Pages

Thursday, August 23, 2012

Class XI, Urdu, "بائیسکل کی تعلیم"

بائیسکل کی تعلیم

شوکت تھانوی اصل نام محمدعمر ۷۰۹۱ میں بھارت میں پیدا ہوئے اپنے ذاتی شوق سے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ صحافت سے دلچسپی کی بنا پر مشہور اخبار ہمدم‘ ہمت اور سر پنچ سے وابستہ رہے اور سر پنچ نے ہی شوکت تھانوی کو مزاح نگاری کی راہ پر ڈالا۔ ان کے مضامین سودیشی ریل اور سودیشی ڈاک آج بھی بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے مزاح میں بے تکلفی اور بے ساختگی ہے وہ لفظوں اور محاورون کی موزونیت سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ وہ فطرتاً ظریف ہیں ان کے یہاں طنز کم اور مزاح زیادہ ہے وہ نہیں چاہتے کہ قاری غیر ضروری طور پرطنز کا شکار رہے ۔ وہ ایک باغ و بہار شخصےت تھے یہی وجہ ہے کہ وہ بات سے بات پیدا کرنے کے فن سے آگاہ ہیں اور اپنی معلومات اور مشاہدات سے اپنی تحریروں میں نیرنگی پیدا کرتے ہیں۔ ان کی زبان شگفتہ اور سادہ ہوتی ہے ان کی تحریر کی اسی سادگی نے انھیں مقبول عام و خاص بنایا ہے۔ نصاب میں شامل مضمون بائیسکل کی تعلیم ان کا نمائندہ مضمون ہے جس میں شوق‘ عشق کی حدتک چلا جاتا ہے۔
اس مضمون میں نو عمری کی ایک عام سی خواہش اور اس کی تکمیل کیلئے پیش آنے والے واقعات اور مشکلات کو مصنف نے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مضمون نگار کو سائیکل چلانے کا شوق جنون کی حد تک تھا تاکہ اس پر سوار ہوکر وہ سیر و تفریح سے لطف اندوز ہو سکے۔ کم عمری کے باعث شرط رکھی گئی کہ وہ پہلے سائیکل چلانا سیکھ لے تو پھر نئی سائیکل خرید کر دی جاسکتی ہے اسھر یہ اصرار تھا کہ سائیکل ہو تو سیکھا جائے ۔ یہ گفت و شنید جاری تھی کہ حسنِ اتفاق سے ایک دن ایک بزرگ سائیکل پر سوار ہوکر گھر پر ملاقات کیلئے تشریف لائے ایسا موقع تو کبھی کبھی ملتا ہے وہ ملاقات میں مصروف رہے اور مصنف نے سائیکل اٹھائی اور سڑک پر آگئے اب تو سائیکل چلانا ہی تھا جو اس پر چڑھنے کی کوشش کی تو حادثات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
پہلی بار مصنف سائیکل کے فریم میں الجھ کر گر پڑا پھر کوشش کی تو پھر گرپڑا۔ پھر سوار ہوکر کچھ دور چلا تو مگر توازن برقرار نہ رہا اور سائیکل ایک گدھے سے جا ٹکرائی‘ پھر اٹئا ہاتھ پاﺅں جھاڑے اور درخت کے سہارے گدی پر بیٹھا‘ کچھ دور چلاتو پل سے جاٹکرائی اور خود نالے میں گرتے گرتے بچے۔ مگر شوق تو عشق کی حد تک فرواں تھا‘ باز نہ آیا‘ زرا سنبھل کر آگے بڑھا تو سڑک پر گزرنے والی ایک بوڑھی دھوبن سے جا ٹکرایا وہ گالیاں دیتی رہی اور یہ ان کی منت سماجت کرتے رہے بڑی مشکل سے جان چھوٹی۔ اب سوار نہ ہونے کا خیال آیا ہی تھا کہ ہمت کو شناوری مبارک۔ یہ پھر اٹھے اور سائیکل پر جا بےٹھے اتفاقاً ایک بزرگ تسبیح پڑھتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ اب کی دفعہ سائیکل ان سے جا ٹکرائی وہ گرے اور یہ ان کے اوپر تھے وہ بزرگ اپنی سادہ لوحی سے سمجھے کہ شاید یہ موت کا فرشتہ ہے اور اس نے آن دبوچا ہے۔ یہ فوراً اٹھے اور ان سے معذرت کرنے لگے وہ بےچارے خاموش رہے اور صرف گھورتے رہے۔ اب جو مصنف نے سائیکل کا جائزہ لیا تو یہ انکشاف ہواکہ سائیکل کا ہینڈل گھوم کر دوسری جانب چلا گیا ہے اور اس کا زاویہ تبدیل ہو گیا ہے اب اس کو سیدھا کس طرح کیا جائے مصنف اس فن سے ناواقف تھا یعنی ہینڈل سیدھا کرنا مشکل تھا لہذا بائیسکل کی یہ تعلیم نامکمل چھوڑ کر مڑی ہوئی سائیکل لیکر گھر پہنچا اب جو گھر والوں نے اس کے ساتھ سلوک گیا وہ ناقابلِ بیان ہے یعنی پھر اس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔

No comments:

Post a Comment