Pages

Monday, August 27, 2012

Class XI, Urdu, "میر تقی میر غزل 1"

میر تقی میر غزل 1

حوالہ
مندرجہ بالا شعر میر تقی میر کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
میر تقی میر آسمانِ سخن کے درخشاں آفتاب ہیں۔ ان کو اردو غزل گوئی میں خدائے سخن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انسانی احساسات و جذبات کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے اشعار پاکیزگی‘ دلکشی‘ ترنم اور دردمندی کا مجموعہ ہیں۔ وہ اپنے فن میںیکتائے زمانہ ہیں۔ بقول غالب
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
شعرنمبر ۱
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
مرکزی خیال
عشق ایک نہ ختم ہونے والی بیماری ہے جو انسان کو موت کے دہانے پر پہنچا دیتی ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عجیب بے کسی کے ساتھ اپنی داستانِ حیات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم کو ایک نہایت سنگین مرض لاحق ہو گیا۔ زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مرض بڑھتا گیا اور اس کی آثار ظاہر ہونے لگے۔ ہم نے اس مرض کے علاج کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کی اور مختلف دواﺅں سے علاج کیا‘ ہر طرح سے جتن کر ڈالے۔ لیکن عشق کوئی ایسا مرض نہیں ہے کہ اس کا علاج ہو جائے۔ جوں جوں ہم اس کا علاج کرتے رہے اس کی سنگینی بڑھتی گئی‘ دوائیں بے اثر ہو گئیں اور تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ یہ بیماری نا قابلِ برداشت ہو گئی اور اس کی وجہ سے ہم موت کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اس روگ نے ہم سے ہماری زندگی چھین لی اور مرضِ دل کی بدولت ہم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مصرعہ ثانی میں لفظ ’دیکھا‘ ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے شاعر کو یہ اندیشہ پہلے ہی سے تھا۔ وہ اس اندیشہِ جان کا ذکرمحبوب سے پہلے بھی کر چکے تھے۔ اب یقین کے ساتھ محبوب کو جتاتے ہیں کہ دیکھا ! اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
مماثل شعر
مریضِ عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
شعرنمبر ۲
عہدِ جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
مرکزی خیال
پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی دُکھ بھری داستانِ حیات بیان کر رہے ہیں۔
تشریح
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے اپنی حسرت و یاس بھری زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔ جوانی کا دور حیاتِ انسانی کا سنہرہ دور ہوتا ہے۔ یہ امنگوں، آرزوﺅں، خوابوں اور دلکشی و رانائی کی نرم و ملائم جہت ہوتی ہے۔ اِس میں انسان آزاد پنچھی کی مانند عزم و ہمت اور بے فکری کی فضاﺅں میں اُڑتا ہے۔ اِس عہدمیں انسان کے پاس توانائیاں ہوتی ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے قوتیں ہوتی ہیں۔ شاعر کہتا کہ میں اتنا بد نصیب انسان ہوں کہ یہ سنہرا دور بھی آلام و مصائب کی نذرہو گیا اور میں اس دور کی لطافتوں اور قوتوں سے بچھڑ گیا۔ میں نے یہ دور بھی نہایت دکھ درد اور بے چینی کے عالم میں اشک بہاتے ہوئے گزارا ہے۔ اب جب میں عمر کے آخری حصے میں پہنچ گیا ہوں تو میرے پاس اتنی ہمت و امید نہیں ہے کہ میں اپنے بھیانک ماضی کی وحشتیں دیکھ سکوں۔ میں اِس قدر ناتواں اور بے جان ہو گیا ہوں کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ میری زندگی ایک ایسے شخص کی مانند ہے جس کی آنکھیں خمار آلود اورجسم بوجھل صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ رات بھر کسی فکر میں جاگتا رہا ہے۔ اب اُس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ دن اور طلوعِ آفتاب کے مناظر دیکھے۔ اسی لئے وہ خوابیدہ ہو جاتا ہے
مماثل شعر
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاﺅں سوئیں گے کنجِ مزار میں
شعرنمبر ۳
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تُہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنی زندگی کی بے کسی اور مجبوری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر اپنی مجبوری اور بے کسی کی منظر کشی کر رہا ہے۔ شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم ہم سے یہ کیوں کہتے ہو کہ ہم اپنے فیصلوں اور ارادوں میں بااختیار ہیں اور ہر فعل اپنی مرضی اور خوشنودی سے سر انجام دیتے ہیں‘ ہماری زندگی کے لمحات ہمارے اپنے ہیں اور اس کا دارومدار ہمارے ذہن اور ہمارے ارادوں پر ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہم تو بے کس اور مجبور ہیں۔ ہم تو وہی کرتے ہیں جو تم ہم سے کہتے ہو‘ ہمارے تمام اعمال تو تمہاری خواہشات کے مطابق ہیں‘ ہماری عشق کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے اپنی مرضی بالکل ختم کر دی ہے اور ہر کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ تمہاری کیا مرضی ہے‘ تم کس طرح رضامند ہو گے اور ہمیں اپنے چاہنے والوں میں جگہ دو گے۔ اس کے باوجود اگر تم ہمیں اپنے ارادوں میں خود مختار کہتے ہو تو یہ ہم کو بے وجہ بدنام کرنے والی بات ہے اور یہ محض ایک الزام ہے۔
اس شعر کو ہم حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں لے سکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں شاعر نے صوفیائے کرام کا نظریہِ جبر پیش کیا ہے جس کے مطابق انسان اس دنیا میں ایک کٹھ پتلی ہے جو کاتبِ تقدیر کا پابند ہے۔ محبوب کی خوشنودی یا نظریہِ جبر دونوں حوالوں سے انسان ایک ایسی مجبورمخلوق ہے جسے اپنی زندگی پر کسی طرح کا اختیار نہیں ہے۔ اس شعر میں صنعت تضاد پائی جاتی ہے
مماثل شعر
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے یاد نہیں
شعرنمبر ۴
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی دور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
مرکزی خیال
محبوب کی دلی عقیدت و عزت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب سے اس قدر لگاﺅہے اور ہم اس کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ نیم بےہوشی اور مستی کی حالت میں بھی اس کی بے ادبی نہیں کر سکتے اور ہر حال میں اس کا احترام کرتے ہیں۔ چاہے ہم جتنے بھی ہوش و حواس سے عاری ہوں ہم اپنے رفیق کی عزت کرتے ہیں۔ چاہے ہم اس کے نزدیک ہوں یا اس سے کوسوں دور ہوں وہ ہماری عزت و احترام کا مستحق رہتا ہے۔ کبھی اگر ہم نہایت بے خودی کی حالت میں زبان سے کلمات نکال رہے ہوں تب بھی ہمارے ذہن میں یہ بات نقش ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں سے بڑھ کر ہمارا محبوب لائقِ احترام ہے۔ اس شعر میں جس کیفیت کا تذکرہ کیا گیا ہے وو عشق کی معراج ہے
شعرنمبر ۵
یاں کے سپیدوسیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
مرکزی خیال
شاعر اپنی زندگی کی بے بسی، لاچاری اورمجبوری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ میں ایک بے اختیار اور بے بس انسان ہوں۔ میری بے چارگی کی حد یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں مجبور ہوںاور میری مرضی کوئی اور تشکیل دیتا ہے۔ اس بے کس زندگی کے کسی بھی معاملے میں میرا دخل نہیں ہے اور میں سب کچھ اپنی مرضی کے خلاف کرتا ہوں۔ میری اختیارہے تو صرف اِس حد تک کہ میں دن کو بے قراری میں گزار دیتا ہوں اور رات کو چند آنسو بہا کر صبح دیکھ لیتا ہوں۔ میری زندگی ایک ایسے پنچھی کی مانند ہے جو پنجرے سے آزاد فضا میں اُڑنا چاہتا ہو لیکن ہر کوشش اُس کے لئے تکلیف کا سبب بنتی ہو۔ میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔ میں اس میں فیض، سکون، راحت اور نشاط کے موتی چمکانا چاہتا ہوں لیکن کہیں بھی میری مرضی نہیں چلتی۔ میرے مقدر میں یہ نہیں لکھا کہ میں اپنے حالات تبدیل کر سکوں اور اپنی سوچوں کی بے چینی تبدیل کر سکوں ۔ میں اپنی ذات پر جتنا اختیار رکھتا ہوں اُسی کو استعمال کرتا ہوں – رات بھر بے قراری میں آنسو بہا کر وقت گزار لیتا ہوں اور دن میں مصیبتیں جھیل کر اپنی روح کو تسکین پہنچا لیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوںکہ میری اِس دنیا میں ناکامی و نامرادی کا کوئی صحرا نہ ہو لیکن یہ سماج اور معاشرہ میری خواہشات کا احترام نہیں کرتا ۔ میں جبرِ فطرت کو پیروکار بنا ہوا ہوں اور یہ دردوالم بھری زندگی لاچاری اور مجبوری میں بسر کر رہا ہوں
مماثل شعر
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
شعر نمبر ۶
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
مرکزی خیال
اس شعر میں میر اپنے محبوب کی اُن سے بیزاری کا تذکرہ کر رہا ہے۔
تشریح
محبوب کی فطرت میں کرم کے بجائے بے رخی اور بے نیازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے عاشق پر کبھی نظر عنایت نہیں کرتا۔ اگر کبھی التفات کرتا بھی ہے تو رقیب پر اس لئے نہیں کہ اسے رقیب سے محبت ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے عاشق کو مزید تکلیف پہنچائے۔ یہاں شاعر نے محبوب کو آہوئے رم خوردہ سے استفادہ کیا ہے جس طرح ہرن انسان کو دیکھ کر چوکڑیاں بھرتا ہوا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جب ہماری نظر محبوب سے ملتی ہے تو وہ ہم سے فوراً ہی نظریں چرا کر گزر جانا چاہتا ہے۔ اس کی ہم سے بیزارگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی کترا کر گزر جاتا ہے۔ اور ہمیں اتنا عکس بھی نہیں دیتا کہ ہم اس کا حسین عکس اپنی آنکھوں میں سمو سکیں۔ جبکہ وہ ہمارے رقیب پر نظر و التفات کی بارشیں کرتا ہے اور ہم یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ اس وحشت زدہ ہرنی پر ہمارے سامنے ایک لمحہ بھی ٹھیرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہماری لاکھ کوشش کے باوجود ہم سے مانوس نہیں۔
میر اپنے رقیبوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واقعی وہ باکمال لوگ ہیں جنہوں نے تجھ کو اپنا اسیر بنا لیا اور ہمیں تو اظہارِ محبت کا سلیقہ تک نہ آیا۔ ہمارا محبوب راستے کے پتھر کی طرح ہمیں ٹھوکر مارتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہر بار ہمارے دل کو ایک نیا زغم دے جاتا ہے

No comments:

Post a Comment