ اس کی جو پوچھے کوئی حالی
کہدو کہ ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا
طرزِ تحریر کی خصوصیات
آزاد کی طرزِ تحریر مندرجہ ذیل خصوصیات کا مجموعہ ہے۔

 عبارت آرائی
آزاد نے نثر میں شاعری کی ہے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے مرصع کار ہیں۔ اس صفت میں کوئی دوسرا ان شریک نہیں وہ اپنی تحریر کو دلہن کی طرح تشبیہ‘ استعارہ اور خوبصورت الفاظ کے زیوروں سے سجاتے ہیں۔ زبان کی نزاکت‘ بیان کی لطافت‘ تشبیہ و استعارہ کی رنگینی جس قدر آزاد کی تحریروں میں قدم قدم پر ملتی ہے دوسرے نثرنگاروں کے یہاں ملنا مشکل ہے۔ وہ اس انداز سے چھوٹے چھوٹے چبھتے ہوئے فقرے تراشتے ہیں کہ ان کو آذر سخن کا لقب زیب دیتا ہے۔ ان کے مضامین اورنگ زیب کی فوجی تیاری اور سومناتھ کی فتح ان کی مرصع کاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ رام بابو سکسینہ:
آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں۔

 تخیل کا رنگ
آزاد کے اسلوب نگارش میں شاعرانہ تخیل اور شاعرانہ انداز کی چمک دمک قدم قدم پر نمایاں ہے۔ وہ اپنی تاریکی اور علمی کتابوں میں پڑھنے والوں کو اس طرح عالمِ تخیل کی سیر کراتے ہیں کہ پڑھنے والا اس رنگین فضا میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ سدا اسی رنگین فضا میں مصروف گل گشت رہے۔ وہ تھکن یا اکتاہٹ کا نام نہیں لیتا۔ ان کی تحریر چاہے وہ تاریخی ہو یا علمی پڑھ کر ذہن پر ایک خوشی اور نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بقول حالی:
آزاد کی نیرنگِ خیال تمثیل نگاری کا نمونہ ہے۔ اس دور میں ہی نہیں بلکہ آنے والے دور میں بھی اس کی تقلید کی جائے گی۔

تمثیل نگاری اور مکالمہ
آزاد کی ایک خوبی تمثیل نگاری اور مکالمہ بھی ہے۔ اپنی تحریروں میں وہ کسی حالت یا چیز کو ذی روح شخص قرار دے کر اس کی صفات و حرکات پیش کرتے ہیں۔ دربارِ اکبری اورآبِ حیات وغیرہ میں تو تمثیلی ٹکڑے کہیں کہیں ملتے ہیں لیکن ان کی تصنیف نیرنگِ خیال پورے طور پر اسی تمثیلی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ دربار اکبری میں لکھتے ہیں:
غفلت نے جب آنکھ کھولی اور ہمت نے اپنے قدم پیچھے ہٹالیے تو حوصلہ مندی نے جمائی لی۔
تمثیل نگاری کی ایک اہم کڑی مکالمہ ہے کبھی تو بے جان چیزیں مجسم ہو کر باتیں شروع کردیتی ہیں اور کہیں وہ خود راوی بن کر فطرت سے محو تکلم نظر آتے ہیں۔ اس تمثیل نگاری اور مکالمے کی وجہ سے اس کی تحریروں میںڈرامائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو قاری کے لئے دلچسپی کا باعث بن جاتی ہے۔بقول ڈاکٹر محی الدین :
آزاد خوش گوئی کیلئے پیدا ہوئے تھے۔ اور خوش گوئی ان کی تحریروں میں قوس و قزح کے سے رنگ بکھیر دیتی ہے۔ ان کی تحریروں میں آبشاروں کاسا ترنم‘ کہساروں کا سا تکلم‘ چاندنی رات کا رنگین تبسم نظر آتا ہے۔ کہیں ہوا کا فراٹا ہے تو کہیں فضا کا سناٹا‘ کہیں غنچوں کی چٹک ہے اور کہیں پھولوں کی مہک‘ کہیں ستاروں کی چمک تو کہیں بجلی کی کڑک‘ کہیں چاند کی تابانی تو کہیں سورج کی درخشانی‘ کہیںرقصِ طاوس ہے تو کہیں صبح کا نکھار اور کہیں شام کا سلونا پن۔ غرضیکہ یہ جذبات کی وہ چاندنی ہے جو ان کی تحریروں میں آنکھ مچولی کھیلتی نظر آتی ہے۔

فن برائے فن
آزاد فن برائے فن کے قائل ہیں۔ سرسید کی مقصدیت سے انہیں کوئی لگاﺅ نہیں۔ قاری کے دل و دماغ کی تسخیر ان کا مطمع نظر ہے اور وہ اس میں کامیاب ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ وہی آزاد ہیں جو جدید اردو شاعری کے بانی ہیں ۔ موضوعاتی نظمیں لکھتے ہیں مگر نثرنگاری میں بالکل رنگ بدل لیتے ہیں۔ الفاظ کے طوطا مینا اڑاتے ہیں اور ہر بات کو تشبیہ اور استعارے کے پردے میں کہتے ہیںاور اسی کو فن گردانتے ہیں۔ بقول پروفیسرمحمد حسین عسکری:
آزاد اپنے معاصرین میں ایک ایسے بزرگ ہیں جو ایک حقیقی ادیب تھے ان کی معاصرین ادب کو کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور ان کی ادیبانہ حیثیت قانونی تھی۔ آزاد کے ہاں شوکت الفاظ‘ خوشنما تراکیب کا حسن و جمال‘ قافیہ کا امتزاج‘ تشبیہات و استعارات کا دلکش انتخاب اور تخےل کی عجوبہ کاریاں اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ آزاد فن کو ہر چیز پر فوقیت دیتے تھے۔

 حکایتی اسلوب
آزاد کے اسلوب کے سلسلے میں ایک قابل ذکر چیز ان کی حکایات ہیں وہ کسی بیان کو مﺅثر اور واضح بنانے کے لئے حکایت کا سہارا لیتے ہیں ۔ حکایت اس چھوٹی کہانی کو کہتے ہیں جس میں حکمت و دانش کی بات کرداروں کے عمل اور زبان سے ظاہر کی جئے۔ اس میں مختصر سا پلاٹ بھی ہوتا ہے جو صرف اشاروں کا درجہ رکھتا ہے۔ اختصار حکایت کا سب سے بڑا وصف ہے جب قصہ حکایت سے بھی مختصر ہوتو اسے نکتہ یا لطیفہ کا نام دیا جاتا ہے اور آزاد اس حکایت اور لطیفہ کے بادشاہ ہیں۔ موضوع تاریخ جیسا خشک ہی کیوں نہ ہو آزاد حکایت اور لطیفہ کے زور سے اسے دلچسپ بنادیتے ہیں۔ دربار اکبری اس کی ایک روشن مثال ہے۔

 طنزو ظرافت
آزاد کی تحریروں میں طنزیہ اور مزاحیہ عنصر بھی نمایاں ہے ۔ مگر آزاد ان طنز نگاروں میں سے ہیں جن کی تحریروں میں طنز کسی کو مجروح کرنے کا ذریعہ نہیں بنتا۔ وہ طنز ملیح کے مالک تھے۔ ان کی طنز سے وہ شخص بھی مزہ لیتا ہے جس پر طنز کیا گیا ہو۔ دراصل ان کی طنز کو ان کی شائستگی اور تہذیب نے زہر ناک ہونے سے بچالیا ہے۔ وہ پرانی شرافت و تہذیب کا مجسمہ تھے وہ پرانی وضعداری کے پرستار تھے اور ان چےزوں کا عکس ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔

مرقع نگاری
مرقع نگاری ایک وقت میں کسی شخص یا چےز کی پوری زندگی کی تصویر ہوتی ہے۔ یہ بڑا جامع فن ہے جس میں تمام ماحول اور فضا کو ایک تصویر میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان کی کتاب’آبِ حیات ہو یا دربار اکبری ‘ قصص ہند ہویا نیرنگِ خیال‘ ہر ایک میں مرقع نگاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔
اپنی تصنیف نیرنگِ خیال کے ایک مضمون شہرتِ عام اور بقائے دوام کا دربار کے ایک اقتباس میں سودا کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان میں ایک شخص دیکھا کہ جب بات کرتاتھا تو اس کے منہ سے رنگارنگ پھول جھڑتے تھے۔ لوگ ساتھ ساتھ دامن پھیلاتے تھے مگر بعض پھولوں میں کانٹے ایسے ہوتے تھے کہ لوگوں کے کپڑے پھٹے جاتے تھے۔

ایجاز و اختصار
آزاد ایجاز و اختصار کے قائل ہیں۔ وہ مختصر سے مختصر لفظوں اور فقروں میں بڑی سے بڑی بات کہنے پر قادر ہیں۔ آبِ حیات میں مختلف شاعروں کے کلام پر کئے گئے تبصرے ان کی تحریر کا نمایاں عکس اور ایجاز اختصار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے چند لفظوں اور چند جملوں میں جو بات کہہ دی ہے اس کی تائید یا تردید میں نقادوں کو صفحوں کے صفحے سیاہ کرنا پڑے۔

مبالغہ آرائی
حکایت و لطیفہ سے دلچسپی اور تخیل سے وابستگی نے ان کے قلم کو مبالغہ آرائی کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے تاریخ نویسی کرتے وقت بھی مبالغہ آرائی کی اور تنقید کرتے وقت بھی۔ نتیجتاً ا ن کی تحریریں ساقط العتبار ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے آبِ حیات میں ہی نہیں دربارِ اکبری میں بھی تخیل کے زور سے ایسی ایسی گلکاریاں کی ہیں کہ بایدو شاید اسی بناءپر وہ ثقہ نقادوں میں ”مردِ تحقیق“ تسلیم نہیں کیے جاتے۔ ُعلامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں:
آزاد اردو معلی کا ہیرو ہے۔ وہ تحقیق کا مردِ میدان نہیں مگر دو چار گپیں بھی ہانک دیتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہیں۔

لب و لہجہ
آزاد کے لہجے میں جذباتی اپیل پائی جاتی ہے۔ وہ رعایتِ لفظی‘ روزمرہ اور محاورے‘ ادبی چٹکلوں اور لطیفوں سے اپنی تحریروں میں شگفتگی اور شوخی اور توانائی پیدا کرتے ہے اور اپنے شگفتہ لہجہ سے قاری کے دل کو مسحور کرلیتے ہیں۔ان کی تحریر اتنی آسان بھی نہیں جتنی سرسید اور حالی کی اور اتنی مشکل بھی نہیں جتنی جتنی سرور کی۔
بقول شاعر
بخشا ہے اس نے نثر میں اک کیفِ نغمگی
رقصاں ہے لفظ لفظ میں اک موجِ زندگی
مختصر جملے
آزاد اپنی تحریروں میں سبک روی اور لطافت پیدا کرنے کے لئے ہلکے پھلکے اور مختصراور خوبصورت جملوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میںاگرچہ پھیلاﺅ ہوتا ہے مگر وہ چھوٹے چھوٹے حسین جملے استعمال کرکے قاری کو ذہنی تھکن سے بچالیتے ہیں۔ بقول علامہ شبلی نعمانی:
الفاظ کا انتخاب‘ لفظوں کی شیرینی‘ محاورات کی صحت‘ اور جابجاتشبیہات اور استعاروں کی گلکاری عبارت میں وہ حسن پیدا کردیتی ہے کہ پڑھتے چلے جائیں اور سیری نہیں ہوتی۔

بیانیہ نثر
مولانا آزاد بیانیہ نثر لکھتے ہیں۔ ان کے بیان میں حکایت کا دلچسپ انداز ہوتا ہے۔ وہ اپنے جادو بھرے اسلوب سے ذہنی طور پر قاری کے بہت قریب ہوجاتے ہےں۔ ان کا یہ بیانیہ انداز اس قدر لطیف‘ رنگین‘ مﺅثر اور رواں ہے کہ قاری ایک ایک لفظ پر چٹخارے لیتا ہے۔” آبِ حیات“ ان کی بیانیہ نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔

حرفِ آخر
مولانا محمد حسین آزاد اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ نظمِ آزاد اس کا ثبوت ہے۔ وہ نقاد تھے۔سخندانِ فارس اور آبِ حیات اس بات کے شاہد ہیں۔ وہ تاریخ نویس تھے۔ قصص ہند اور دربارِ اکبری اس کے گواہ ہیں۔ انہیں کوئی شاعر‘ نقاد‘ تاریخ نویس نہ بھی مانے تو بھی ان کی ابدی اور لازوال شہرت اور حےثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اردو زبان کے متوالوں کے نزدیک وہ صاحب طرز انشاءپرداز تھے۔ بقول مہدی افادی:
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو کچھ نہیں رہتے۔ نذیر بغیر مذہب کے لقمہ نہیں توڑتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد صرف ایک ایسے انشا پرداز ہیں جن کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔

No comments:

Post a Comment