Monday, August 27, 2012

Class XI, Urdu, "مولانا حسرت موہانی غزل 2"

مولانا حسرت موہانی غزل 2

شعر نمبر ۱
نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
تشریح
عشق و محبت کے معاملات بھی بڑے نازک ہوتے ہیں۔ زندگی کا بیشتر حصہ محض آزمائش و امتحان میں ہی گزر جاتا ہے۔ بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ان کے بعد بھی محبوب کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی قربانی قبول ہو جائے اور محبوب کا اعتماد حاصل ہو جائے تو اس سے زیادہ اور کون خوش قسمت ہو سکتا ہے۔ شاعر یہی بات اس شعر میں کہتا ہے۔ ہمارے محبوب کے حسن کی ہمہ گیری کا جہاں تک تعلق ہے ایک عالم اس کا پرستار ہے اور ہر ایک ہی اس سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن ایسے سعادت مند اور خوش نصیب مشکل ہی سے نظر آئیں گے جن پر اُسے اعتماد ہو اور جنہیں وہ اپنی دوستی کا اہل سمجھ کر پانا محرمِ راز بنا لے۔ چنانچہ ایسے لوگ اپنی خوش قسمتی پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ بظاہر شعر میں عشقِ مجازی ہے لیکن حقیقتاً یہ شعر کا تصوف ہے
شعر نمبر ۲
دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کو خدا سلسلہ دراز کرے
تشریح
عشق مےں سب سے بلند مقام جنون کا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد عاشق ہر چیز سے بے نیاز اور صرف اور صرف محبوب کے خیال میں ہمہ وقت مستغرق رہتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں تیری عشق میں مبتلا ہو کر چنون کی حدود میں داخل ہو گیا ہوں۔ اب میں تمام فکروں سے آزاد ہوں، نہ مجھی دنیا کی فکر ہے اور یہ آزادی تیری جنون کے سبب میسر آئی ہے۔ اس لئے میری بارگاہِ رب العزت میں دعا ہے کہ تیرے جنون کے سلسلہ کو اور بڑھائے کہ میں اسی طرح ہر خیال اور ہر تصور سے آزاد صرف اور صرف تیری ہی خیال میں کھویا رہوں۔ یہ شعر مناسبتِ الفاظ، بندش کی چستی اور بے ساختگی کے سبب بہت ہی لطیف ہو گیا ہے۔ پھر مفہوم میں عشقِ حقیقی کا پہلو واضح ہے
شعر نمبر ۳
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
تشریح
عشق کے معاملات میں عقل رہنمائی نہیں کر سکتی۔ عشق جس منزل تک پہنچ سکتا ہے عقل کا وہاں گزر بھی نہیں ہوتا۔ عقل عشق کی بلندی و رفعت کو دیکھ کر محوِ حیرت ہو جاتی ہے۔ اہلِ تصوف عقل و عشق کی اس کیفیت سے خوب واقت ہیں۔ حسرت کے اس شعر میں اس مسئلے کی کچھ نہ کچھ جھلک ضرور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق کے معاملات بھی عجیب ہیں۔ جو چیزیں عام زندگی میں معیارِ خیال کی جاتی ہیں اور جن کا مفہوم مسلمہ اقدار و روایات کے تحت اخذ کیا جاتا ہے عشق میں ان کے معنی و مطالب تک بدل جاتے ہیں۔ عام زندگی میں جو چیزیں معیارِ عقل میں داخل ہو جاتی ہیں عشق میں وہی چیزیں ناسمجھی اور دیوانگی کی حدود میں داخل ہوجاتی ہین۔ عشق و محبت مےں گرفتار ہونا دماغ کا خلل سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے اس سے دامن بچانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن یہ محبوب کی کرشمہ سامانیوں کا نتیجہ ہے کہ عشق و محبت میں جنون کی حدود میں داخل ہونا عقل و دانش کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عشق و محبت میں عقل و خرد سے بیگانگی ہی خرد مندی قرار پائی ہے۔ یہی مفہوم اہلِ تصوف کی زندگی سے منطبق ہوتا ہے۔ یہ شعر بھی بندش، چستی، بے ساختگی اور معنی و مفہوم کے اعتبار سے بہر بلند اور لطیف ہے
مماثل شعر
بے خطر کود پڑا آتش، نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
شعر نمبر ۴
ترے کرم کا سزا وار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
تشریح
جب ہم دعا مانگتے ہیں تو گویا اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی فہرست پیش کر کے نیازمندانہ اس کے قہر و غضب سے پناہ مانگتے ہیں اور اس کے رحم و کرم کو دعوت دیتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ وہ مختارِ کل ہے۔ ہزار گناہوں کے باوجود بھی عفو و درگزر سے کام لے کر سربلند و سرفراز کر سکتا ہے۔ اسی امید پر شاعر اپنے محبوب کے حضور التجا کرتا ہے کہ میری گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ میں نافرمانیوں کے سبب تیری لطف و کرم، عنایتوں اور نوازشون کا مستحق قرار نہیں پاتا۔ مجھی اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ ان گناہوں اور نا فرمانیوں کے باوجود اگر تو مجھ سر بلند و سرفراز کرے، مجھے اپنے رحم و کرم کا مستحق قرار دے دے تو مجھے اس کا پورا پورا اقرار ہے کہ تو مالک و مختارِ کل ہے۔ میں صرف تیرے حضور گناہوں کا اعتراف کر کے رحم و کرم کا طلب گار ہوں۔ آگے تیری مرضی، تو مختار ہے

Class XI, Urdu, "مولانا حسرت موہانی غزل 1"

مولانا حسرت موہانی غزل 1

شعر نمبر ۱
تچھ کو پاسِ وفا ذرا نہ ہوا
ہم سے پھر بھی ترا گلہ نہ ہوا
تشریح
محبوب کی فطرت میں بے وفائی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی حال میں محبت کی قدر نہیں کرتا۔ اس کے مقابلے مےں عاشق کو ہر لمحہ وفا کا پاس رہتا ہے۔ وہ کوئی بات ایسی نہیں کرتا جس سے اس کی وفا پر حرف آئے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے میرے محبوب! تو نے ہماری وفا کا ذرا بھی خیال نہ کیا، ہماری محبت کی بالکل قدر نہیں کی، تو نے ہمیشہ ہمارے ساتھ بے نیازی اور بے رخی کا برتاﺅ کیا اور تیرا یہ طرزِ عمل ایسا تھا کہ ہم اگر اس پر کچھ کہتے تو حق بجانب تھے لیکن ہم نے تجھ سے کچھ شکوہ نہیں کیا کہ یہی محبت کا تقاضا تھا اور یہی وضع داری تھی
شعر نمبر ۲
ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا
تشریح
بگڑنا، خفا ہونا، ظلم و ستم کرنا محبوب کی عادت ہے۔ لیکن تعلق رکھنا مقصود ہوتا ہے تو عادت مےن نرمی رکھنی پڑتی ہے۔ برخلاف اس کے تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے۔ شاعر یہی کہتا ہے کہ ہمارا محبوب ہم پر ظلم و ستم کرتا تھا۔ ہم اسے برداشت کرتے تھے۔ اس صورت میں ہمارا کسی نہ کسی طور محبوب سے تعلق ضرور قائم تھا لیکن اب وہ ہم سے ایسا ناراض ہوا کہ اس نے عادت کے برخلاف ظلم و جور بھی کرنا چھوڑ دیا اور جیسا کہ دشمنی کا حق تھا وہ بھی ادا نہیں کیا۔ ہم تو اس کے طلب و ستم پر خوش تھے کہ ایک نوع کا اس سے تعلق تو قائم ہے۔ اب دشمنی کا بھی تعلق نہیں رہا یہ ہمارے لئے سب سے زیادہ خطرناک بات ہے
شعر نمبر ۳
کٹ گئی احتیاطِ عشق میں عمر
ہم سے اظہارِ مُدعا نہ ہوا
تشریح
عشق میں احتیاط لازم ہے۔ عاشق کی ذرا سی بے احتیاطی سے محبوب کا مزاج برہم ہو سکتا ہے اور ویسے بھے اظہارِ مدعا عشق کی روایت کے خلاف ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ ہم ساری زندگی عشق میں احتیاط سے کام لیتے رہے۔ اس بات سے ڈرتے رہے کہ ہماری بے احتیاطی سے کہیں ہمارا محبوب ہمارا مخالف نہ ہو جائے۔ اس احتیاط کی پیشِ نظر ہم حرفِ مدعا زبان پر نہیں لائے۔ اس طرح ساری زندگی خاموش عشق کرتے رہے
شعر نمبر ۴
مر مٹی ہم تو مٹ گئے سب رنج
یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا
تشریح
تمام دکھ درد، رنج و الم، آرام و آرایش زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ زندگی قائم ہے تو سب ہی چیزوں سے واسطہ ہے اور مرنے کے بعد ہر چیز سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ یہی بات شاعر کہتا ہے کہ عشق میں ایسی تکلیفیں، ایسے مصائب اور رنج و الم سے سابقہ پڑا کہ بالاخر موت سے ہمکنار ہو گئے۔ گویا عشق میں ہم مر مٹے۔ چلو یہ بہت اچھا ہوا۔ اس طرح ہمیں رنج و الم سے چھٹکارا مل گیا۔ زندگی کے تمام دکھ درد سے نجات مل گئی۔ گویا جان کے بدلے میں یہ سودا مہنگا نہیں رہا
شعر نمبر ۵
تم جفاکار تھی کرم نہ کیا
میں وفادار تھا خفا نہ ہوا
تشریح
جفا محبوب کی فطرت اور وفا محبوب کی سرشت ہوتی ہے اور دونوں اپنی سرشت پر قائم رہتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ تمہاری فطرت میں ظلم و ستم کرنا ہے اس لئے تم ہر لمحہ ہم پر ظلم و ستم کرتے رہے اور کبھی ہم پر کسی نے عنوان کرم نہیں کیا۔ اس کے برخلاف ہماری سرشت میں چونکہ وفاداری تھی اس لئے ہم ہر ظلم کو برداشت کرتے ہےن اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ گویا دونوں اپنی اپنی سرشت پر قائم رہے
شعر نمبر ۶
ہجر میں جانِ مضطرب کو سکوں
آپ کی یاد کے سوا نہ ہوا
تشریح
ہجر میں محبوب کی یاد ہی باعثِ تسکین ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ عاشق کے لئے سب سے بڑا غم محبوب سے جدائی کا ہے۔ اس سے بڑا غم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ جدائی میں اگر کوئی سکوں پہنچانے والی چیز تھی تو وہ صرف تیری یاد تھی۔ ہجر کے لمحات میں جب ہمارا دل مضطرب و بے چین ہوتا اس وقت تمہاری یاد ہی سکون کا باعث ہوتی تھی۔ اگر ایک لمہے بھی ہم یاد سے غافل ہو جائیں تو بے چینی اور برھ جاتی
شعر نمبر ۷
رہ گئی تیرے قصرِ عشق کی شرم
میں جو محتاجِ اغنیا نہ ہوا
تشریح
انسانی فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ایک حد تک ہی صبر و ضبط کر سکتا ہے۔ جب معاملات حد سے بڑھ جاتے ہیں تو صبر و ضبط کے تمام بند ٹوٹ جاتے ہیں اور اُس وقت بجز بدنامی کے کچھ نہیں ملتا۔ شاعر کہتا ہے کہ اے میرے محبوب ہم نے تچھ سے عشق کیا، تیری در سے وابسطہ ہوئے اور تو نے ہم پر ظلم کیا۔ ہم بڑی خندہ پیشانی سے تیری ہر ستم اور ہر ظلم کو برداشت کرتے رہے۔ اگر ہم گھبرا اٹھتے اور کسی ایسے کے در سے وابستہ ہو جاتے جس کی عنایتیں اور نوازشیں ضرب المثل ہیں تو اس میں بڑی بدنامی ہوتی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیا ورنہ تیری بدنامی ہوتی اور اس طرح میرے در محبوب کی عزت رہ گئی

Class XI, Urdu, "مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 2"

مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 2

شعر نمبر ۱
سب کہاں، کچھ لالہ و گُل میں نُمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مرکزی خیال
ازل سے آج تک طرح طرح کی خوبیاں رکھنے والے اور بے شمار حسین لوگ مرنے کے بعد مٹی میں مل گئے۔ مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے کارناموں کی بدولت لالہ و گُل بن کر اپنی بہارِ حسن دکھا رہے ہیں۔
تشریح
یہ شعر مرزا غالب کی معنی آفرینی اور جدت خیالی کا ایک خوبصورت اور انوکھا نمونہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات مسلمہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ کوئی اس دنیا میں نہیں آتا۔ لیکن حسن کا جوشِ نمو اور شوقِ نمائش ایک ایسی چیز ہے کہ جو حسن کو دوبارا وجود میں لاتا ہے۔ اور سے لالہ و گُل کی شکل دے کر ایک دفعہ پھر اہلِ نظر کے لئے سامانِ تسکین مہیا کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال تمام اہلِ حسن کے لئے ہے جو کہ زندگی کے اسٹیج پر اپنا اپنا کردار ادا کر کے واپس چل دئے اور دوبارہ اس خاک میں مل گئے۔ جو لوگ گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں اور صرف اپنی ذات کے لئے جیتے ہیں تو مرنے کے بعد اُن کا وجود انکے نام کے ساتھ اجزائے خاک ہو جاتاہے۔ مگر دوسروں کی خاطر جینے والااپنا نام ہمیشہ کےلئے امر کر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوا بھی جو ماضی کے اوراق کو فنا کر دیتی ہے۔ ان کی وجود کو تو خاک میں ملا دیتی ہے مگر اُن کا نام لوگوں کے دلوں میں انمٹ چھوڑ جاتا ہے
مماثل شعر
عجیب یہ تیرا خاک داں ہے اسی کی ہے روشنی جہاں میں
فلک نے اختر بنا لئے چراغِ ہستی بجھا بجھا کر
شعر نمبر ۲
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
اب مگر نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب اپنے ماضی کی فراموشی کا تذکرہ کر رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ جب ہمیں غمِ جاناں کا سامنا نہ تھا تو اُس وقت زندگی بڑی حسین و دلکش تھی، صبر و فکر سے پاک تھی اور ہر لحاظ سے مثالی زندگی تھی۔ وہ زمانے بھی ہمےں یاد ہے جب ہم جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ جب زندگی کا لطف دوبالا ہوا کرتا تھا لیکن جب سے گردشِ زمانہ نے عشق کے مرض میں مبتلا کیا ہے اس سقت سے زندگی کی وہ رنگینی باقی نہیں رہی اور صرف دل کے صنم خانے میں اپنے محبوب کا خوبصورت مجسمہ رکھے اسی کی پرستش کئے جا رہے ہیں۔ محبوب کے عشق نے وہ بے خودی کا عالم کر دیا ہے کہ اس کے سوا کچھ یاد ہی نہیں۔ نہ وہ غافل نہ وہ دوست احباب، پر دنیاوی شہرت اور ہر رشتے کو بھول کر ہم اسی کی زلف کے سائے تلے زندگی بتانا چاہتے ہیں۔ اب تو مئے عشق نے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ اس حسین زندگی کے دھندلکی میں تیری شبیہ بھی ذہن میں رکھ سکوں۔ اس لئے کہ مدہوشی نے ماضی کے ہر عکس کو مٹا دیا ہے
مماثل شعر
ایسا الجھا ہوں غم دنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں
شعر نمبر ۳
سب رقیبیوں سے ہوں ناخوش پر زنانِ مصر سے
ہے زُلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب حضرت یوسف علیہ السلام کے سحر انگیز حسن کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح
زیر نظر شعر اُس واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے احسن القصص سے تعبیر کیا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بہت حسین و خوبصورت تھے۔ انہیں اُن کے بھائیوں نے حسن کی وجہ سے کنویں میں گرا دیا تھا۔ بعد میں قافلے والوں کے ہاتھوں فروخت ہوئے۔ عزیز نے اپنی زوجہ زلیخا کو آپ کی پرورش پر مامور کیا۔ لیکن عہد شباب میں آپ کا حسن لاثانی ہو گیا اور عزیزِ مصر کی بیوی آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر فراق ہو گئی۔ جب اس عشق کا چرچا مصر میں ہوا تو وہاں کو عورتیں زلیخا پر آوازیں کستی تھیں کہ تم ایک غلام پر عاشق ہو گئی ہو۔ تم نے اس میں کیا خوبی، کیا حسن اور کیا رعنائی دیکھی جو دل دے بیٹھی۔ اس طرح کے طنز سے تنگ آکر زلیخا نے ایک روز تمام عورتوں کو جمع کیا۔ اُن کے ہاتھوں میں چھری اور لیموں دے دیا کہ جب یوسف کو دیکھو تو کاٹنا۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایا گیا۔ وہ سب حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال میں ایسی محو ہو گئیں کہ لیمو کاٹنے کے بجائے اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھیں اور کہا کہ یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔
اس واقعے کو پیشِ نظر رکھ کر شاعر کہتا ہے کہ عشق میں یہ بات عام ہے کہ عاشق اپنے رقیبوں سے جلتے ہی۔لیکن عام عادت کے خلاف زلیخا مصر کی عورتوں یعنی رقیبوں سے خوش ہے کہ وہ بھی اُسی طرح یوسف پر عاشق ہو گئیں۔ اس خوشی کا سبب یہ تھا کہ یہ عورتیں زُلیخا کو اب کوئی طعنہ نہیں دیں گی
مماثل شعر
شاعرو، نغمہ گرو، سنگ تراشو دیکھو
اُس سے مل لو تو بتانا کہ حیسں تھا کوئی
شعر نمبر ۴
جوئے خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فِراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
مرکزی خیال
اس شعر مےں غالب اپنے محبوب کی جدائی کے کرب کو بیان کر رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ شبِ فراق محبوب اور اہلِ عشق کے لئے کٹھن پہاڑ کی حیثیت رکھتی ہے جسے بسر کرنا بے حد دشوار ہوتا ہے۔ ہم بھی اپنے محبوب کی جدائی میں بے حد تڑپ رہے ہیں۔ اس سے دوری اور اُس کی جفا کا کرب ہمیں خون کے آنسو رُلاتا ہے۔ ہم اس کے فراق میں اس قدر روتے ہیں کہ ہمارے آنسو خشک ہو چکے ہیں اور آنکھوں سے آپ کی جگہ خون سیل رواں بہہ نکلا ہے۔ محبوب کا فراق بہت بڑی اذیت ہے۔ اور اس اذیت میں مبتلا ہو کر رونا تو ہمارا حق ہے۔ اس لئے ہمیں کوئی نہ روکے کیونکہ یہ رونے والی دو آنکھےںان دو چراغوں کی مانند ہے کہ جو اس کڑی رات میں ہمیں روشنی کا احساس دلاتی ہیں۔ اور یہی دو شمعیں ہمارے محبوب کو بھی اس بات کا اغساس دلائیں گی کہ ہم اس کے عشق میں کس قدر گرفتار ہیں اور اس کے فراق میں کس قدر عقوبت سے گزر رہے ہیں۔
عاشق کے لئے سب سے کٹھن اور تکلیف دہ فراق کی رات ہوتی ہے کہ اس میں محبوب کی یاد بہت ہی زیادہ تڑپانے لگتی ہے۔ اس وقت دردِ عشق سے بے چین ہو کر عاشق آنسو بہانے لگتا ہے
شعر نمبر ۵
میں چمن میں کی گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبل سُن کر مرے نالے غزلخواں ہو گئیں
تشریح
یہ عام قائدہ ہے کہ مکتب میں استاد کی غیر موجودگی میں طلبہ نہیں پڑھتے لیکن جیسے ہی استاد کو آتا دیکھتے ہیں یا اُس کی آواز سن لیتے ہیں تو اور بھی زیادہ جوش و خروش سی اپنا سبق دہرانے لگتے ہیں۔ شاعر نے اسی نفسیات کو پیشِ نظر رکھ کر شعر کہا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا چمن میں جانا تھا کہ ایک مکتب و مدرسہ کا سماں پیدا ہو گیا۔ بلبلیں میرا نالہ سن کر اپنے اپنے نغمے نہایت جوش و خروش سے دہرانے لگیں۔ انہوں نے مجھ سے ہی نالہ و فریاد کرنا سیکھا ہے لیکن میرے نالوں کے مقابلے میں اُن کے نالوں میں درد و اثر کی کیفیت کم ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلبل دلکش آواز سن کر خود بھی نغمہ سرا ہو جاتی ہے۔ میں باغ میں گیا میرے نالے سن کر بلبلیں جوش و مسرت میں غزل سرا ہوگئیں کہ دیکھو ہمارے ہی جیسا نالہ و فریاد کرنے والا آگیا۔ چونکہ میں بھی عاشق ہوں اور بلبل بھی عاشق ہے اس لئے ہم دونوں کی کیفیات ملتی جلتی ہیں۔ میری غزلوں میں وہی کچھ ہے جو اس کے دل کی پکار ہے یا پھر مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہیں کیونکہ دیوانے کو دیکھ کر بچے خوش ہوتے ہیں
شعر نمبر ۶
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
تشریح
خدا واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور خدا کو جو ایک مانتا ہے وہ موحد ہے اور موحد اُن تمام رسوم کو ترک کر دیتا ہے جو ملت و مذہب کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ وہ صرف اور صرف ایک خدائے واحد کی پرستش کرتا ہے۔ یہی بات شاعر کہتا ہے کہ ہم موحد ہیں اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رسوم کو مٹائیں اور ترک کریں کیونکہ جب رسمیں ترک ہوتی ہیں تو تمام مذاہب آپ ہی آپ ختم ہو جائیں گے اور ملتیں مٹ کر افزائے ایمان بنتی جائیں گی۔ مطلب یہ کے مذہب و ملت کی آر میں طرح طرح کی رسمیں اختراع کر کے جزوایمان بنا دی جاتی ہیں۔ اس طرح وحدانیت کا تصور خاک میں مل جاتا ہے جو کہ اصل ایمان ہے۔ لیکن موحدین ان رسومات کو ترک کرتے ہیں تو مذاہب و ملت میں خالص وحدانیت کا تصور رہ جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مذاہب مٹ کر ایمان کا جزو ہو جاتے ہیں
شعر نمبر ۷
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
مرکزی خیال
زمانے کے نشیب و فراز دیکھنے والے افراد میں مصائب و آلام کا احساس رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے۔
تشریح
شاعر نے بڑا خوبصورت اور مﺅثر اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیشِ عقل کیا ہے کہ کسی بھی چیز کی انتہا اور زیادتی اس کے احساس و حقیقی اثر کو ختم کر دیتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت مصائب و آلام کا سامنا رہتا ہے اور وہ مشکلات میں گھرا رہتا ہے تو اس کا احساس ِ غم فنا ہو جاتا ہے کہ اسے غم ٰغم معلوم نہیں ہوتا بلکہ معمول کی بات لگتی ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ میرے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کے واقعات پیش آئے ہیں اور میں بھی اس سے متاثرہ شخص ہوں۔ مجھے اس قدر دکھوں کا سامنا رہتا ہے کہ میں غم کی کیفیت ہی بھلا بیٹھا ہوں۔ اس شعر کو اگر ہم وسیع معنوں میں لیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی انتہا نقصاندہ ہوتی ہے
شعر نمبر ۸
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا اِن بستیوں کو تُم کہ ویراں ہو گئیں
تشریح
اس شعر میں غالب لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتاہے کہ اے لوگو! اگر غالب اسی طرح روتا رہا یعنی مسلسل لگاتار بہت شدت سے روتا رہا تو اُس کا یہ رونا ضرور رنگ لائے گا۔ تم دیکھ لو گے کہ اس کی رونے سے بستیاں کی بستیاں ویران ہو جائےں گی کیونکہ اس کے رونے میں درد و اثر کی ایسی کیفیت ہے کہ وہ بستیاں چھوڑ کر ویرانوں میں نکل جائیں گے یا اُس کے آنسو ایسا سیلاب لائیں گے کہ یہ سیلابِ اشک آبادی کو بہا کر لے جائے گا، مکانوں کو مسمار کر دے گا۔ نتیجتاً پوری بستی ویراں ہو جائے گی

Class XI, Urdu, "مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 1"

مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 1

حوالہ
مندرجہ بالا شعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
مرزا اسد اللہ خان غالب گلشنِ سخن کے ایک ایسے حسین گلاب ہیں جس کی مہک آج تک اردو غزل گوئی کو معطر کرتی آرہی ہے۔ غالب کا فن رسوم کی حدود وقیود سے بالاتر ہے جو اردو شاعری کے اعلیٰ ترین معیار کی ترجمانی کرتا ہے۔ان کے کلام میں ہر رنگ کا موضوع ملتا ہے۔ انہوں نے نہایت انوکھے مضامین شگفتہ اور مو�¿ثر انداز میں بیان کئے۔ اُن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے رشید احمد صدیقی بیان کرتے ہیں۔
دورِ مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزیں عطا کی ہیں- اردو زبان‘ تاج محل اور مرزا اسد اللہ خان غالب۔
شعر نمبر ۱
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب اپنے حالات سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تشریح
زیرِ نظر شعر غالب کے کلام کا ایک حصہ ہے۔ آپ اس میں کہتے ہیں کہ ہماری زندگی کا بحر کبھی پُر سکون نہیں رہا بلکہ اس میں ہر لمحہ کوئی نہ کوئی مقناطیسی لہر طوفان برپا کر دیتی ہے۔ غمِ دوراں نے ہماری زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہماری کوئی دعا کوئی تمنا پوری نہیں ہوتی۔ ہماری امید میں صرف خواب ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں۔ ہماری زندگی ایک غار تیرہ کی مانند ہے جس میں روشنی کر کرن کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں اس تاریکی میں اپنی سانسیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن ہمیں اس اندھیرے سے نکالنے والا کوئی نہیں اور کوئی مشعل نہیں۔ یہ زندگی ایک پرخار راہ ہے اور ہمیں یہ کٹھن راہ کسی منزل تک جاتی ہوئی نظر نہیں آتی۔
اصل میں شاعر یہاں پر بتانا چاہ رہے ہیں کہ انسان کی زندگی خواہشآت اور آرزوﺅں سے معمور ہے اور نامرادی عشق کا مقدر ہے۔ غالب اب عشق کی اُس منزل تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ لیکن تمنائے عشق کی تکمیل کی صورت بھی نظر نہیں آتی۔ اُمیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔ جینے کی ہر راہ مفقود ہو چکی ہے۔ لیکن حصولِ محبوب ناممکن ہو گیا ہے یعنی عشق میں ہم ناکام اور محروم تمنا ہو کر رہ گئے ہیں
مماثل شعر
کوئی اُمید بر آئی نہ ارمان نکلا
زندگی بھر کسی کنجوس کا داماں نکلا
شعر ۲
موت کا ایک دن معین ہے
پھر نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر نے انسانی فطرت کی ایک کمزوری کا تذکرہ کیا ہے کہ انسان موت سے خوف زدہ رہتا ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر نے یہ حقیقتِ حال بیان کی ہے کہ موت اٹل ہے اور ہر انسان کو آنی ہے۔ ہر انسان ایک نہ ایک دن قبر کی گود میں سلادیا جائے گا۔ شاعر کہتا ہے کہ جب انسان کو پتہ ہے کہ اس کی موت کا وقت مقرر ہے اور وہ ایک دن ایک مقررہ وقت پر ہی اس زندگی سے محروم کیا جائے گا تو وہ کس چیز کا خوف کھاتا ہے۔ اسے کیوں اس زندگی سے اتنا پیار ہے اور وہ کیوں موت سے بھاگتا ہے اور اس فکر میں پریشان ہوتا کہ کہیں ابھی اس کی زندگی ختم نہ ہو جائے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب کسی حقیقت پر پختہ یقین ہو ہائے تواسے تسلیم کرکے اپنی باقی مصروفیات پر عمل کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ اس اٹل حقیقت جو کہ ناقابلِ ترمیم ہے کو بدلنے کی فکر کی جائے۔ اس شعر میں انسانی فطرت کی کمزوری بیان کی گئی ہے
شعر نمبر ۳
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب اپنے دل کے مرجھانے کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ تقدیر نے ہمیں اس زندگی میں اتنی ضربات لگائی ہیں کہ ہم لہولہان ہو گئے ہیں۔ ہم کبھی تو اپنی خرابی قسمت کا شکوہ کرتے ہیں اور کبھی آپ ہی اپنی تقدیر کی کم ظرفی پر مسکرا دئے۔ پہلے کبھی ہمیں اپنے حال پر آپ ہی ہنسی آ جایا کرتی تھی کہ غمِ دوراں سے نڈھال ہوئے بیٹھے ہیں اور ہم اپنے آپ کا ہی تمسخر اُڑایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہم اپنی بے بسی سے محفوظ ہوا کرتے تھے لیکن اب مقدر کی بے رحمی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس نے ہمیں غمِ جاناں دے کر ہم سے وہ مسکراہٹ بھی چھین لی جو اپنے حال کو دیکھ کر ہی ہمارے لبوں پر آجاتی تھی۔ یہ شعر سادگی و سلاست کے اعتبار سے لاجواب ہے۔ غالب فرماتے ہیں کہ عشق میں آدمی بدحواس اور بد حال ہو جاتا ہے کیونکہ رنج و غم اس کی زندگی کا جز بن جاتا ہے۔ انتدائے عشق میں جب عشق کا غلبہ بڑھتا ہے۔ محبوب نے ابتداء اور آزمائش میں مبتلا کر دیا تو حالت دگرگوں ہو جاتی۔ اس وقت اپنی یہ حالت دیکھ کر خود اپنے ہی حال پر ہنسی آجاتی۔ لیکن اب افسردگی اور پزمردگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کسی بات پر ہنسی نہیں آتی
مماثل شعر
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
ایک مدت سے وہ مزاج نہیں
شعر۴
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبعیت اِدھر نہیں آتی
مرکزی خیال
پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی دین کی طرف سے بے رغبتی اور اس دنیا کی طرف کشش بیان کر رہے ہیں۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہم ایک صاحبِ شعور انسان ہیں اور ہم میں عقل و فہم موجودہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم و حکمت کی دولت سے نوازا ہے۔ ہمیںاللہ تعالیٰ کے دین کا علم حاصل ہے۔ ہم اسلامی تعلیمات سے مکمل آگہی رکھتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو کتنی اہمیت حاصل ہے اور تقوی و پرہیزگاری کا کیا صلہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنے سے ہماری دنیوی و اخروی زندگی سنور جاے گی۔ ہمیں یہ بھی خبر ہے کہ کس نیکی کا کیا اجر ملے گا اور ان کے کیا ثمرات ہوں گے لیکن ہم کیا کریں کہ عبادت اور دین کی طرف ہماری طبعیت مائل نہیں ہوتی۔ ہم نمازوں اور روزوں کی پابندی نہیں کرتے‘ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات بجا نہیں لاتے‘ ہم دنیا کی دلکش و حسین رنگینیوں میں گم ہو گئے ہیں۔ ہمارے دل کو اس دنیا کی دلکشیوں نے اپنی طرف مائل کر لیا ہے اور ہم اب اس سے منہ پھیرنے کےلئے تیار نہیں۔ ہم اب صرف وہی کرتے ہیں جو ہمارا دل ہم سے کہتا ہے
مماثل شعر
جائے ہی جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
شعر نمبر ۵
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہو
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب اپنی خاموش طبعی کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح
شاعر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے زیادہ تر خاموش دو وجوہات ہی کی بناء پر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ محبوب کے حسن کے جلوﺅں کا اُس کے دل پر اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ وہ ساکت و سامت جلوہ محبوب میں گُم ہو جاتا ہے یا دوسری وجہ یہ ہے کہ مصلحتاً خاموش رہتا ہے کہ کہیں محبوب کی رسوائی نہ ہو یا اُس کے راز فشاں نہ ہوجائیں اور پھر محبوب عاشق سے ناراض ہو جائے۔
غالب کہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے محبوب کے تصور میں اس قدر مدہوش ہیں کہ دنیا و مافیہا ہی سے بے خبر ہو گئے ہیں۔ ورنہ ہمیں بھی اندازِ بیاں پر قدرت حاصل ہے اور ہم بھی اظہارِ جذبات پر قادر ہیں۔ مگر بولتے اس لئے نہیں کہ کہیں اظہارِ محبت اور حالِ دل سن کر کہیں ہمارا محبوب خفا نہ ہو جائے یا ہمارے دل کی تحریر پر اپنا نام لکھا دیکھ کر اُس کے مزاجِ نازک پر گراں نہ گزر جائے۔ خاموشی کے پردے میں ہم بھی اپنے عشق کی معراج چاہتے ہیں۔ ہمیں ہر بات کرنا آتی ہے لیکن ہر بات کا اظہار کرنا عقلمندی نہیں ہوتی۔ منزلِ عشق کا حصول ہی وہ مصلحت ہے جس کی خاطر ہم چُپ چاپ ہیں
مماثل شعر
قسمت ہی سے لاچار ہوں اے زوق وگرنہ
سب فن میں ہوں طاق کیا مجھے نہیں آتا
شعر نمبر ۶
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب اپنے عالمِ بے خودی کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح
عشق میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ جب آدمی فنانی المحبوب ہو جاتا ہے۔ ہمہ وقت محبوب کے خیال اور تصور میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے وجود محبوب کے وجود میں مدغم ہو جاتا ہے۔ غالب بھی اس شعر میں یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم عشق کی بھول بھلیوں مین اس طرح کھو گئے ہیں کہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ جس راہ پر نکلتے ہیں وہ راہ اسی طرح ہمیں دھوکہ دے رہی ہے جس طرح خضر نے سکندر سے فریب کاری کی تھی۔ ہم راہِ عشق میں اُلجھے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی محبوب کی یاد کو دل سے نکالنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ ہم نے اس کے عشق کے مے پئے ہیں۔ اور اس کی آنکھوں سے شباب نے ہمیں پُر کیف کر دیا ہے۔ ہم مدہوشی کی حالت میں دنیا و مافیہا سے بے خبراس پتھر کے صنم کی پرستش کئے چلے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن منزلِ حدنظر تک نہیںبس ہم اسکی یاد کے سہارے اس کے نقش پر چلتے ہی چلے جارہے ہیں۔
مماثل شعر
بے خودی کہاں لے گئی ہم کو
بہت دیر سے انتظار ہے اپنا
شعر نمبر ۷
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے، پر نہیں آتی
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ وہ بڑے فریاں نصیب ہیں۔
تشریح
جو مصائب کو ہجوم ہو، ناکامیوں اور محرومیوں سے رات بھر سابقہ رہے، کوئی تدبیر کارگر نہ ہو، معمولی معمولی خواہشات اور آرزوﺅں کا خون ہونے لگے تو پھر آدمی زندگی سے بدظن ہو جاتا ہے اورموت کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ لیکن موت پر چونکہ اختیار نہیں ہوتا اس لئے عجیب کشمکش میں آدمی مبتلہ رہتا ہے۔
غالب یہی چیز سامنے رکھ کر کہتے ہیں کہ ہماری قسمت میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کے علاوہ کچھ تحریر نہیں۔ ہم نے گردشِ زمانہ کے ہاتھوں بڑے زخم کھائے ہوئے ہیں۔ رنج و الم کی آندھیوں کے درمیان معلق ہیں۔ اور ان آندھیوں کی تنک مزاجی نے ہماری روح کو کچل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم موت طلب کرتے ہیں لیکن بد نصیبی کی انتہا یہ ہے کہ موت بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ ہماری زندگی کی آج تک کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی اور اب موت کی آرزو بھی پوری نہیں ہوتی۔ اور غمِ زمانہ سے ہم روز مر کر زندہ ہوتے ہیں
مماثل شعر
موت بھی وقت پر نہیں آتی
زندگی کے ستم نرالے ہیں
شعر نمبر ۸
کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرکزی خیال
اس شعر میں غالب اپنی زندگی پر بڑی ہی لطیف انداز میں تبصرہ کر رہے ہیں۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ آدمی عمر کی آخری منزل میں قدم رکھتا ہے تو پھر اسے آنے والی نئی زندگی کا خیال دامن گیر ہوتا ہے اور وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے غالب! تم نے خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ کیا ہے جبکہ تمہارا دامن معصیت اور گناہوں سے بھرا ہوا ہے۔ تم نے ساری زندگی شاہد پرستی، شراب خوری اور قمار بازی میں گزار دی۔ اب تمہیں ایسی گناہ آلود زندگی کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہوئی شرم نہیں آئے گی؟ تمہارے پاس کونسا عمل ایسا ہے جس کو لے کر تم وہاں جاﺅ گے اور اُس کر کرم طلب کرو گے؟ مطلب یہ کہ ہماری زندگی میں سوائے گناہوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ اب آخری وقت میں خدا کے حضور کیا منہ لے کر جائیں گے
مماثل شعر
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

Class XI, Urdu, "خواجہ حیدر علی آتش غزل 2"

خواجہ حیدر علی آتش غزل 2

شعر نمبر ۱
ہوائے دور مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی، بہار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش امید نو کا ایک اچھوتا سا انداز لئے ہوئے لوگوں کو نویدِ سحر کی خبر سنا رہے ہیں۔
تشریح
آتش نے رومانی اشعار کے علاوہ حالات کے پیشِ نظر بڑے امید افزاءاشعار بھی کہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلسل ناکامیوں سے گھبراتے دلوں کو ناامید ہونا کفر ہے۔ سارے مصائب کی رات کٹ جاتی ہے اور خوشیوں کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ خزاں دم توڑ رہی ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔ تیرگی کے دن کٹ گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو امید افزاء کی نوید سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصائب کے دن ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ بہارےں ہمارے قدم چومیں گی۔ کیونکہ خوشگوار ہوائیں موسمِ بہار کی آمد کا پتہ دے رہی ہیں۔ اب ہر طرف تازگی اور عیش و عشرت کا زمانہ آنے والا ہے
شعر۲
عَدَم کے کُوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر، نہ کوئی دیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
پیشِ نظر شعرمیں شاعر تمام ذی شعور انسانوں کو سفرِآخرت کی تیاری کی تلقین کر رہا ہے۔
تشریح
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے دین کی روشنی میں فلسفہ زندگانی بیان کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک ہر انسان کو اصل و ابدی منزل کی جانب روانگی کے لئے تیاری کرنی چاہئے اور اِس زندگی میں لمحات کی قدر کرتے ہوئے ہر لمحے حصولِ آخرت کی فکرمیں مگن رہنا چاہئے۔ انسان کی زندگی مطلقِ کل کی رضا و مشّیت سے مشروط ہے۔ پُرسکون دائمی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے یہ لازم ہے کہ انسان اپنی رضا کی مداخلت نہ کرے اور اِس زندگی کو اِس طرح بسر کرے کہ اُس کے ہر عمل سے فکرِ آخرت ظاہر ہو۔ یہ زندگی انسانی وجود سے کچھ قربانی مانگتی ہے۔ وہ قربانی صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جاری و ساری نظامِ قدرت سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنے ہر فعل کو تشکیل دے۔ کیونکہ موت مطلقِ کُل کی مرضی سے آتی ہے۔ جب زندگی کسی وجود کو اپنے رحم اور اپنی ہمدردی سے محروم کر دیتی ہے تو اُسے موت کی آغوش میں لے جاتی ہے۔ موت اور زندگی کے درمیان کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہی موت ہمیں اِس زندگی کا احترام سکھاتی ہے۔ اِس لئے ہم پر لازم ہے اِس چند روزہ زندگی کوغنیمت جانیں اور آخرت کے سفر کی تیاری اِس بھرپور طریقے سے کریں کہ دورانِ سفر کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ ایک مرتبہ اِس سفر پر روانہ ہونے والے وجود کے لئے واپسی کے تمام دریچے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر اُسے اپنی نامکمل تیاری کو مکمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا
مماثل شعر
آخرت میں اعمال نیک ہی کام آئیں گے
پیش ہے تجھ کو سفر، زادِ سفر پیدا کر
شعر نمبر ۳
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسائش
عناں گستہ و بے اختیار راہ میں ہے
مرکزی خیال
شاعر کہتا ہے انسانی زندگی خواہشات سے پُر ہے اور عیش اس کی فطرت میں ہے۔
تشریح
آتش فرماتے ہیں کہ زندگی بے حد مختصر ہے، بڑی تیز رفتار ہے اور پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہے۔ آدمی دنیا کی آسائشوں، راحتوں اور رعناﺅں کسے بھرپور طور پر لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ وہ وقت کی تیز رفتاری کے ہاتھوں مجبور ہے۔ کسی کا وقت پر کوئی اختیار نہیں اور وہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے۔ وہ حال، مستقبل سے بے پرواہ دوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت تیز رفتاری سے گزرتا چلا جائے اور آدمی کو اس دنیا میں کچھ کرنے کا زیادہ موقع نہیں دے گا۔ اسی لئے چاہئے کہ جتناوقت ملے اسے غنیمت جان کر آئندہ پیش آنے والے سفر کے لئے تیار رہے۔ لیکن انسان اسبابِ جہالت کو بڑھاتا ہی رہتا ہے۔ حالانکہ اس کو جس سفر پر روانہ ہونا ہے وہاں وہ تمام ضروریات سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور سامان تو کیا وہ ہر چیز لے جانے کے سلسلے میں بے اختیارہے
مماثل شعر
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں
شعر نمبر ۴
نہ بدرقہ ہے، نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
مرکزی خیال
اس شعر میں آتش سفر آخرت کو خطرات سے معمور قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سفر کو وہی آسانی سے پار کر سکے گا جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ نہ کوئی شجر سایہ دار ، نہ کوئی ابر کا ٹکڑا، نہ کوئی ساتھی اور دوست ہے صرف اللہ کا سہارا ہے۔ اگر اس کی رحمت کی نظر ہو جائے تو نزع سے قبر اور قبر سے لے کر میدانِ حشر تک معاملہ آسان ہے اور کوئی مددگار اور ساتھی نہیں ہے۔ وہ آل و اولاد، مال و دولت، جن کو ہم رفیقِ جہاں سمجھتے ہیں وہ سب ختم ہو گئے صرف اللہ کی رحمت سے بیڑہ پار ہے۔ سفرِآخرت ایک ایسا سفر ہے جس کو تنہا آدمی کو خود طے کرنا ہے، کوئی اس کے ساتھ محافظ نہیں ہوتا، نہ کوئی دوست ساتھ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے کٹ جائے۔ اس سفر کو آسان کرنے کی صورت خدا کی عنایت اور مہربانی ہے جو کہ صرف اُسی صورت مل سکے گی جب کہ ہم اُس کے احکامات کی پیروی کر کے اُسے خوش رکھیں
شعر۵
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
آتش عزم و ہمت کا درس دیتے ہوئے یہ خیال پیش کر رہے ہیں کہ منزل کے حصول کے لئے سفر کا آغاز ہی اہم ترین ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کی ہمت اور حوصلہ بلندکر رہے ہیں۔ شاعر کہتا کے کسی بھی مشکل سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ دورانِ سفر ہم کن کن مصائب و آلام کے مدِ مقابل کھڑے ہوں گے؟ اور کیا ہم اپنی منزل اور مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اِس طرح کے خیالات اگر ذہن میں آ جائیں تو انسان آغاز ہی میں مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ شاعر انسانوں کو اس بات کی ترغیب دے رہا ہے کہ ہمیں ذاتِ مطلق پر توکل و بھروسہ رکھتے ہوئے اور اُس ایک ذات سے امید لگا کر جانب منزل سفر کا آغاز کر دینا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے اور اُس کا آغاز کر دیتا ہے تو خود بخود اُس کے لئے راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ آخر کار اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔سفر کے دوران اُسے ہزاروں وفادار ہم سفر مل جاتے ہیں اور اُس کی ہر ممکن طریقوں سے مدد کرتے ہیں۔ انسان کے لئے ایسے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جس کی بدولت وہ تمام مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتا ہوا اپنی منزل پر فتح و کامیابی کا جھنڈا گاڑھ دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بغیر کسی خوف و پریشانی کے اپنی منزل کی جانب سفر کا آغاز کر دیں اور خدائے بزرگ و برتر پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے تمام رکاوٹوں کا ادراک کریں۔ انشاءاللہ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی
مماثل شعر
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
شعر نمبر ۶
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے، دشمن ہزار راہ میں ہیں
مرکزی خیال
شاعر اس شعر میں سبق دے رہا ہے کہ اگر منزل کی سچی لگن دل میں موجود ہو تو مصائب کے طوفان بھی ہمیں منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہمرِ مرداں اور خدا کی عنایت و مہربانی اگر ہو تو کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ چاہے راہ میں سیکڑوں دشمن اور راہ زن، مصائب و آلام ہمیں گھیر لیں۔ مگر ہمیں اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ ہے تو وہ ہماری دستگیری کرے گا، نگہبانی فرمائے گا اور دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہاں پر انسان کام نہیں آئیں گے بلکہ صرف اللہ کی رحمت کا سایہ ہم پر ہو گا تو ہم اپنا مقصد پا لیں گے۔
شعر نمبر ۷
تھکیں جو پاﺅں تو چل سر کے بل نہ ٹھیر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں، خار راہ میں ہے
تشریح
اس شعر میں مزید اسی مضمون کے شاعر نے تشریح کی ہے۔ کہتا ہے کہ جب سفر کا آغاز کر دیا، خدا کی عنایات و نوازشات پر نظر جمائے رکھی تو راہ کی دشوارویوں سے ڈرنا، گھبرانا کیا؟ اگر چلتے چلتے پاﺅں تھک جائیں تو رک جانا یا ٹہرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تمام دشواریان اور تکالیف تو راستے ہی میں ہوتی ہےں۔ منزل پر پہنچ کر تو آرام و سکون میسر آجاتا ہے۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کے کرے راستے کو جلد از جلد طے کر لینا چاہئے۔ تھک کر بیٹھ رہنے سے دشواریاں کم نہیں ہوں گی۔ مطلب یہ کہ حصولِ مقصد میں دشواریوں کا سامنا یقینی ہے کیونکہ بغیر دشواریوں کے منزلِ مقصود نہیں ملتی

Class XI, Urdu, "خواجہ حیدر علی آتش غزل 1"

خواجہ حیدر علی آتش غزل 1

حوالہ
پیشِ نظر شعر خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
خواجہ حیدر علی آتشاردو غزل گوئی کے وہ اہم ترین شاعر ہیں جن کی بدولت دبستانِ لکھنو کا آغاز ہوا۔ آتش کا تصوف سے عملی رشتہ تھا جس کا عکس اُن کے کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ آپ کے کلام میں مرصع سازی جا بجا ملتی ہے اور خارجی کیفیات سے ہٹ کر حسنِ فکر بھی نمایاں ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش کے اشعارمنتخب ہیں اور اُن کے کلام میں زبان و بیان کی کشش ہے۔ بقول ڈاکٹر ابواللّیث صدیقی:
زبان اور محاوروں کا لطف اٹھانا ہو تو آتش کے کلام کو پڑھنا چاہئے۔
شعرنمبر ۱
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی قصیدہ خوانی کر رہا ہے اور اس کے حسن و جمال کی برتری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم کو تمہارے حسن اور اپنی محبت پر ناز ہے۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تم اس کائنات کی حسین ترین شے ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت شے گلاب کے پھول کو سمجھا جاتا ہے جس کی عاشق بلبل ہے۔ اگر ہم کو موقع ملتا تو ہم حسن کا مقابلہ کرواتے جس میں ایک طرف تم اور دوسری طرف گلاب ہوتا۔ گلاب کے پھول سے عشق کرنے والی بلبل ہے جو اس کی محبت میں نہایت بے چین اور مضطرب رہتی ہے اور اس کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے جبکہ تمھارے چاہنے والے ہم ہیں۔ ہم بلبل سے ہمکلام ہو کر اس دنیا پر یہ ثابت کر دیتے کہ تمہارا حسن گلاب سے بھی بڑھ کر ہے اور اس پھول کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلبل کو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی کہ حسن و نزاکت میں ہمارا محبوب اُس کے محبوب پر فوقیت رکھتا ہے۔ ہمارا عاشق حسن و دلکشی کا مرقع‘ نزاکت و لطافت کا مجموعہ اور مسرت کن خوشبوﺅں کا خاصہ ہے جس کا مقابلہ کسی طرح بھی اِس بے وقعت پھول سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس شعر میں شاعر نے مبالغے کی صفت استعمال کی ہے
مماثل شعر
ہوئی گل پر فدا نادان بلبل
کہاں گل اور کہاں وہ غیرتِ گل
شعر نمبر ۲
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مرکزی خیال
شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کے سامنے اپنی آرزﺅں اور خواہشآت کا اظہار خود کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ قاصد محبوب کے احساسات اور کیفیات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مجھے دردِ دل سنانے کے لئے کوئی پیغام بر نہیں ملا، نامہ �¿ التفات لے جانے کے لئے قاصد نہ ملا تو بہترین ہوا۔ اے میرے محبوب ہم کسی غیر کے ہاتھ سے تجھے کیا بھےجتے اگرچہ کہ اس سے دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جاتا جو کہ اب تک میرے سامنے اظہار کے لئے بے چین تھا مگر اس طرح میری دلی کیفیات اور احساسات کی صحیح ترجمانی نہ ہو سکتی۔
اصل میں شاعر کسی قاصد کی تلاش میں سرگرداں تھا تاکہ محبوب تک اپنے دل کا حال پہنچا سکے لیکن اسے اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے کوئی شخص ایسا نہ ملا جو کہ اس کے جزبات و احساسات کی تفصیل محبوب تک پہنچائے تو اس وقت عاشق نے اپنے آپ کو اس طرح تسلی دی کہ چلو اچھا ہوا کہ قاصد نہ ملا۔ کیونکہ محبوب کے آگے کسی غیر سے اپنی آرزﺅں اور تمناﺅں کو پیش کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا
شعر ۳
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
مرکزی خیال
محبت و عشق کی حکمرانی اس پوری کائنات پر قائم ہے اور عشق کے بغیر اس زندگی کا مفہوم ادھورا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ یہ چاند و سورج و سیارے ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ایک حالت میں سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لگتا ہے یہ بھی میری طرح کسی سچے اور حقیقی محبوب کی تلاش میں ہیں۔ میری حالت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ میں ہر وقت بے قرار و مضطرب رہتا ہوں۔ مجھے بھی ایک عاشقِ حقیقی کی تلاش ہے اور میں اس کے لئے جستجو کرتا رہتا ہوں۔ ان کیفیات کے ذریعے شاعر یہ حقیقت بیان کررہا ہے کہ محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے جس کے بغیر یہ کائنات ادھوری ہے اور جس کو ہٹا کر اس حیاتِ فانی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے
شعر نمبر ۴
جو دیکھتے تری زنجیرِ زُلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد، آرزو کرتے
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کا تمام حسن اس کی زلفوں کو قرار دے رہا ہے۔
تشریح
اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پابندی سلاسل سے گھبراتے ہیں اور زنجیر کی چھنک سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ تیری زلفوں کی زنجیر کا لطف جانتے تو وہ یقیناً اس بات کی آرزو کرتے کہ کاش وہ زلفوں کی زنجیروں میں اُلجھ کر قید ہو جائیں۔ انہیں آزادی سے یہ پابندی پسند آتی۔
شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو بڑا ہی حسین ہے، تیری زلف سیاہ اور دراز ہے۔ جب تو کبھی اپنے گیسوﺅں کو چوٹی کی شکل میں گوندھ لیتا ہے اور وہ زنجیر کی شکل اختیار کڑ لیتے ہیں تو اس وقت تو اور بھی زیادہ حسین دکھائی دینے لگیا ہے۔ ایسے میں عام لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو تیرے حسن و جمال کو دیکھ کر سب تیری محبت میں مبتلا ہو جائیں اور خواہش کریں کہ کاش تو انہیں بھی اپنی زنجیرِ زلف میں اسیر کر لے
شعر نمبر ۵
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
تشریح
بد نصیبی عاشق کا مقدر ہوتی ہے۔ بدنصیبی تو یہ ہے کہ کوئی خواہش اور آرزو پوری نہ ہو لیکن عاشقی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آرزو خواہشات کے برعکس ہو۔ یہ بد نصیبی کی انتہا ہے۔ شاعر کہتا ہے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ میری بد نصیبی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ حال یہ ہے کہ میں جو آرزو کرتا ہوں، جو دعا کرتا ہوں اس کے برعکس کام ہوتا ہے۔ اگر مےن گرمی کی شدت کے سبب بارش کی دعا کروں تو بجائے بارش کے آگ برسنے لگے یعنی اور زیادہ گرمی بڑھ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ میرا مقدر اس قدر برگشتہ ہو گیا ہے کہ میں جو چاہتا ہوں ہمیشہ اس کا الٹا ہی ہوتا ہے
مماثل شعر
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

Class XI, Urdu, "میر تقی میر غزل 2"

میر تقی میر غزل 2

شعر نمبر ۱
ہمارے آگے جب ترا کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
مرکزی خیال
میر فرماتے ہیں کہ جب ہم تیرا نام کسی سے سنتے ہیں تو ہمارا دل بری طرح بے چین، مضطرب اور تڑپنے لگتا ہے۔ اور ہمیں بار بار دل کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اہلِ عشق کے لئے محبوب کو بھلانا ممکن نہیں۔
تشریح
میر تقی میر زیرِ نظر شعر میں عشق کی بے چینی کا نذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبت میں محبوب کی ذات سے ایک عجیب تعلق اور لگاﺅ پیدا ہو جاتا ہے اور عاشق اس کا نام سنتے ہی بے تاب ہو جات اہے۔ میر اپنے محبوب کے بارے میں کہتے ہیں کہ تیری نام کے ساتھ جو احساسِ بے وفائی کا غم ہے، تیرا تصور اضطراب کن ہے۔ اب اگرچہ ہمارا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں مگر جب بھی کوئی ہمارے سامنے تیرا نام لیتا ہے تو ہمیں ماضی مےن تجھ سے تعلق اور تیرے ظلم و ستم سبھی کچھ یاد آ جاتے ہیں اور ہمارا دل اس قدر تڑپتا ہے کہ جیسا سینے سے باہر آ جائے گا اور اس لمحے ہم اپنے آپ کو سنبھالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں
شعرنمبر ۲
قسم جو کھائیے تو طالعِ زُلیخا کی
عزیزِ مصر کا بھی صاحب ایک غلام لیا
مرکزی خیال
شاعر زلیخا کی خوش قسمتی بیان کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس کی خوش نصیبی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے حُسنِ تلمیح سے کام لیتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کے مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نہایت حسین و جمیل تھے۔ آپ سے حسد کی وجہ سے آپ کے بھائی آپ کو جنگل میں ایک کنویں میں پھینک آتے ہیں ۔ وہاں سے گزرنے والا ایک قافلہ آپ کو کنویں سے نکال کر غلام بنا لیتا ہے اور مصر کے بازاروں میں خرید و فروخت کے لئے لے جاتا ہیں۔ وہاں کا ایک عزیز اُس غلام کو اپنی بیوی زلیخا کے لئے خرید لیتا ہے تاکہ گھر کے کام کاج میں اُس کی مدد کرے۔ زلیخا جو ایک قابلِ مذمت کردار کی مالکہ تھی حضرت یوسف علیہ السلام میں دلچسپی لینے لگتی ہے اور اُنہیںدعوتِ گناہ قبول نہ کرنے کے جرم میںجیل میں قید کروا دیتی ہے۔ جب یہ مسئلہ عزیزِ مصر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاکیزہ کردار سے بہت متاثر ہوتا ہے اور اُنہیں اپنے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔
شاعر اس واقعہ کی روشنی میں زُلیخا کی قسمت کوقابلِ رشک اور بلند کہہ رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زُلیخا وہ خوش قسمت عورت ہے جس کے گھر آنے والا ایک غلام بادشاہت کے بلند ترین منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور زلیخا کو ہمیشہ کے لئے اُن کی قربت حاصل ہو جاتی ہے۔ زلیخا کے نصیب سے متاثر ہو کر شاعر کہتا کہ محبوب کا حصول ہی سب سے اچھی قسمت ہے۔ اس لئے اگر قسم کھانی ہو تو ہمیں عزیزِ مصر کی بیوی کی کھانی چاہئے جس کے بخت کی بدولت اُسے حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جمیل انسان کا حصول ہوا
مماثل شعر
کیا خوش بختی ہے زلیخا کی کیا زور ہے اُس کی قسمت کا
کل اُس نے خریدا تھا جس کو وہ آج ہے شامل شاہوں میں
شعر نمبر ۳
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانے
نگاہِ مست نے ساقی کا انتقام لیا
مرکزی خیال
اس شعر میں میر اپنے محبوب کے حسن کی سحر انگیزی بیان کر رہے ہیں۔
تشریح
اس شعر میں میر نے اپنے محبوب کو ساقی سے تشبیہ دی ہے کہ جب لوگ مفتی تھے تو مسجدیں آباد ہوا کرتی تھیں اور مے خانے ویران۔ مسجدوں کی رونق دیکھ کر ساقی جلتا تھا۔ اس نے بناﺅ سنگھار کر کے اپنی مخمور آنکھوں کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی تو لوگ مے خانوں کا رخ کرنے لگے۔ بقول شاعر
لوگ بڑھ بڑھ کر جام پیتے رہے
اور ہم ساقی کی آنکھوں کا مزہ لیتے رہے
میر فرماتے ہیں کہ بالکل اسی طرح ہمارے محبوب نے بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بناﺅ سنگھار کیا اور لوگوں پر اپنے حسن کی بجلیاں گرائیں۔ نتیجتاً اس کے سحر انگیز حسن اور نشیلی آنکھوں کا جام پینے والے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ عابد تک رند بن گئے، مساجد ویران ہونے لگیں اور سست نگاہوں کی لٹیروں سے کوئی بھی اپنا دامن نہ بچا سکا۔ ہمارے محبوب کی نگاہوں کا جام پینے والا کبھی ہوش کا دعویٰ نہیں کر سکتا
شعر نمبر ۴
وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے اُن نے مرا سلام لیا
مرکزی خیال
اس شعر میں میر اپنے محبوب کے طرزِ تغافل کا تزکرہ کر رہے ہیں۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ اے مرے محبوب! میں تری محبت میں ایک زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا ہوں لیکن تجھ کو رحم و محبت کا واسطہ نہیں۔ تو نے بڑی بے رحمی سے میرے تڑپنے کا منظر دیکھا اور اب تو میں فراق کی صعوبتیں سہہ سہہ کر نڈھال ہو چکا ہوں۔ تیری ان جفا کاریوں کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم تیری جدائی کا ناسور لئے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جائیں گے اور تیرے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہو گا۔ اور لوگ تجھے ہماری موت کا سبب جانیں گے
شعر نمبر ۵
مزا دکھاویں گے بے رحمی کا تیری صّیاد
گر اضطرابِ اسیری نے زیرِ دام لیا
مرکزی خیال
مظلوم ایک حد تک ظلم و ستم برداشت کرتا ہے۔ اِس کے بعد وہ اپنے افعال ، حرکات و سکنات سے ظالم کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔
تشریح
شاعر نے اس شعر میں تمثیلی اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک مظلوم اور بے کس پرندہ ظاہرکیا ہے جوشکاری کی قید میں ظلم و جبر کا نشانہ بن رہا ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے ہمکلام ہو کر کہتا ہے کہ ہم تیری محبت کے پنجرے میں قید ہیں اور تو ہم پر مسلسل ستم ڈھا رہا ہے۔ وہ مخاطب کرتا ہے کہ اے صّیاد! تو نے ہم پر بہت ستم کر لئے اور ہم کو بہت جبر کا نشانہ بنا لیا۔ تو ایک بے رحم اور بے حس شخص ہے جو ہم پر نہایت بے دردی سے اپنے حربے آزما رہا ہے۔ شاید تجھ کو اس بات کا احساس نہیں کہ اگر ہماری مظلومیت اور تیرے تکلیف دہ افعال برداشت کی حد پار کر گئے تو ہم تجھ کو تیری اِن ظالمانہ حرکتوں کو خوب مزہ چکھائیں گے اور تجھ سے اپنی بے کسی کا بدلہ لیں گے۔ اگرچہ ہم قید ہیں لیکن ہم کو صیاد سے بدلہ لینا آتا ہے۔ ہم خود ہی اپنے جسم سے روح کو علیحدٰہ کر دیں گے اور تجھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے چینی، بے قراری اور اضطراب کے بھنور میں پھنسا جائیں گے۔ تو ہم کو یاد کر کر کے اپنے دل کو تڑپائے گا اور تاموت خلش اور اذیت سے دوچار رہے گا۔ اِس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہم پر ظلم و ستم اتنا کر جتنا تو برداشت کر سکیں ورنہ اِس کا انجام دونوں کے حق میں بہت برا ہو گا۔
اس شعر میں شاعر نے ایک خوبصورت حقیقت بیان کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب جب اپنے چاہنے والے کا بہت کرخت اور مشکل امتحان لیتا ہے تو وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا اور محبوب سے دور ہو جاتا ہے۔آخر کار محبوب اس کی یاد میں ہمیشہ بے قرار اور مضطرب رہتا ہے
مماثل شعر
حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر جو تدارک پذیر ہو
شعر نمبر ۶
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تشریح
عشق میں رنج و غم، حسرت و یاس، ناکامیوں اور محرومیوں سے سابقہ رہتا ہے۔ عاشق ابتداءمیں صبر و ضبط سے کام لیتا ہے لیکن بالاخر صبر و تحمل کھو بیٹھتا ہے، دیوانہ ہو جاتا ہے، شائستگی جاتی رہتی ہے، ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے جس سے محبوب بدنام ہو جائے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے اس کے بر عکس بڑے سلیقے اور شائستگی سے عاشقی میں زندگی بسر کر دی۔ محبوب کے ظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اس راہ کی ناکامیوں اور محرومیوں سے واسطہ رہا مگر اس کا اظہار نہیں ہونے دیااور نہایت شائستہ اور مہذب انداز مےں زندگی گزار دی کہ نہ تو محبت بدنام ہوئی نہ ترکِ محبت کا خیال دامن گیر ہوا
شعر نمبر ۷
اگرچہ گوشہ گُزیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
تشریح
ہر انسان فطرتاً شہرت پسند واقع ہوا ہے۔ اس میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا جزبہ ضرور ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کی طبعتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو مواقع بھی میسر ہوتے ہیںلیکن اس کے بعد بھی وہ شہرت کو پسند نہیں کرتے اور خاموشی سے زندگی گزار دیتے ہیں۔ میر صاحب کہتے ہیں کہ عام شعراءکے برعکس شہرت کا خواہاں نہیں بلکہ گوشہ نشینی میں رہنے والا انسان ہوں۔ اپنے آپ کو نمایاں نہیں کرتا لیکن کیا کروں کہ میرے اشعار نے مجھے ایسی شہرت دی جو دوسروں کو نصیب نہ ہوئی۔ میں نے اپنے اشعار میں رنج و الم کا اظہار اس شدت سے کیا ہے کہ ہر سننے والا متاثر ہوتا ہے اور میری طرف متوجہ بھی۔ میرے دکھی دل کی پکار روئے زمیں پر پھیل گئی اور یہی میری شہرت کا باعث ہوئی ، ورنہ میں تو گوشہ نشین انسان تھا

Class XI, Urdu, "میر تقی میر غزل 1"

میر تقی میر غزل 1

حوالہ
مندرجہ بالا شعر میر تقی میر کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر
میر تقی میر آسمانِ سخن کے درخشاں آفتاب ہیں۔ ان کو اردو غزل گوئی میں خدائے سخن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انسانی احساسات و جذبات کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے اشعار پاکیزگی‘ دلکشی‘ ترنم اور دردمندی کا مجموعہ ہیں۔ وہ اپنے فن میںیکتائے زمانہ ہیں۔ بقول غالب
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
شعرنمبر ۱
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
مرکزی خیال
عشق ایک نہ ختم ہونے والی بیماری ہے جو انسان کو موت کے دہانے پر پہنچا دیتی ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عجیب بے کسی کے ساتھ اپنی داستانِ حیات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم کو ایک نہایت سنگین مرض لاحق ہو گیا۔ زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مرض بڑھتا گیا اور اس کی آثار ظاہر ہونے لگے۔ ہم نے اس مرض کے علاج کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کی اور مختلف دواﺅں سے علاج کیا‘ ہر طرح سے جتن کر ڈالے۔ لیکن عشق کوئی ایسا مرض نہیں ہے کہ اس کا علاج ہو جائے۔ جوں جوں ہم اس کا علاج کرتے رہے اس کی سنگینی بڑھتی گئی‘ دوائیں بے اثر ہو گئیں اور تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ یہ بیماری نا قابلِ برداشت ہو گئی اور اس کی وجہ سے ہم موت کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اس روگ نے ہم سے ہماری زندگی چھین لی اور مرضِ دل کی بدولت ہم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مصرعہ ثانی میں لفظ ’دیکھا‘ ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے شاعر کو یہ اندیشہ پہلے ہی سے تھا۔ وہ اس اندیشہِ جان کا ذکرمحبوب سے پہلے بھی کر چکے تھے۔ اب یقین کے ساتھ محبوب کو جتاتے ہیں کہ دیکھا ! اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
مماثل شعر
مریضِ عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
شعرنمبر ۲
عہدِ جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
مرکزی خیال
پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی دُکھ بھری داستانِ حیات بیان کر رہے ہیں۔
تشریح
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے اپنی حسرت و یاس بھری زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔ جوانی کا دور حیاتِ انسانی کا سنہرہ دور ہوتا ہے۔ یہ امنگوں، آرزوﺅں، خوابوں اور دلکشی و رانائی کی نرم و ملائم جہت ہوتی ہے۔ اِس میں انسان آزاد پنچھی کی مانند عزم و ہمت اور بے فکری کی فضاﺅں میں اُڑتا ہے۔ اِس عہدمیں انسان کے پاس توانائیاں ہوتی ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے قوتیں ہوتی ہیں۔ شاعر کہتا کہ میں اتنا بد نصیب انسان ہوں کہ یہ سنہرا دور بھی آلام و مصائب کی نذرہو گیا اور میں اس دور کی لطافتوں اور قوتوں سے بچھڑ گیا۔ میں نے یہ دور بھی نہایت دکھ درد اور بے چینی کے عالم میں اشک بہاتے ہوئے گزارا ہے۔ اب جب میں عمر کے آخری حصے میں پہنچ گیا ہوں تو میرے پاس اتنی ہمت و امید نہیں ہے کہ میں اپنے بھیانک ماضی کی وحشتیں دیکھ سکوں۔ میں اِس قدر ناتواں اور بے جان ہو گیا ہوں کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ میری زندگی ایک ایسے شخص کی مانند ہے جس کی آنکھیں خمار آلود اورجسم بوجھل صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ رات بھر کسی فکر میں جاگتا رہا ہے۔ اب اُس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ دن اور طلوعِ آفتاب کے مناظر دیکھے۔ اسی لئے وہ خوابیدہ ہو جاتا ہے
مماثل شعر
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاﺅں سوئیں گے کنجِ مزار میں
شعرنمبر ۳
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تُہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا
مرکزی خیال
اس شعر میں شاعر اپنی زندگی کی بے کسی اور مجبوری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر اپنی مجبوری اور بے کسی کی منظر کشی کر رہا ہے۔ شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم ہم سے یہ کیوں کہتے ہو کہ ہم اپنے فیصلوں اور ارادوں میں بااختیار ہیں اور ہر فعل اپنی مرضی اور خوشنودی سے سر انجام دیتے ہیں‘ ہماری زندگی کے لمحات ہمارے اپنے ہیں اور اس کا دارومدار ہمارے ذہن اور ہمارے ارادوں پر ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہم تو بے کس اور مجبور ہیں۔ ہم تو وہی کرتے ہیں جو تم ہم سے کہتے ہو‘ ہمارے تمام اعمال تو تمہاری خواہشات کے مطابق ہیں‘ ہماری عشق کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے اپنی مرضی بالکل ختم کر دی ہے اور ہر کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ تمہاری کیا مرضی ہے‘ تم کس طرح رضامند ہو گے اور ہمیں اپنے چاہنے والوں میں جگہ دو گے۔ اس کے باوجود اگر تم ہمیں اپنے ارادوں میں خود مختار کہتے ہو تو یہ ہم کو بے وجہ بدنام کرنے والی بات ہے اور یہ محض ایک الزام ہے۔
اس شعر کو ہم حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں لے سکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں شاعر نے صوفیائے کرام کا نظریہِ جبر پیش کیا ہے جس کے مطابق انسان اس دنیا میں ایک کٹھ پتلی ہے جو کاتبِ تقدیر کا پابند ہے۔ محبوب کی خوشنودی یا نظریہِ جبر دونوں حوالوں سے انسان ایک ایسی مجبورمخلوق ہے جسے اپنی زندگی پر کسی طرح کا اختیار نہیں ہے۔ اس شعر میں صنعت تضاد پائی جاتی ہے
مماثل شعر
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے یاد نہیں
شعرنمبر ۴
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی دور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
مرکزی خیال
محبوب کی دلی عقیدت و عزت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب سے اس قدر لگاﺅہے اور ہم اس کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ نیم بےہوشی اور مستی کی حالت میں بھی اس کی بے ادبی نہیں کر سکتے اور ہر حال میں اس کا احترام کرتے ہیں۔ چاہے ہم جتنے بھی ہوش و حواس سے عاری ہوں ہم اپنے رفیق کی عزت کرتے ہیں۔ چاہے ہم اس کے نزدیک ہوں یا اس سے کوسوں دور ہوں وہ ہماری عزت و احترام کا مستحق رہتا ہے۔ کبھی اگر ہم نہایت بے خودی کی حالت میں زبان سے کلمات نکال رہے ہوں تب بھی ہمارے ذہن میں یہ بات نقش ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں سے بڑھ کر ہمارا محبوب لائقِ احترام ہے۔ اس شعر میں جس کیفیت کا تذکرہ کیا گیا ہے وو عشق کی معراج ہے
شعرنمبر ۵
یاں کے سپیدوسیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
مرکزی خیال
شاعر اپنی زندگی کی بے بسی، لاچاری اورمجبوری بیان کر رہا ہے۔
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ میں ایک بے اختیار اور بے بس انسان ہوں۔ میری بے چارگی کی حد یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں مجبور ہوںاور میری مرضی کوئی اور تشکیل دیتا ہے۔ اس بے کس زندگی کے کسی بھی معاملے میں میرا دخل نہیں ہے اور میں سب کچھ اپنی مرضی کے خلاف کرتا ہوں۔ میری اختیارہے تو صرف اِس حد تک کہ میں دن کو بے قراری میں گزار دیتا ہوں اور رات کو چند آنسو بہا کر صبح دیکھ لیتا ہوں۔ میری زندگی ایک ایسے پنچھی کی مانند ہے جو پنجرے سے آزاد فضا میں اُڑنا چاہتا ہو لیکن ہر کوشش اُس کے لئے تکلیف کا سبب بنتی ہو۔ میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔ میں اس میں فیض، سکون، راحت اور نشاط کے موتی چمکانا چاہتا ہوں لیکن کہیں بھی میری مرضی نہیں چلتی۔ میرے مقدر میں یہ نہیں لکھا کہ میں اپنے حالات تبدیل کر سکوں اور اپنی سوچوں کی بے چینی تبدیل کر سکوں ۔ میں اپنی ذات پر جتنا اختیار رکھتا ہوں اُسی کو استعمال کرتا ہوں – رات بھر بے قراری میں آنسو بہا کر وقت گزار لیتا ہوں اور دن میں مصیبتیں جھیل کر اپنی روح کو تسکین پہنچا لیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوںکہ میری اِس دنیا میں ناکامی و نامرادی کا کوئی صحرا نہ ہو لیکن یہ سماج اور معاشرہ میری خواہشات کا احترام نہیں کرتا ۔ میں جبرِ فطرت کو پیروکار بنا ہوا ہوں اور یہ دردوالم بھری زندگی لاچاری اور مجبوری میں بسر کر رہا ہوں
مماثل شعر
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
شعر نمبر ۶
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
مرکزی خیال
اس شعر میں میر اپنے محبوب کی اُن سے بیزاری کا تذکرہ کر رہا ہے۔
تشریح
محبوب کی فطرت میں کرم کے بجائے بے رخی اور بے نیازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے عاشق پر کبھی نظر عنایت نہیں کرتا۔ اگر کبھی التفات کرتا بھی ہے تو رقیب پر اس لئے نہیں کہ اسے رقیب سے محبت ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے عاشق کو مزید تکلیف پہنچائے۔ یہاں شاعر نے محبوب کو آہوئے رم خوردہ سے استفادہ کیا ہے جس طرح ہرن انسان کو دیکھ کر چوکڑیاں بھرتا ہوا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جب ہماری نظر محبوب سے ملتی ہے تو وہ ہم سے فوراً ہی نظریں چرا کر گزر جانا چاہتا ہے۔ اس کی ہم سے بیزارگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی کترا کر گزر جاتا ہے۔ اور ہمیں اتنا عکس بھی نہیں دیتا کہ ہم اس کا حسین عکس اپنی آنکھوں میں سمو سکیں۔ جبکہ وہ ہمارے رقیب پر نظر و التفات کی بارشیں کرتا ہے اور ہم یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ اس وحشت زدہ ہرنی پر ہمارے سامنے ایک لمحہ بھی ٹھیرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہماری لاکھ کوشش کے باوجود ہم سے مانوس نہیں۔
میر اپنے رقیبوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واقعی وہ باکمال لوگ ہیں جنہوں نے تجھ کو اپنا اسیر بنا لیا اور ہمیں تو اظہارِ محبت کا سلیقہ تک نہ آیا۔ ہمارا محبوب راستے کے پتھر کی طرح ہمیں ٹھوکر مارتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہر بار ہمارے دل کو ایک نیا زغم دے جاتا ہے

Class XI, Urdu, "خواجہ میر درد غزل 2"

خواجہ میر درد غزل 2

شعرنمبر ۱
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
خواجہ میر درد اللہ تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وسیع و عریض کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی موجود نہیں ہے۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی کیفیت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہیں کہ کون و مکان کی وسعتوں میں صرف ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے اور صرف ایک ہی معبود کا نور پھیلا ہوا ہے۔ اگر ہم گنہگار انسانوں کے اذہان میں یہ خیال آتا ہے کہ اس کائنات میں خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ بھی کوئی اور ہستی موجود ہے تو یہ سراسر غلط ہے اور شرک کی ابتداءہے۔ ارض و سما کا ہر ذرئہ جمال نورِ خداوندی کا مظہر ہے۔ اس کرئہ ارض میں موجود چمکتی نہریں‘ حسین و دلکش وادیاں‘ آفتاب و مہتاب‘ فلک وزمین ہر شے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا وجود نہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ جب اس پھیلی ہوئی کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کا حسن موجود ہے تو ہمارے دل و ماغ اور سوچ و فکر میں بھی اسی کا خوف ہونا چائیے۔ ہمیںاپنے خالقِ حقیقی سے محبت کرنی چائیے‘ ہمارا ہر عمل اسی کے احکامات کے مطابق ہونا چاہیے‘ ہماری خواہشات‘ ہماری آرزویں‘ ہمارے افکار سب اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کے پابند ہونے چاہئے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق بسر کریں اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہو کر اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کریں
مماثل شعر
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
شعرنمبر ۲
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
مرکزی خیال
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے دل کی کیفیات کا سہارا لیتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے محبوب کی تلون مزاجی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تشریح
اِس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آج کل میرا دل کچھ عجیب سی کیفیت سے دوچار ہے۔ میرے دل میں ایک بے چینی اور بے قراری ہے۔ میرا دل فیض، سکون، نشاط اور راحت سے عاری ہے۔ ہر لمحہ میرے دل میں ایک نئی اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے اور میرا دل طرح طرح کے طریقوں سے مجھ پر ظلم کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے دل گرفتہ محبوب! میرا دل تیری محبت میں گرفتار ہے اس لئے اِس نے بھی تیرے ہی طور طریقے سیکھیں ہیں۔ اس کا رویہ آج کل ایسا ہے جیسا تیرا برتاﺅ ہے۔ شاعر کو اپنی محبوب کی رضا و مشیت بہت عزیز ہے۔ اس لئے وہ بڑی خوبصورتی سے اپنے محبوب کو اِس بات سے آگاہ کرتے ہیںکہ تیرا مزاج بھی ہر گھڑی بدلتا رہتا ہے اور یکساں نہیں رہتا۔ میرا دل بالکل تیرے برتاﺅ کی طرح ہے۔ کسی لمحہ تو ہم پر مہربان ہو جاتا ہے اور کسی لمحہ تو ہم کو امتحان میں ڈال دیتا ہے،کبھی بیگانگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی یگانگت کا۔ غرض ہر نیا آنے والا لمحہ مجھے ایک نئے سلوک سی ہمکنار کراتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ تم سے متاثر دل کبھی ایک حالت پر نہیں رہتا
مماثل اشعار
ایک حالت پر نہ رہنے پائیں دل کی حالتیں
تم نے جب دیکھا نئے انداز سے دیکھا مجھے
تیرے چہرے سے تلون تیرا کھل جاتا ہے
ہم نے اس پھول کو سو رنگ بدلتے دیکھا
شعرنمبر ۳
لے خبر تیغِ یار کہتی ہے
”باقی اس نیم جان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
شاعر محبوب سے کہتے ہیں کہ تیرے ظلم و ستم کی وجہ سے میری حیاتِ ناپائیدار کاابھی تک خاتمہ نہیں ہوا ہے اِس لئے تو میری روح کو میرے جسم سے جدا کر دے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے ایک سچے عاشق کے کردار کی ترجمانی کی ہے۔ شاعر کا محبوب جو اُس کے نہایت کرخت امتحان لیتا ہے شاعر کے ذہن میں یہ بات نقش کر جاتا ہے کہ اُس کا عاشق اُس پر شاید اس لئے ظلم و ستم کر رہا ہے کہ وہ مر جائے اور اُس کی موت کی وجہ سے محبوب کی روح کو تسکین پہنچ جائے۔ وہ مخاطب کرتا ہے کہ اے میرے ناراض محبوب تو نے ہم پر بہت ظلم و ستم کر لئے۔ تیرے مظالم و جبر ہم پر اِس حد تک ہیں کہ ہمارے اندر ہماری جان بھی باقی نہیں رہی۔ ہم نہایت ہی مظلوم اور بے کس ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم کو تیری رضا اور خوشنودی مشروط ہے۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم تیری توجہ کا مرکز بنے رہیں اور اسی حالت میں رخصت ہو جائیں۔ تو ہمارے قتل کا بہت شائق ہے اور شاید تو سمجھ رہا ہے کہ تیرے اِن سختیوں کی وجہ سے اب تک ہم تم سے جدا بھی ہو گئے ہوں گے۔ لیکن ہم تجھ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب بھی ہم میں کچھ جان موجود ہے حالانکہ تیری خوشی اس میں ہے ہم بالکل فنا ہو جائیں۔ اس لئے ہماری آرزو ہے کہ تو ہمارے مزید امتحان لے کر ہماری اِس حیاتِ فانی کو بالکل ختم کردے۔ ہماری بھی آرزو پوری ہو جائے گی کہ مرتے وقت ہم کو صرف اور صرف تیرا دیدار نصیب ہوگا
مماثل شعر
تجھ کو برباد تو ہونا تھا مرے دل لیکن
ناز کر ناز کہ اُس نے مجھ کو برباد کیا
شعرنمبر ۴
اِن دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے عشق کی والہانہ کیفیت کا ذکر کیا ہے۔
تشریح
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عشق کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جذبہ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس کی شدت کا یہ عالم ہے کہ دل و دماغ پر محبوب کا تصور چھایا رہتا ہے۔ محبوب چاہے اُس کے نزدیک ہو یا نہ ہو، اُس کے پاس آئے یا نہ آئے، اُس سے کوئی بندھن رکھے یا نہ رکھے، اُس کی عزت و عقیدت کرے یا نہ کرے، وہ ہمیشہ اُس کی ذات میں بسا رہتا ہے۔ ہر لمحے محبوب کی یاد اُسے ستاتی رہتی ہے۔ بظاہر وہ اس دنیا کے معاملات میں مگن نظر آتا ہے لیکن در حقیقت وہ اپنے ہم عصروں کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔ اُسے ہر چیز میں اپنا محبوب نظر آتا ہے، ہر آواز اپنے چاہنے والے کی معلوم ہوتی ہے اور ہر آہٹ محبوب کی سنائی دیتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
بیٹھے بیٹھے اپنے خیالوں میں گُم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
شاعر کہتا ہے کہ اگر یہ جذبہ کسی کے دل میں موجود ہو تو وہ ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اُس کا دل و دماغ بے خودی کے عالم میں چلا جاتا ہے اور کائنات کی ہر شے اُسے محبوب کی یاد دلاتی ہے۔ ہر لمحہ اُس کے ذہن میں اپنے چاہنے والے کی خوشبو مہکتی رہتی ہے اور وہ خوبصورت یادوں کو دہرا کر ایک نشے میں مست ہو جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آج کل ہم بھی اسی قسم کی کیفیت سے دوچار ہیں اور ہم پر بھی ہر وقت کسی کا سایہ رہتا ہے۔ درد کا یہ شعر سہلِ ممتنع کی بہترین مثال ہے
مماثل شعر
گفتگو کسی سے ہو دھیان تیرا رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
شعرنمبر ۵
اور بھی چاہئے سو کہئے اگر
دلِ نا مہربان میں کچھ ہے
مرکزی خیال
شاعر اپنے محبوب سے خود کو برا بھلا کہنے کی دعوت اِس امید پر دے رہا ہے کہ شاید اِس نامہربان دِل میں مہربانی کے جذبات پیدا ہو جائیں۔
تشریح
پیشِ نظر شعر میں شاعر خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے محبوب کے طعنے، سرد مہری اور ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب ! ہم تیرے سچے عاشق ہیں۔ ہم تیری توجہ ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے ہمیں ہر قسم کے طعنے اور کلمات سننے پڑیں۔ ہمیں اگر تیری زبان سے دل شکنی کی باتیں بھی سننی پڑیں تو بھی ہم نہایت خوش دلی سے اُن کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر تو ہمارے محبوب کی طرح ہم پر توجہ نہیں دے سکتا تو ہم کو یہی منظور ہے کہ تو ہم پر غصہ ہو اور ہم سے ناراضگی کا اظہار کرے۔ اِس لئے ہماری درخواست ہے کہ اگر تمھارے دل میں اور بھی کچھ ہے تو بلا تکلف کہو اور یہ مت سمجھنا کہ ہم برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ہم بڑی خوشنودی اور رضا سے اس کا استقبال کریں گے اور تجھ پر بالکل ناراض نہ ہوں گے۔
شاعر اپنے محبوب کو اس اُمید پر دعوت دے رہے ہیں کہ شاید اُن کا محبوب غصے کے اظہار ہے بعد اپنے رویے پر خود ہی شرمندہ ہو جائے اور اُس کا دل مہربان ہو جائے۔ اِس طرح شاعر کو اپنے محبوب کی قربت حاصل ہو جائے گی
مماثل شعر
لاگ ہو اُس کو تو ہم سمجھیں لگاﺅ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
شعر نمبر ۶
درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
تشریح
شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے درد تم جو ہر وقت اپنے ستم پیشہ اور تغافل پسند محبوب کے عشق میں خود کو گھلاتے رہتے ہو، اذیتیں اٹھاتے ہو اور اس طرح اپنے دل کا نقصان کرتے ہو، اس نقصان میں آخر تم کیا فائدہ دیکھتے ہو؟ ظاہر ہے کہ جس چیز کو تقصان قرار دیا جائے اس کے ساتھ کسی قسم کے فائدے کا کیا تصور وابستہ کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ نقصان اور فائدہ دونوں کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ اے درد تمھیں یہ عشق کا جھنجھٹ چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے فائدے کی بات سوچنی چاہئے